سرینگر//وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کشمیریوں کی قفس سے آزادی کی وکالت کرتے ہوئے حد متارکہ کے آر پار مزید راستوں کو کھولنے اور آر پار قانون سازیہ اراکین کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی۔سخت سیکورٹی حصار میںسرینگر کرکٹ اسٹیڈیم کے بغل میں واقع گرائونڈ میں حکمران جماعت پی ڈی پی کے18ویں یوم تاسیس کی تقریب منعقد ہوئی ،جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر آر پار راستوں کو کھولنے کی صلاح دی۔
مشترکہ اراکین کا اجلاس
محبوبہ مفتی نے کنٹرول لائن کے دونوں طرف قانون سازیہ ممبران کے مشترکہ اجلاس کی تجویز پیش کی۔اس ضمن میں ان کا کہنا تھا’’ہماری اسمبلی میں اُس پار کشمیر کیلئے نشستیں مخصوص ہیں، ہمیں مل بیٹھ کر ان سیٹوں پر امیدواروں کی نامزدگی کا فیصلہ کرنا چاہئے، ہمیں اس بات کا بھی فیصلہ کرنا چاہئے کہ یہ مشترکہ اسمبلی ہر سال ایک بار اِ س کشمیر اور ایک بار اُس کشمیر میں مل سکے تاکہ سیاحت، آواجاہی اور شاردا پیٹھ کو کھولنے جیسے موضوعات پر بات چیت کی جائے‘‘۔ پی ڈی پی صدر نے طالب علموں کو کنٹرول لائن کے دونوں طرف سفر کرنے کی اجازت دینے کی تجویز بھی پیش کی۔انہوں نے کہا’’میں اُس پار کشمیر کے لوگوں سے اپیل کرتی ہوں، آیئے اور اپنے بچوں کو15روزہ دورے پر یہاں بھیجئے، ہم اپنے بچوں کو وہاں بھیجیں گے ، وہ دیکھیں گے کہ ہمارا رہن سہن کیسا ہے اور ہمارے بچے یہ دیکھیں گے کہ وہ لوگ کیسے رہتے ہیں؟‘‘ ۔
آر پار تجارت
وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں سیالکوٹ،کرگل،اسکردو اور نوشہرہ،جانگر شاہرائوں کو کھولا جانا چاہئے۔وزیر اعلیٰ نے کہا’’مرحوم مفتی صاحب کی طرح میںبھی متواتر طور یہ چاہتی ہوںکہ ا ن راستوں کو کھولا جائے‘‘۔انہوں نے مرکزی سرکار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آر پار روایتی راستوں کو بند کرنے کے بجائے مزید راستے کھول دئے جائیں۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ پی ڈی پی کنٹرول لائن کے آر پار تجارت کو بند کرنے کی اجازت نہیں دے گی بلکہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے ساتھ لگنے والے مزید راستے کھولنے کی جانب کام کرے گی۔پی ڈی پی صدر نے حال ہی میں اوڑی میں سرحد پار سے آئے ایک ٹرک سے منشیات برآمد ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’واگہہ سرحد کے راستے بھی بہت ساری مشکلات پیش آتی ہیں، وہاں سے بھی چرس گانجے کی اسمگلنگ ہوتی ہے لیکن کوئی اس راستے کو بند کرنے کی بات نہیں کرتا، لیکن صرف اس لئے کہ سرینگر مظفر آباد شاہراہ پر ایک غلطی ہوتی ہے، ہمیں اس شاہراہ کو بند کرنے کی بات نہیں کرنی چاہئے، ہم قطعاً اس کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ محبوبہ مفتی نے زور دیکر کہا’’ہم آر پار مزید راستے کھولنے کے حق میں ہیں، کراسنگ پوائنٹس پر بینکنگ جیسی سہولیات ہونی چاہئے، وہاںٹرکوں کیلئے فُل باڈی اسکینرز ہوں تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ وہاں سے کیا آرہا ہے اوروہاں کیا جارہا ہے؟‘‘انہوں نے کہا کہ منشیات کی اسمگلنگ پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آر پار روابط کو آسان بنانے کے حوالے سے پی ڈی پی نے 2002میں جو کچھ حاصل کیا، اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
لاہور اعلامیہ
انہوں نے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’کشمیریوں کو قفس میں قید کیا گیا ہے‘‘،اور وہ کہتے تھے کہ کشمیریوں کو رہا کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ خیالات پر پہرے نہیں لگائے جاسکتے۔انہوں نے کہا کہ ریاست نظریاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اورریاست کو اخوانیوں اور ٹاسک فورس سے لڑنے کے بجائے ایک خیال سے لڑنے کا چیلنج درپیش ہے۔ وزیر اعلیٰ نے نیشنل کانفرنس،کانگریس،بی جے پی اور دیگر جماعتوں سے درخواست کی کہ وہ ایک جگہ بیٹھ کر کشمیریوں کو درپیش مسائل کا حل تلاش کریں۔انہوں نے کہا’’ماضی میں ہم نے تنہا لڑا،میں کانگریس،نیشنل کانفرنس کے علاوہ بی جے پی اور کیمونسٹ پارٹی سے اپیل کرتی ہوں کہ مشترکہ طور پر اپنے مسائل کو حل کریں’’۔ہندوستان کو کشمیر کے بغیر نامکمل قرار دیتے ہوئے محبوبہ مفتی نے مختصر تقریر کے دوران کہا’’جموں کشمیر بھارت کا تاج ہے،اور ضرورت ہے کہ اس کی عزت کی جائے اور مسائل کو حل کیا جانا چاہیے‘‘َ۔انہوںنے سابق وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپائی کے لاہور اعلامیہ کو اپنانے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر میں قیام امن کیلئے یہ اعلامیہ ایک کڑی ثابت ہوسکتا ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کشمیری عوام جو درد محسوس کرتے ہیں،اس کا علاج کرنے کی ضرورت ہے اور کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم لگایا جانا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ نے کارکنوں کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جب بھی ماضی میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی یا احتجاج کیا اور دھرنا دیا تو کارکن ہر وقت پیش پیش رہے،جس کی وجہ سے آج فوج اور پولیس کو دیکھ کر کوئی بھی خوف محسوس نہیں کرتا ہے۔انہوں نے مرحوم مفتی محمد سعید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا’’مفتی صاحب آخری وقت تک کہتے تھے،کہ کارکنوں کیلئے میں کچھ خاص نہ کرسکا،انکا خیال رکھنا‘‘۔