معراج زرگر
انکل جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔انکل جی۔۔۔۔۔۔۔۔!! پین لے لو۔۔۔۔۔!!
” لے لو نا صاحب۔۔۔۔۔۔۔دس روپیہ کا ہی تو ہے۔۔۔۔۔!!”
وہ ننھی سی لڑکی ایک ہاتھ میں قلموں کا ایک گچھہ اور دوسرے ہاتھ سے ایک میلے کچیلے چار پانچ سالہ بچے کا ہاتھ پکڑے کیچڑ سے لت پت پاؤں میں ایک ٹوٹی پھوٹی چپل پہنے اپنے جسم پر پھٹا پرانا گندہ سا میلا سا موٹا فراق پہنے میرے آفس کے دروازے کا پردہ اٹھاکر سیدھے میری ٹیبل کے پاس آئی۔ میں نے ڈیسک ٹاپ سے ہاتھ اٹھایا اور اس کی طرف پورے دھیان کے ساتھ دیکھنے لگا۔ میں نے اگلے لمحے اپنی ٹیبل پر پڑے کچھ بال پین اور ٹیبل کی دراز سے کچھ اور جل پین نکال کر اسے دکھایائے۔
“دیکھو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! ہم سرکاری ملازم ہیں اور سرکار ہمیں کام کرنے کے لئے قلم بھی دیتی ہے۔ ہمارے پاس بہت سے قلم ہیں۔”
وہ مگر مسلسل اور گڑگڑا کر قلم لینے کی آہ و زاری کرتی رہی۔
“لے لو نا سر جی۔۔۔۔!! اب آپ کو دس بیس روپیے سے کیا فرق پڑے گا۔ اللہ بھلا کرے گا۔ صاحب جی۔۔۔۔”
جب اسے محسوس ہوا کہ میں اس سے قلم لینے والا نہیں ہوں تو وہ مڑ کر میرے آفس روم میں باقی ساتھیوں کی طرف گھوم گئی اور ان سے بھی بڑی لجاجت کے ساتھ قلم لینے کی منتیں کیں, مگر چونکہ ان کے پاس بھی قلم موجود تھے تو انہوں نے بھی بہانے کرکے منع کیا۔ اور وہ برا سا منہ بناکر اور زیر لب کچھ بڑ بڑاکر کمرے سے مایوس نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد میں بڑی دیر تک اندر ہی اندر بڑا مضمحل اور پریشان سا ہوا۔ میں سرِ فلک مخلوق کی بے بسی اور غیر مساوی تعلق اور برتاؤ کے متعلق سوچ کر اندر ہی اندر کڑھتا رہا۔ میں خود ہی اپنا موازنہ اپنے سے زیادہ پڑھے لکھے انسانوں سے کرنے لگا جو نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے معمولی زندگیاں بسر کر رہے تھے اور مجھ سے کم پڑھے لکھے اور کم عقل و دانش رکھنے والے انسان مجھ سے عہدوں میں یا سماجی لحاظ سے بڑے یا اونچے تھے۔
میں نے آفس میں موجود اپنے دیگر ساتھیوں سے اس پر فلسفیانہ بات کرنا شروع کی۔
” کیا عجیب دنیا ہے شہنواز صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔ سماجی نا برابری اور وسائل کی غیر مربوط تقسیم سے دل اکثر آزرہ ہوتا ہے۔ اب اس بچی کو ہی دیکھو۔ کس قدر مفلس اور کم سن ہے مگر قلم بیچ رہی ہے۔ اور اس کا حلیہ اور کپڑے تو دیکھو۔ دل بڑا دکھ رہا ہے یہ چیزیں دیکھ کے۔ اب ذرا ہمارے اپنے بچوں کو دیکھو۔ سب کچھ مل کے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ اور پھر ہماری پوزیشن اور ہمارے وہم و گمان سے اوپر بھی لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو ہم جیسے سرکاری ملازموں کو بھیک دینا جائز سمجھیں گے۔ انسانوں کو تو چھوڑیئے ، کتّوں کی ہی مثال لیجئے۔ ایک کتّا ایک شاندار حویلی میں ایک امیر ترین عورت کے بستر پر اس کے بغل میں سو رہا ہے اور ایک خارش زدہ کتّا ہمارے آفس کے باہر دن بھر بھونکتا رہتا ہے اور ہمیشہ دھتکار دیا جاتا ہے۔۔۔”
“ہاں جناب۔۔۔۔۔عجیب باتیں ہیں۔ کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اوپر والے کی مرضی۔۔۔۔۔” شہنواز صاحب نے مشکل سے دو جملے بول کے اپنے سامنےفائل پر پھر سے دھیان دینا شروع کیا۔ میں نے پھر سے دیگر دفتری ساتھیوں کے ساتھ فلسفہ جھاڑنے کی کوشش کی مگر وہ اپنے کام میں مگن تھے اور میری باتوں کو ہوں ہاں سے ٹال دیا۔ میں بھی مایوس ہوکر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
دو تین ہفتے ہی گذرے تھے کہ وہ ننھی بچی پھر سے ایک دن آفس کا پردہ ہٹاکر اسی چار پانچ سالہ بچے کے ساتھ میری ٹیبل کے سامنے بال پین کا ایک گچھہ لیکر مجھ سے قلم لینے کی ضد کرنے لگی۔
” میری ننھی جان۔۔۔۔۔۔۔میں نے پچھلی دفعہ بولا نا تم سے کہ ہمارے آفس میں ہمارے پاس اچھے قلم ہوتے ہیں اور ہمیں نہیں ضرورت تمہارے قلموں کی۔۔۔۔۔۔۔” میں نے قدرے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔
“لے لو نا صاحب جی۔۔۔۔۔کیا فرق پڑے گا آپ کو۔۔۔”۔ وہ بڑی ٹوٹ کر مخاطب ہونے لگی اور آفس میں موجود دوسرے ساتھیوں سے بھی قلم لینے کی استدعاء کرنے لگی۔
” بیٹا۔۔۔۔ہم نے بولا نا کہ ہمیں نہیں چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
“اچھا۔۔۔۔۔۔یہ بتاؤ۔۔۔۔کہاں رہتے ہو۔۔۔۔۔۔ اور یہ بچہ کون ہے تمہارے ساتھ۔۔؟ میں نے اس کی اور ساتھ والے بچے کی حالت اور اس لڑکی کی آنکھوں میں ایک عجیب لاچارگی بھانپ کر سوال کیا۔
” اتر پردیش کے ایک گاؤں سے ہیں۔۔۔ اور یہ میرا چھوٹا بھائی ہے” اُس نے نہ چاہتے ہوئے پھیکے لہجے میں کہا۔
” یہاں کہاں رہتے ہو۔۔۔۔۔۔اور پاپا کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔کتنے بہن بھائی ہو۔۔۔؟ میں نے پے در پے اس بچی سے سوال کئے۔ جو سوالوں کے جواب دینے کی کم اور اپنے قلم بیچنے کی زیادہ فکر میں تھی۔
“ہم ادھر ہی نیشنل ہائی وے کے پاس جھونپڑیوں کی بستی میں رہتے ہیں۔ میرے پاپا کباڑ جمع کرتے ہیں اور بیچتے ہیں۔ ماں کو پولیو ہے اور ہم چار بہن بھائی ہیں۔ ایک اور بھائی بھی کبھی کبھی پاپا کے ساتھ کباڑ جمع کرتا ہے۔” وہ ننھی سی بچی تیز تیز بول رہی تھی اور یہ سب بتاتے وقت اس کی آنکھوں میں جہاں بھر کا غم صاف آسمان پر چودھویں کے چاند کی طرح نمایاں تھا۔ میرا خالی وجود اندر ہی اندر اپنے اخلاقی محور سے جیسے ہل رہا تھا۔
“پاپا اور بھائی اگر کام کرتے ہیں تو تم کیوں اتنی چھوٹی عمر میں کام کرتی ہو۔ چھوٹے بچے ایسے کام نہیں کرسکتے۔ پولیس پکڑ کے لے جاتی ہے۔۔۔۔ اور ویسے بھی تم یہ تھوڑے سے قلم بیچ کے کتنا کماتی ہوگی۔۔۔۔۔؟ ” میں نے خود کو بڑا عاقل سمجھتے ہوئے اس ننھی بچی کو سمجھانے کی کوشش کی۔
“پاپا اور بھائی روز کے کباڑ کا ڈھائی تین سو روپیہ کما لیتے ہیں۔ میں سو روپیے کے پین خرید لیتی ہوں اور اس کا دو سو روپیہ آتا ہے۔ کوئی ویسے بھی دس بیس دے دیتا ہے۔ روز کا سو روپیہ ماں کو دیتی ہوں۔۔۔۔۔۔” وہ ننھی جان اپنی عمر سے بہت بڑی لگ رہی تھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے سب بتا رہی تھی۔ اس کا چھوٹا بھائی ایک چھوٹے بت کی طرح مجھے تکے جا رہا تھا۔ اور بیچ بیچ میں اپنی بہتی ناک پر اپنی زبان پھیر کر اور نمکین چکھ کر عجیب صورت بنا لیتا تھا۔
“اچھا۔۔۔۔۔میری جان۔۔۔۔۔۔ایک بات بتاؤ۔۔۔۔اگر میں تمہیں پڑھاؤں اور تم قلم بیچنے کے بجائے قلم سے لکھنا سیکھو تو کتنا اچھا ہوگا۔۔۔۔پڑھو گی نا تم بیٹا۔۔۔۔۔؟” میں نے واقعتاً اور صدق دلی سے اس ننھی بچی سے پوچھا۔
“صاحب جی۔۔۔۔۔پین نہیں لینا ہے تو مت لے لو۔۔۔مجھے نہیں لکھنا پڑھنا۔۔۔۔۔تم خود لکھو جتنا لکھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔میں پین نہیں بیچوں گی تو گھر میں کھائیں گے کیا۔۔۔۔۔میں تو پین ہی بیچوں گی۔۔۔۔اور پھر اتنے سارے تو پین بیچ رہے ہیں۔ میں اکیلی تھوڑی بیچتی ہوں” ننھی سی مفلوک الحال بچی نے اتنا کہہ کر اپنے چھوٹے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر میری طرف عجیب نظروں سے دیکھا اور آفس سے نکل گئی۔ میں حیرت کا بُت بنے اپنے ہاتھ میں سرکاری قلم کو تک کر سوچنے لگا
کہ کہیں میں بھی تو قلم نہیں بیچ رہا۔۔۔۔۔؟
���
ترال ، پلوامہ کشمیر
موبائل نمبر؛9906830807