مانا کہ اب کی بار مفتی سرکار دم بخود ہے کہ انہیں وہ غیبی ہاتھ نظر نہیں آتا جو قریب ایک مہینے سے سرگرم ہے، قینچی ہاتھ میں لئے ہوئے ہے، سپرے کراتا پھرتا ہے اور خواتین کو سر شام ہی گھر میں دبکنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔بلکہ دن میں بھی دروازوں کے کواڑ بند کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ پرانے زمانے کے کنز( پتھر کی بڑی اوکھلی جس میں دھان کوٹا جاتا) دروازوں کے پٹ کے پیچھے رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور اپنے ارباب اختیار کوئی اقتدار استعمال نہیں کرتے تاکہ ان کو زیر کیا جائے جو چار سو گھوم رہے ہیں لیکن جانے کیوں غیبی طاقت بن کر اہل کشمیر کو ڈرا رہے ہیں، دھمکا رہے ہیں ۔حالانکہ یہاں ڈرانے دھمکانے کا مکمل ٹھیکہ وردی پوشوں کے ہاتھ میں ہے ۔ایسے میں بیچارے سہمے ڈرے لوگ اپنی بھڑاس شہر شہر ،گائوں گائوں، قریہ قریہ، قصبہ قصبہ گلا پھاڑ کر نکال رہے ہیں۔ اور پھر چند منچلے ،دل جلے، عقل سے عاری لوگ اپنا غصہ دوسرے بے بسوں پر نکال رہے ہیں ۔ بھلے وہ سیاح ہو، بزرگ ہو، بھکاری ہو، غیر ریاستی مزدور ہو یا خود سے بیگانہ شخص۔گلی گلی میں شور ہے ،چوٹی تراش چور ہے۔بی ڈی میں تمباکو ہے، چوٹی کٹائو ڈاکو ہے۔کشمیری انجان ہیں، بال کاٹ شیطان ہیں۔سموسے میں آلو ہے ،قینچی بردار بھالو ہے۔سماوار میں ہے گرما گرم چائے، کاکل حملہ آور ہائے ہائے۔ اپنے ملک کشمیر میں آج کل شہر گام ایک کہانی ہے ، ایک مسلے پر نعرے بازی ہے، ایک ہی بات پر جلسے جلوس ہیں ۔ایک ہی ایشو پر بیانات کے بم برس رہے ہیں ،لفاظی کے میزائل داغے جاتے ہیں ۔
کٹ گئے پھر بال ہے دھوم سے افواہ
بنڈ پور سے ،کولہ گوم سے، پلووم سے افواہ
کس کی سنیں کس سے کہیں کیا ہے حقیقت
کچن سے ،بیٹھک سے ،بیڈ روم سے افواہ
کیونکہ ہم جو کچھ کرتے ہیں ہول سیل میں کرتے ہیں اور ہمارے ساتھ جو کچھ پیش آتا ہے ہول سیل میں آتا ہے ۔ راجستھان ، پنجاب، بہار، یوپی میں جب بال کاٹ مہم چلی تو بس ہفتہ بھر اور درجن بھر کیس ہوئے پھر خاموشی چھا گئی۔مگر اپنے یہاں تو پرچون والی کہانی جچتی نہیں۔اسی لئے ہم نے بھلے کرکٹ میں سینچری نہ بنائی مگر پیلٹ ، گولی، مار دھاڑ اور اب بال تراشی میں سینکڑہ پار کر لیا۔کیونکہ ہم ہول سیل کے شائق لوگ ہیں۔ ہم نے جب بندوق اٹھائی تو ہول سیل میں بندوق چھوڑی تو ہول سیل میں ، کفن بردار نکلے تو ہول سیل میں کفن اوڑھے تو ہول سیل میں بلکہ ہم نے جب ہڑتال کی تو ہول سیل میں، بھلا کسی کو چھ چھ مہینے ہڑتال پر بیٹھے دیکھا ہے ۔ہم نے جب الیکشن بائکاٹ کیا تو ہول سیل میں اور جب ووٹ ڈالنے دوڑے تو ہول سیل میں ۔ یعنی جب حریت نے راگ الاپا تو دو فیصد بھی ووٹ ڈالے اور جب سیاسی جادوگروں کا اپنی ہیٹ کے نیچے سے ڈیلی ویج نوکری کا خرگوش نکالا تو چھیاسی فیصد بھی ۔ویسے ہم کبھی گانا سننے جائیں تو ہول سیل میں ہی۔اسی لئے جب زبن مہتہ نے باغ نشاط میں تار چھیڑی تو ہم نے ہول سیل میں تعریف کی لیکن جب وہ دیر تک بجاتا رہا تو ہم نے آواز لگائی اب کیا ترم ترم ہی کرو گے یا کچھ گائو گے بھی۔ چلو وہ ہل والی نیشنل سرکا ر کا چمتکار تھا لیکن اب کی بار مفتی سرکار نے عدنان سمیع کو آواز دی کہ بھائی ہمارا حوصلہ تنزل میں ہے ، ہمارا جوش نیچے ہی جا رہا ہے کچھ کرو، بلکہ حج کرو، ہم کو بھی لفٹ کرادو۔اور عدنان چونکہ لفٹ کرانے کا ماہر ہے وہ اپنے سازندے ہول سیل میں ساتھ کر ڈل کے کنارے خوب جھوما کہ اسے مفتی سرکار لفٹ کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ایسے میں اپنے ملک کشمیر کے چند کلا کار بھی جٹ گئے کہ لفٹ کرانا ضروری ہے۔مانا کہ ہل والے نیشنلیوں کو وہ خالی کرسیاں خوب نظر آئیں اور پھر نیشنل کے ٹویٹر ماسٹر اور عدنان کے ساتھ ٹویٹر والی چڑیا پر پھڑ پھڑ انے لگی ۔
عدنا ن کی بات الگ ہے، اس نے کبھی اپنے رب سے تنہائی میں باتیں کیں اور لفٹ کرانے کی درخواست۔ڈالر کیا ہوائی جہاز کیا بنگلہ کار کیا روزگار کیا، یہ بھی کہ کیسے کیسوں کو دیا ہے اب مجھ جیسوں کو بھی دے دے۔سب کچھ مانگ لیا اورملا بھی۔ اوپر سے وہ بھی جو مانگا بھی نہیں تھا وہ بھی ہاتھ لگا کہ عدنان بھی خوش بھاجپا بھی خوش۔مودی سرکار ترنگ میں آکر بھارتی شہریت کے حقوق بھی دے گئی۔مگر عدنان کی طرح سب کو مانگنے کا ڈھنگ نہیں آتا اسی لئے بے چارہ احمد خان کلا کار جیسلمیر راجستھان کے دانتل علاقے میں پجاری کے ہاتھوں مارا گیا۔الزام بھی کورا کہ احمد کی کمزور گائیکی کے سبب پجاری کو وہ غیبی طاقت حاصل نہ ہوئی جس کے لئے احمدنے تار چھیڑے تھا۔ ادھر غیبی ہاتھ قلم دوات والوں کو نہیں دکھتے ادھر غیبی طاقت پجاری کو نصیب نہیں ۔نتیجتاً دو سو مسلم کنبے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ادھر برما میں روہنگیا بھی ہجرت پر مجبور ، سیریا میں بھی مجبور اور جموں کے رام نگر علاقے میں بھی خان ہی ہجرت پر مجبور کہ وہاں ایمز کے لئے زمین چاہئے۔ اور پورے جموں صوبے میں اگر کہیں زمین میسر ہے تو وہیں جہاں خان لوگ سالہا سال سے رہایش پذیر ہیں۔ مطلب صاف ہے کہ بھارت ورش میں اگر سب کا ساتھ سب کا وکاس کرنا ہے تو احمدوں کو جگہ خالی کرنی ہے اور اگر معاشی بد حالی ہے تو احمدوں کا قصور ، اگر کوئی سیاسی پارٹی الیکشن نہ جیتے تو ا حمدوں کی سازش، اگر کہیں دھماکہ ہو تو احمدوں کی ملی بھگت، کہیں ریل حادثہ تو احمدوں کی کارستانی، نوٹ بندی ناکام تو احمدوں کا سپورٹ نہیں، جی ایس ٹی میں کم آمدنی تو احمدوں کا عدم تعاون، سرحد دہل اٹھیں تو احمدوں کا ہیر پھیر، بچے اسکول نہ جائیں تو احمد ذمہ دار، راکٹ فیل ہو جائے تو احمد کا قصور۔ یہ احمدوں کا معاملہ سامنے رکھ کر ٹرمپ سینا وجود میں آئی تھی۔ادھر ٹرمپ نے احمدوں پر الزام تراشی کی ادھر یو پی میں ٹرمپ سینا ہتھیار بند ہو گئے کہ ٹرمپ کو جِتانا ہے جبھی تو ٹرمپ ٹاور سے ناگپور تک احمد قابو میں آئیں گے۔ٹرمپ الیکشن کے لئے ہون ہوئے، نعرے بازی ہوئی، الیکشن مہم چلی، جلسے جلوس ہوئے لیکن بعد میں بد مستوں کو پتہ چلا کہ ٹرمپ ٹاور ناگپور میں نہیں بلکہ ہزاروں میل دور ہے اور ناگپوریوں کو ٹرمپ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ مطلب صاف کہ بیگانی شادی میںعبداللہ نہیں ناچا بلکہ عبداللہ کا حسد لئے بھکت لوگ ناچے تھے ۔ جبھی تو ایک سال بھی نہ گزرا کہ ٹرمپ سینا غائب ہوگئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔اور ٹرمپ نے یہ اشتہار بھی نہ دیا کہ میری سینا گمشدہ ہے پتہ دینے والے کو سوا سو ڈالر انعام میں ملے گا۔
ابھی اب کی بار مودی سرکارکے پٹھو یوگی آدھتیا ناتھ سے بنارس کی مہلائیں سنبھل نہیں پا رہی تھیں ،کہ ملک کشمیر میں مفتی سرکار کے ہاتھوں دختران کشمیر کے تراشے لٹ نہیں جمع ہو رہے تھے کہ دختران ملت کا وبال آن پڑا۔علاقہ برنگ (کوکرناگ)میں جگہ جگہ دختران ملت کا آتش فشان پھوٹا کہ ان کی سربراہ خود مفتی سرکار کے بڑے بڑے بوڑوں پر براجمان دکھی۔کہاں مفتی اور آسیہ کا آپسی بیر اور کہاں سرکاری بورڈ پر آپسی دوستی؟؟؟دیکھتے دیکھتے سرکار نے انکوئری کا حکم نامہ ارسال کیا ، انکوئیری نام سنتے سنتے ملک کشمیر میں ٹھا ٹھا ہنسی نکل جاتی ہے ۔ اب انکوئری کا انتظار کرتے کرتے اہل کشمیر کے بال سفید ہو گئے لیکن کسی انکوئری بیچاری نے صج کا سورج نہیں دیکھا بلکہ رات کے اندھیرے میں سسکیاں لیتے لیتے جان بلب ہوگئی۔ تحقیقاتی سرکار نے معطلی کا سامان پید اکیا، سخت سزا دینے کی دہائی دی لیکن وہ جو دختر ملت کو سرجیکل اسٹرائک کر نی تھی وہ تو کر ڈالی اور اس پر طرہ یہ کہ خود دختر سرکاری جیل کی مہمان ہے لیکن قید سے ہی اسٹرائک ایسی مار دی کہ کوہلی اور آفریدی کا چھکا بھی بھول گئے۔خیر معاملہ بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو کا تھا ۔مانا کہ اس کے معنی بدل دئے گئے ہیں اور بیٹی پٹائو چوٹی کٹائو کا نعم البدل فراہم ہو گیا ہے ۔ایسے میں اس مسئلے پر وزیر با تدبیر بولے:مانا کہ وہ محکمہ تعلیم چلاتے ہیں سبھوں کو معلوم ہے ؎
سب سے اچھا ہے محکمہ تعلیمات
تعلیطاتن تعطیلاتن تعطیلات
اور تعطیلات میں تو ماہر تعلیم ماہر نفسیات بن جاتا ہے یہ تو آ ج پتہ چلا جیسے منسٹر صاحب چوٹی کٹائو مہم کو نفسیاتی کشمکش سے جوڑ گئے اور اس کشمکش میں چوٹی کٹائو سینکڑے کو آدھ درجن تک ہی روک گئے بلکہ زبردست اطلاع یہ دی کہ خود ان کی ایک ووٹر کے بال اس کی نوکرانی نے کاٹے تھے۔ہم تو ششدر رہہ گئے کہ کہیں ماہر تعلیم نفسیات کے بعد ماہر طب ہی نہ بن بیٹھیں ؎
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قابل
کہ ہمارے خون میں ڈائتھین مل گیا ہوگا
چوٹی کٹائو مہم جاری ہے لیکن ایسے میں وزیر بجلی سرینگر تشریف لے آئے ۔ دلی دربار اور سرینگر کے درمیان جو چولی دامن کا ساتھ ہے اس کی چوٹی بھی کاٹ لی بلکہ چٹکی بھی لی کہ بھلے ہی خوش فہمی کی روشنائی والی دوات میں جو کمل کا پھول اگ رہا ہے اور اس کے سبب جو پاور پروجیکٹ واپسی کی فرمایشیں جاری ہیں انہیں خواب ہی سمجھا جائے جس کی تعبیر ممکن نہیں ۔لیکن اپنے وزیر خزانہ شاید اسی خواب مرد مومن میں مشغول ہیں جس کے ساتھ اس نے کوئی مادھو تراشا تھا کہ رام بھلی کرے گا اور کوئی نہ کوئی پروجیکٹ واپس مل جائے گا جبھی تو آپسی گٹھ جوڑ کی روشنائی خشک نہیں ہوگی ۔اس خواب کی حقیقت وہی جانے کہ اب بھی آس لگائے بیٹھا ہے اور برابر حسیب بنا ہے کہ گھنٹوں ، ہفتوں ، مہینوں ، برسوں کا حساب لگانے میں مشغول ہے کہ کب ملے گا کم از کم ایک پروجیکٹ ،جبھی تو اہل کشمیر کو منہ دکھانے کے قابل رہیں کہ بھائی لوگو مرد مومن کے خواب کا ایک حصہ یہ بھی تھا۔
مانا کہ بھکت جن غصے میں ہیں کہ ان کے لیڈروں کے خلاف کچھ نہ بولا جائے لیکن حساب ہر طرف سے لگا یا جا رہا ہے جبھی تو بھارت ورش میں امیت شاہ کے بیٹے کی دولت بھی زیر حساب ہے ۔کیا بات ہے کہ اللہ جب بھی دیتا ہے چھپر پھاڑ کے دیتا ہے ایسا ہم نے سنا ہے لیکن بھاجپا سرکار میں جے شاہ کو سب کچھ چھپرپھاڑ کے ملا ،یعنی جو لفٹ کرانے کی بات ہے وہ تو سچ مچ ہو گئی کہ ایک برس پچاس ہزار کا کھاتہ دوسرے برس اسی کروڑ میں تبدیل ہوگیا۔لگتا ہے سب کا وکاس نہ ہوا ہو لیکن کچھ کا تو ہو رہا ہے۔اور کچھ کا چونکہ نہیں ہو رہا اسی لئے بھارت بھوک کے عشاریے میں ایک سو انیس ممالک کی فہرست میں سویں نمبر پر ہے ۔واہ !عالمی طاقت کے خواب دیکھنے والا ملک بنگلہ دیش اور شمالی کوریا سے بھی پیچھے ہے۔مطلب نوٹ بندی نے کاریگروں کے خواب لوٹے اور بھوک نے فٹ پاتھوں پر زندگی بسر کرنے والوں کے لیکن امبانی اور اڈانی کے خواب برابر شرمندہ تعبیر ہو رہے ہیں ۔
رابط[email protected]/9419009169