میری بات
سہیل ساحل
اردو شاعری کی روایتی بستی میں غزل کو ہمیشہ سے ایک خاص مقام حاصل رہا ہے بقول رشید احمد صدیقی ’’غزل اردو شاعری کی آبرو ہے‘‘ یہ وہ صنف ہے جو انسانی جذبات، عشق و محبت، ہجر و وصال اور زندگی کے گہرے تجربات کو نہایت خوبصورت اور دلکش انداز میں بیان کرنے کا بہترین ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ اسی روایتی زمین پر جدیدیت کا بیج بونے والوں میں ایک معتبر نام ڈاکٹر قمر عالم قمر کا بھی ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف کلاسیکی روایت کی عکاس ہے بلکہ اس میں عہدِ حاضر کے مسائل اور عصری حسیت کی جھلک بھی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ قمر صاحب کی شخصیت اور شاعرانہ خدمات پر لکھے گئے اس تبصرے کے ذریعے ان کی فنکارانہ خوبیوں اور فکری گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جس طرح غزل کا ہر شعر ایک مکمل خیال کا حامل ہوتا ہے، اسی طرح ڈاکٹر قمر عالم قمر کی شاعری میں بھی ہر لفظ ایک گہرا معنی رکھتا ہے۔ وہ الفاظ کے انتخاب میں تصنع اور بناوٹ سے کام نہیں لیتے بلکہ سادہ اور عام فہم زبان میں ایسے خیالات کو پیش کرتے ہیں جو قاری کے دل پر براہِ راست اثر کرتے ہیں۔ یہ سادگی ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی ہے جو اسے خاص اور دل پذیر بناتی ہے۔ ان کی شاعری میں رومانویت کے ساتھ ساتھ زندگی کے تلخ حقائق، انسانی المیے اور دکھ درد بھی نہایت خوبصورتی سے بیان ہوئے ہیں۔ وہ صرف غم و الم ہی نہیں دکھاتے بلکہ امید اور روشنی کی کرن بھی جگاتے ہیں۔
ان کی شاعری میں فکری گہرائی اور جذبات کی شدت ایک ساتھ موجود ہے۔ وہ محض اپنے ذاتی احساسات کو بیان نہیں کرتے بلکہ معاشرتی اور فلسفیانہ پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام نہ صرف عام قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے بلکہ سنجیدہ فکر رکھنے والے قارئین کے لیے بھی فکر و شعور کا ایک نیا دروازہ کھولتا ہے۔ قمر صاحب کی شاعری محض عشق و محبت اور ہجر و وصال تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں معاشرتی مسائل، انسانی کرب اور زندگی کی حقیقتوں کو بھی فنکارانہ انداز میں سمویا گیا ہے۔
قمر صاحب کی غزلوں میں جدت اور روایت کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ کلاسیکی غزل کی اقدار کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے منفرد لہجے اور اسلوب سے اس میں تازگی پیدا کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ایک طرف جذبے کی سچائی اور خلوص جھلکتا ہے تو دوسری طرف عصری مسائل کا ادراک اور فکری پختگی بھی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری مطالعۂ ذات کے ساتھ ساتھ مطالعہ کائنات کا بھی آئینہ دار ہے۔
ان کا کلام ملاحظہ ہو:
انہیں تو مجھ سے محبت بھی ہے انحراف بھی ہے
وہ ہم نوا بھی ہے میرا مرے خلاف بھی ہے
ہمیں عزیز ہے جو چیز تم سے ہے منسوب
خطوط اب بھی ہیں محفوظ اور لفاف بھی ہے
حضور سے یہ گزارش ہے جان لیں میری
سنا ہے خون محبت تو اک معاف بھی ہے
اے عمر خضر! کہاں ہے چھپی تو دنیا میں
تری تلاش میں لازم مجھے طواف بھی ہے
ہیں ایک چہرہ کئی چہروں میں چھپائے ہوئے
کہ دل کے آئینے میں ہی کوئی شگاف بھی ہے
قمر ہے برہنہ ہر شخص ساری دنیا کا
باری کا مگر قبا یہی تہذیب کا غلاف بھی ہے
ان کے کلام میں تضاد، استعاروں اور تشبیہوں کا جاندار استعمال نظر آتا ہے جو ان کی فکری گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ قمر صاحب کی غزلیں محض لفظوں کی جادوگری نہیں بلکہ احساسات کی سچی اور حقیقی عکاسی ہیں۔ ان کے کلام میں وہ تاثیر، سچائی اور شائستگی ہے جو انہیں اردو شاعری کے ایک معتبر قافلے میں شامل کرتی ہے۔ مجموعی طور پر ڈاکٹر قمر عالم قمر ایک ایسے شاعر ہیں جو اپنے سادہ مگر پر اثر انداز اور منفرد سوچ کے ساتھ اردو غزل کی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
جسم تو خاک ہے اور خاک میں مل جائے گا
میں بہرحال کتابوں میں ملوں گا تم کو