عصر ِ حاضر میں جب ہم چہار سُو نظر ڈالتے ہیںتو یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے معاشرے کاہر شخص ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہے ،اُس کی زندگی سے چین و سکون غارت ہوا ہے اوروہ ذہنی انتشار کی وجہ سے طرح طرح کی جسمانی بیماریوں اور ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔جس کے نتیجے میںخاندانی نظام بکھرر ہےہیں، ہمدردی اور محبّت جیسی چیزیں عنقاء ہورہی ہیں، والدین تنہائی کے شکار ہو رہے ہیںاوربچے محبّت کیلئے ترس رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نہ صرف حالات بالکل بدل چکے ہیں بلکہ ہر معاملہ اُلٹ پلٹ ہوچکا ہے اور ہر سطح پر ہر میدان میں نمایاں فرق آگئی ہے،خصوصاًنہ کسی بات سُنی جاتی ہے اور نہ کسی کی بات پر عمل کیا جاتا ہے۔ جو کوئی بھی جو کچھ کہتا رہتا ہے وہ خود اُس پر عمل پیرا نہیں رہتا اور جو کچھ نہیں کیا جانا چاہئے ، وہی کچھ کرتا رہتا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ شائد اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آج کا انسان حق پرستی اور دینداری سے کوسوں دور ہوچکا ہے اور ہر کوئی مادہ پرستی کی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے، جو پورے معاشرے کے لئے ناسور بن گئی ہے اور جس کی تمام ظاہری و باطنی شکلیں ہر سُو عیاں ہیں۔بے شک جب مادیت انسانی دلوں میں سرا یت کر جاتی ہے تو مال و دولت اور اعزاز و مفادات کی پر شتش مجبوری بن جاتی ہے۔ یہی وہ بیماری ہے جس نے انسان کو ہر شعبہ میں اضطراب اور بےچینی کا وارث بنا دیا ہے۔اسی بیماری نےہر دل میں بغض و عداوت کے بیج ڈال دئے ہیں اور ختم نہ ہونے والی تباہ کاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، اس کے باوجود بھی لوگ اس بیماری کے خطر ات کی طرف دھیان نہیں دیتے اور نہ ہی اس سے گلو خلاصی کی ہمّت کر پاتے ہیں ۔گویاکسی کو سچائی سے کوئی مطلب نہیں رہا ہے اور ہر کوئی جھوٹ کی خُو میں بدمست ہوکر مفاد پرستی کا پُتلا بن کےرہ گیاہے۔سوال یہ ہے کہ آخر اس مرض کا علاج کیوں نہ ہوتا ،اس کی کیا سبیل کی جائے کہ انسان کے اندر انسانیت ترقی کرنے لگے اور انسان کی معنو ی زندگی کا عروج ہوجائے ۔کیا کوئی ایسا طریقہ ہے ،جس سے غفلت کی دبیز چادر کو ہٹا یا جا سکے تاکہ انسان کا دل سچ پر آمادہ ہو ،انسان انسانیت کو اپنا پیمانہ بنائےاور سچ کا روشن پہلو بنے ۔واضح طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسا راستہ ہے، جس پر چل کر انسانیت اپنے دور ِطفلیت سے ترقی کر کے دورِ تجربہ وآزما ئش اور دورِ عقل فہم میں داخل ہو سکے ؟اگر ہم تھوڑا سا غور و فکرکرلیں اور اپنے اندر کی آواز کو سننے کی کوشش کریں اور ساتھ ساتھ عقل و فہم کے گھوڑے دوڑ ا ئیں تو معلوم ہوگا اس کا علاج موجود ہے کہ ہم خارجی حرکات کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ اپنے اندرون کا بھی بغور جائزہ لیتے رہیں ، باطنی آنکھ کو بیدار کرکے اپنے اند رونی وجود کو ہوشیار اور چوکس رکھیں ۔اگر ہم اپنے اس باطن کو بیدار کر دیں اور باطن کو ظاہر اور ظاہر کو باطن سے ملا دیں تو ہم نے گویا مقصد ِوجود کو پا لیا اور اپنے قلب کو سکون دینے میں کامیاب ہو گئے ،جو زندگی کے لئے بہت ضروری اور اہم ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کے تضاد سے بچیں اور حق پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔ زبان سے جو کچھ بولیں، سوچ سمجھ کر بولیں اور جو بولیں اس کو اپنے کردار میں شامل کرنے کی کوشش کریں اور اگر ہمیں صحیح معنوں میں ایک بہتر معاشرہ کی تعمیر کرنی ہے جو سکون و ترقی کیلئے بے حد ضروری ہے تو ہمیں ہر حال میں اس بات کی کوشش کرنی پڑے گی کہ جو بات بھی ہم زبان سے کہہ رہے ہیں، خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں، ورنہ سماج کو انتشار سے بچانا ممکن نہیں، جس کی زد میں ہر خاص و عام آرہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی بڑی بڑی شخصیتیں جنہیںعام انسان کامیاب ترین انسان سمجھتے ہیں ،وہ بھی اندر سے ٹوٹےہوئے اور بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں، اور کبھی کبھی ایسی خبریں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ بھلا ایسے کامیاب انسان بھی صحیح معنوں میں زندگی کے سکھ اور چین سے کتنے دورہیں ۔الغرض ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کا ہر شخص اپنا محا سبہ کرےاور صرف گفتار کا غازی نہ بنےبلکہ ہر بات کے ساتھ عملی کردار بھی پیش کرنے کی کوشش کرے ۔ورنہ بہتر یہی ہے کہ چپ چاپ اپنی دنیا میں مگن رہے،کیونکہ آپ کے بولنے کا سماج پر کوئی اثر ہونے والا نہیں۔ آپ اپنی ڈفلی بجا تے رہیں گے اور لوگ اپنے دھندے میں لگے رہیں گے ،تا ایں دم ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔