خرد کا نام جنوں جنوں کا خرد رکھ دیا
جو چاہے تیرا مشن کرشمہ ساز کرے
اقبال
گزشتہ دنوں مرکزی وزیر ٹوراِزم انفونس کن ناتھم کاایک مضحکہ خیز اور بے سروپا بیان منظرعام پر آیاہے جسے انہوں نے پٹرول، ڈیزل اور دیگر پٹرولیم کی قیمتوںمیں بھاری اضافے اور ٹیکسوں اور ایکسائز ڈیوٹیوں میںبڑھوتری کو جائز قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ جولوگ پٹرول اور ڈیزل خرید رہے ہیں۔ وہ غریب نہیں ہیں اور نہ ہی وہ بھوکے مرر ہے ہیں۔ پٹرول، ڈیزل خریدنے والے کا ر اور بائیک کے مالک ہیں۔ انہیں ٹیکس دیناہی پڑے گا۔ سرکار کو غریبوں کا بھلا کرناہے۔ اُس کے لئے پیسے چاہیے۔ اس لئے امیروں پرٹیکس لگ رہاہے‘‘ ۔ وزیرموصوف کس طرح عوام سے خود فریبی میں مبتلاہونے کی پٹی پڑھارہے ہیں۔ حکومتی اکابرین بخوبی سمجھتے ہیں کہ پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس صرف ان اشیاء میں قیمتوں میں اضافہ در اضافہ ہی نہیںہوتا بلکہ عام آدمی بالخصوص غرباء کا کچو مر نکلتا ہے ۔ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا یہ مطلب ہے کہ ذرائع حمل و نقل یعنی ٹرانسپورٹ مہنگا ہوجائے یا سادہ لفظوں میںآمدورفت کے اخرجات بڑھ جائیں ، جس کا یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے کہ بچارا صارف بے موت مر جاتاہے۔ پٹرول کے نرخ بڑھنے کے زیادہ تراثرات سامانِ زیست کے خرید وتصرف پر براہ راست مرتب ہوتاہے ۔اس لئے ہم ڈنکے کی چوٹ پہ کہہ سکتے ہیں کہ سیال سونے کی قیمتوں میں بڑھوتری سے عام غریبوں کی پیٹ پر لات اور پیٹھ پرپہاڑ جیسی لات پڑتی ہے کیونکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو بھاڑے، ٹیکسوں اور محصولات میں بھی فطری طور اضافہ ہوتاہے، یعنی ہم مان کر چلیں کہ اس سے معاشرے کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے اور ضروریاتِ زندگی یا اشیائے ضروریہ کے بھاؤ خود بخودتاؤ کھاجاتے ہیں۔ اس لئے کسی مرکزی نیتا کا یہ کہنا کہ پٹرول والے گاڑیاں چلانے والے ہوتے ہیں ،انہیں ٹیکس دینا ہوگا ،یہ لوگ بھوکوں نہیں مر تے ، یہ ایک خلط مبحث ہے جس کو غریبوں سے ہمدردی جتانا صحت مند سیاست کاری نہیں کہلائی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ہوش مند اور ذی فہم شہری نے وزیر موصوف کی بے تکی دلیل کو تسلیم ہی نہیںکیا بلکہ اس بیان کو بچگانہ سمجھ کر نظرانداز کردیاہے۔ البتہ عوام کو چوکنا رہتے ہوئے ایسے امرائے سلطنت اوروزرائے حکومت کی چمتکاری زبان کی ہر چھوٹی بڑی بات کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا مقصد معاملات کو خلط ملط کر کے پیش کرنا ہوتاہے۔
ماضی میںعموماً دیکھنے میںآتا کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت میں ہندوستان میں بھی ان اشیاء کی قیمتوںمیں وقفہ وقفہ سے اضافہ ہوتا رہاہے اور ان اشیاء کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کے باعث ہی ان کے نرخوںمیں کمی آتی رہی ہے لیکن اب کہ ہندوستان میں اس بالکل ہی نئے عمل کو رواج دیا گیا ہے کہ جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بتدریج کمی ہوتا ہے تو ہندوستان میںتیل اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتاہے۔ ایسا کیوں ہورہاہیـ؟ اس چیستاں کو ہمیںسمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ گہرائی سے دیکھا جائے تو اس کے لئے سرکاری پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ پیشترازیں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں وقتاً فوقتاً مرکزی سرکار مقرر کرتی تھی لیکن اب سرکار اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوچکی ہے اور یہ کام تیل کمپنیوں کے حوالے سے کردیا گیاہے ۔ اس پر بھی طرئہ یہ ہے کہ قیمتوں میں یہ ردوبدل وقفے وقفے کے بنیاد پر نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر کیا جاتاہے۔ وقفے وقفے کی بنیاد پر اضافہ کرنے کے عمل سے لوگوں کو محسوس ہوجاتاتھا کہ اس قدر اضافہ ہوگیاہے اور وہ چوکنے ہوجاتے تھے۔ اب روزانہ اضافہ کے باعث یہ احساس ہی نہیں ہوتا ہے اور عرصہ کے بعد پتہ چلتاہے کہ ایندھن کی قیمت آسمان کو چھورہی ہے اور صارف پائوں سے زمین کھسک جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پٹرول ، ڈیزل کے دام گزشتہ تین برسوں کی سب سے زیادہ بلندیوں پر ہیں لیکن اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں پہلے کے مقابلے میں تیل کی قیمتیں آدھی ہوچکی ہیں لیکن صارفین کو کوئی دمڑی کے برابر چھوٹ نہیں دی جاتی۔ جون 2014 میں جوکچا تیل 115ڈالر فی بیرل تھا۔ وہی اب نیچے گر کر 50.55ڈالر کے لگ بھگ ٹک گیاہے۔ لیکن ہندوستان میں اس کے باوجود 2014سے لے کر لگاتار 9 مرتبہ ڈیزل ، پٹرول پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے۔ اس وقت پٹرول پر ایکسائز ڈیوٹی 9.20فیصدی تھی جو جنوری 2017تک بڑھ کر 21.48فیصدی ہوگئی ہے۔ اسی طرح ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی نومبر 2014میں 3.46فیصدی تھی جو اب جنوری 2017تک 17.33فیصدی ہوگئی ہے۔26 مئی 2014ء کو جب مودی سرکار نے حلف لیا تب کچے تیل کی قیمت 6330.65روپے فی بیرل تھی جو پچھلے ہفتے ہی آدھی گھٹ کر تقریباً3368.39 بیرل ہوگئی ہے۔ سولہ جون سے ڈائنمک پرائی سنگ لاگو ہرنے سے روزانہ نرخ بدل جاتے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار ہی بتاتے ہیں ۔ موجودہ سرکار کے آنے کے بعد سے ڈیزل پر لاگو ایکسائز ڈیوٹی میں 380فیصدی اور پٹرول کی ایکسائز ڈیوٹی میں 120فیصدی اضافہ ہوچکاہے ۔ کئی صوبوںمیں پٹرول کے دام 80روپے فی لیٹر سے پار ہوچکے ہیں۔ سترہ ستمبر کو ممبئی میں پٹرول 79.62روپے، ڈیزل 62.55روپے، دہلی میں پٹرول 70.51روپے، ڈیزل 58.88 روپے فی لٹر رہا۔
تیل کے کھپت کار کی نظرسے دیکھیں تو عالمی منڈی کی موجودہ قیمتوںکے مقابلہ میں یہاں فی لٹر بھگتان کی جانے والی قیمت کا تقریباً آدھا پیسہ ایسے ٹیکسوں کے ذریعہ سرکار ی خزانہ میں پہنچ رہاہے۔ بڑے داموں کا 75سے 80فیصدی سرکاری خزانہ میں۔ جبکہ کھپت کار وں کو صرف 20.52فیصدی ہی مل پاتاہے۔ ماہرین اقتصادیات کے اندازہ پر جائیں تو پچھلے تین برس میں کم از کم پانچ لاکھ کروڑ روپے سرکار کے پاس جمع ہوئے ہیں۔
منسٹر متعلقہ کی بات کو کون دُرست ٹھہرائے؟ اس کے مقابلے میں عام آدمی کی اس سوچ کو غلط ٹھہرانے کی کسی میں ہمت ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ سے صرف ذاتی پٹرول اور ڈیزل پر خرچ ہی نہیں بڑھتاہے۔ بلکہ ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ ٹرانسپورٹ ٹیکس جو سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جاتاہے ۔ مہنگا ہوتاہے۔ اس سے اس کی لاگت بڑھ جاتی ہے ۔ افراط زر بھی بڑھتاہے۔ تھوک قیمت انڈکس میںاضافہ ہوتاہے۔ کھلے بازارکے نام پر پٹرول کی قیمتوں میں دخل نہ دے کر کھپت کاروں کا حصہ مارا جارہاہے۔ سرکار کی کمائی بچی رہے۔ اس لئے مرکزا ور صوبوں نے اسے جی ایس ٹی سے بھی باہر رکھا ہے۔کیا ریونیو اکٹھا کرنے کے لئے موجودہ سرکار کے پاس پٹرول ٹیکس وصولنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے؟ کیاپٹرولیم منسٹر کی ٹویٹ دنیا کے کئی ممالک میںبھارت سے مہنگا پٹرول اور ڈیزل ملتاہے جو ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ممالک برابر پہنچ جائیںگے؟ زیادہ دورنہیں پڑوس میںپاکستان ، بنگلہ دیش ، سری لنکا میںپٹرول اور ڈیزل کے دام ہم سے کم ہیں۔ کیا ہم ان سے بھی ہم پیچھے ہیں؟ کیا ان کو سرکاری خزانہ میں دھن کی زیادہ ضرورت نہیں ہے؟ کیاانہیں غریبوں کی ترقی اور بہبود کی فکر نہیں ہے؟ مئی 2008میں جب یوپی اے سرکار نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوںمیں چار سال پہلے اضافہ کیا تھا، تب اسی بھاجپا نے سرکار پر اقتصادی دہشت گردی کے الزامات لگائے تھے اور آج اس سے بھی آگے نقش قدم پر ہے۔
وزیر پٹرولیم دھرمیندر پر وہاں کی جی ایس ٹی کو نسل سے پٹرولیم اشیاء کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لانے کی اپیل پر عمل درآمد کے بعد تمام ملک میں یکساں ایکسائز کا کیا اثر ہوگا؟ اس سلسلہ میں کچھ کہنا جلد بازی ہوگی۔ فی الحال مرکزی وزیر پٹرولیم انفونس کن ناتھم کے الفاظ کی گونج ہی کافی ہے جس میں انہوںنے کہا ہے کہ جو لوگ پٹرول اور ڈیزل خرید رہے ہیں وہ غریب نہیں ہیں ا ورنہ ہی بھوکے مررہے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہی اچھے دن ہیں اور دیش بدل رہاہے۔
مرکز کی مودی سرکار کی روزانہ پٹرول ریٹ بدلنے کی پالیسی کی وجہ سے تقریباً تین ماہ میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوںکوآگ لگ گئی ہے۔ مرکزی سرکار نے اس برس سولہ جون کو نئی پالیسی لاگو کرکے پٹرول وڈیزل پر سرکاری کنٹرول ہٹا کر دام فکس کرنے کاکام کا اختیار کمپنیوں کو دے دیاتھا جس کے بعد پٹرول ڈیزل کو مانو آگ لگ گئی اور اس کے ریٹ روزانہ لگاتار بڑھتے ہی جارہے ہیں۔مرکزی سرکار کی نئی ویوستھا سے کھپت کاروں کوکوئی راحت نہیںملی ۔ البتہ ان کی جیب پر زیادہ بوجھ بڑھ جانے سے ان میںبھاری مایوسی پائی جارہی ہے۔ وہیں مہنگائی میں بھی زیادہ اضافہ ہونے سے جنتا کی مشکلات بڑھیںگی۔ یکم جولائی 2017کو 67.97روپے فی لٹر تھا۔ آج ستمبر کو جب یہ سطور رقم کی جارہی ہیںکو پٹرول 75.38 روپے فی لٹرہے۔ اس طرح یکم جولائی کو ڈیزل کانرخ 53.57روپے فی لٹر تھاجب کہ بارہ ستمبر کو ڈیزل کے نرخ 58.78روپے فی لٹر ہوگئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میںیکم جولائی سے اب تک تقریباً اڑھائی ماہ سے کم عرصہ میں پٹرول 7.34روپے فی لٹر اورڈیزل 5.17روپے فی لٹر مہنگا ہوگیاہے۔ سولہ جون کو کمپنیوں کے ہاتھوںمیں اختیار آنے کے بعد پندرہ دنوں میں پٹرول و ڈیزل کے دام گھٹائے گئے تھے جس سے ایک بار تو جنتا کولگا کہ مودی سرکار کے فیصلے سے جنتا کوفائدہ ملے گا لیکن پندرہ دنوں میں وہ خوشی رفو چکر ہوگئی اور لوگوںمیں بھاری مایوسی کا عالم دیکھنے کو مل رہاہے۔ سولہ جون سے جب کمیٹی نے دام کم کرنے شروع کئے تو یکم جولائی کو پٹرول 64.97اور ڈیزل 53.57روپے فی لٹر تک پہنچ گیاتھا، مگر اس کے بعد بازارمیں آئے چڑھائو نے پیچھے مڑ کر نہیںدیکھا۔
اب نجی کمپنیوں کی من مانیوں کا خاص اثر اور لوگوںمیں غصہ اس لئے دیکھنے کو نہیںملتا کیونکہ کمپنیاں روزانہ نرخ فکس کرنے کے دوران اگردام کم کرتی ہیں تو پانچ سے دس پیسے کم کرتی ہیں اور بڑھاتے وقت تیس سے چالیس پیسے تک فرق ڈالا جاتا ہے،جس کی وجہ سے انٹرنیشنل بازارمیںخام تیل وڈالر کے مقابلے میں روپے کے کمزور ہونے کا سارا بوجھ اس وقت جنتا کے سر مڑھ دیا جاتارہاہے، کمپنیوں کو ادھیکار سونپ دینے سے پہلے ریٹ فکس کرنے کا کنٹرول مرکزی سرکار کے ہاتھوںمیں ہوتاتھا اور انٹرنیشنل سطح پر اس اُتار چڑھائو کا سارا بوجھ جنتا کے سر نہیں ڈالاجاتاتھا۔
کمپنیوں کو ادھیکار سونپ دینے سے پہلے مرکزی سرکار نے دعویٰ کیا تھا کہ کھپت کاروں کو ایس ایم ایس کے ذریعے روزانہ ہونے والے اُتار چڑھاچڑھائو کی جانکاری مہیا ہوگی تاکہ انہیں پٹرول و ڈیزل کے روزانہ نرخوں کا پتہ چلتا رہے لیکن سرکار نے نہ تو اپنے دعویٰ کو عملی جامہ پہنایا اور نہ ہی جنتا کو اس بارے میں بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ ویسے کمپنیوں نے اس بارے میں موبائل ایپ لانچ کی ہے لیکن اس ایپ کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں ہے۔ وہیں کئی پٹرول پمپ بھی کھپت کاروں کو اس بارے میں جانکاری دینے سے گریز کررہے ہیں۔ ان پمپوں میںپٹرول ڈیزل کے موجودہ داموں کی جان کاری مہیا کروانے کے لئے ڈسپلے بورڈ خراب پڑے ہوئے ہیں۔ بہر حال پٹرول اور ڈیزل اور دیگر پٹرولیم پراڈکٹس کی قیمتوںکااضافہ تشویش ناک ہے اور اس سلسلہ میں عوام کی آواز حق بجانب ہے کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی جائے۔ مودی سرکار کے وزراء اپنے آقاء کی طرح محض زبانی جمع خرچ اور تکرار بازیوں سے عوام کا پیٹ بھرنا چارہے ہیں۔ انہیں اس کی اجازت نہیںدی جانی چاہیے اور اُن کی عوام کے دُشمن کے خلاف شدید احتجاج کیا جاناچاہیے جس میں محض تیل کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے اور سرکاری خزانہ میں اضافہ دکھانے کے لئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میںاضافہ کیا گیاہے اور مطالبہ کیا جانا چاہئے کہ ٹیکسوں اور ایکسائز ڈیوٹی میںکمی کرکے پٹرول، ڈیزل اور دیگر پٹرولیم پڑاڈکٹس کے نرخوںمیں کمی کی جائے۔
پچھلے تین مہینوں میںپٹرول وڈیزل کے داموں پر ایک نظر
تاریخ پٹرول (روپے فی لٹر) ڈیزل (روپے فی لٹر)
یکم جولائی 67.97 53.57
چودہ جولائی 68.79 54.88
تیس جولائی 69.94 55.52
سولہ اگست 73.17 57.53
اکتیس اگست 74.21 57.23
بارہ ستمبر 75.38 58.78
……………….