لمحۂ فکریہ
سید مصطفیٰ احمد
جو شخص اپنے پاس موجود چیزوں پر قناعت کرتا ہے، وہ اس دنیا کا سب سے امیر انسان ہے۔ بچپن میں ایک اسلامی مدرسے میں ہمارے استاد نے ہمیں سکھایا تھا کہ انسان کی لالچ کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی۔ اگر اسے سونے کا ایک پہاڑ مل جائے تو وہ دوسرے کی خواہش کرے گا اور سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ اسی طرح وہ موت کے بستر پر پہنچ جاتا ہے اور پھر زمین ہی اس کے پیٹ کو بھر دیتی ہے۔ اس بات کے اصل الفاظ جو بھی ہوں، حقیقت یہی ہے کہ انسان کی لالچ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ کی خواہش اس کی زندگی برباد کر دیتی ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی انداز میں لالچی ہے۔ کوئی مادہ پرستی میں اندھا ہے تو کوئی جھوٹی تعریف کے پیچھے بھاگتا ہے۔ کچھ دوسروں پر حکمرانی چاہتے ہیں اور کئی اپنی پارسائی کو دوسروں کی نظروں میں بلند کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کوئی بھی لالچ کی برائی سے آزاد نہیں ہے۔ لالچ زمانہ قدیم سے ہے۔ کائنات کی تخلیق کے بعد لالچ کا بیج بویا گیا اور اب یہ اتنا مضبوط اور زہریلا ہو گیا ہے کہ کسی بھی محنت سے اس کی بنیادوں کو نہیں ہلایا جا سکتا۔
اگر ہم اس کے اسباب کو دیکھیں تو کچھ وجہیں نظر آتی ہیں۔ پہلی مادہ پرستی ہے۔ مادّی چیزوں کی خواہش بغیر اخلاقی اور مذہبی اصولوں کی پروا کیے بغیر انسان کو بہت لالچی بنا دیتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس کے پاس مادّی چیزیں زیادہ ہوں وہ روحانی طور پر بھی مالا مال ہے۔ بظاہر مادّیت پرستی ایک چمکدار شئے نظر آتی ہے مگر اندرون میں اس کے پنجے بدصورت اور تلخ ہیں۔ یہ زہر ہے، اس کی فطرت کھردری ہے اور یہ انسانی اصولوں کو روندنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسرا تنگ نظری ہے۔ تنگ نظر شخص زیادہ سے زیادہ جمع کرنے میں سکون تلاش کرتا ہے۔ اس کی مادّی چیزوں کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی۔ دوسروں سے برتر بننے کی امید میں وہ اندھا ہو کر مادّی مقاصد کی پیروی کرتا ہے جو اس کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ تیسری نقل ہے۔ ہم اندھا دھند ان لوگوں کی تقلید کرتے ہیں جو کسی نہ کسی انداز میں خوشحال ہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ انسان کو چاہئے کہ معمولی چیزوں میں حتی الوسع قناعت کرے۔ ہر کسی کی زندگی دوسرے سے منفرد ہے، اس لئے کسی کی اندھی تقلید سے پہلے سوچنا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ جس شخص کے پیچھے ہم بھاگ رہے ہیں اس نے ناجائز طریقے سے دولت جمع کی ہو۔ اگرچہ غربت میں زندگی گزارنا بذات خود ایک لعنت ہے مگر اصولوں والی زندگی مضبوط بنیادوں والی ہوتی ہے۔
لالچ نے ہماری زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ جرائم، اخلاقی دیوالیہ پن، جنگیں، آلودگی، بیماری وغیرہ لالچ کے برے ثمرات ہیں۔ انسان کا دل ایک چیز کے بعد دوسری کی حد سے زیادہ لالچ کی وجہ سے بے چین ہے۔ سکون آج کے انسان کے لغت میں آخری لفظ ہے۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ لالچ بجھانے کے طریقے سوچنے میں ضائع ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ نمکین پانی کی مانند ہے، جتنا زیادہ پیو گے اتنی زیادہ پیاس لگے گی۔ نسلی صفایا اور خانہ جنگیاں بھی اسی برائی کے نتائج ہیں۔ اعتماد کا زوال اس کی زہر آلود فطرت کی وجہ سے ہے۔ خاندان کے رشتے لالچ کی موجودگی سے ٹوٹ چکے ہیں۔قناعت کی زندگی گزارنے کے لیے ہمیں اندھا دھند لالچ کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے، یہ ایک تاریک کنویں کی طرف لے جاتی ہے جہاں سے بچنا تقریباً ناممکن ہے۔ عقل مند انسان کی حیثیت سے ہمیں زیادہ سے زیادہ کی خواہش نہیں کرنی چاہیے۔ اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ اپنی زندگیوں میں لازم تبدیلیاں لائیں۔ یہ زندگی صرف لالچ کی خواہش سے بڑھ کر ہے۔ اس خوبصورت زندگی کا خیال رکھنا چاہیے۔ موت کے بستر پر جب آخری سانس ہماری ناک سے نکلے گی، ہمیں اپنے آپ پر فخر ہونا چاہیے۔ اس لئے اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ جتنا ممکن ہو، قناعت کی زندگی گزاریں۔
[email protected]