چَھنتے ہیںنظریات یہاں اَبلہی میں بیش
آتی جو یہاں مکروفن کی خواجگی ہے پیش
آوارگی خوشبو کی اگر بھانپ نہ لیتے
مسموم ہونے کے لئے کافی تھا ایک نیش
کیسے کیسے چھارہے ہیں ہفت اِقلیمی مزاج
جو کہ کمزوروںپہ کرتے ہیں زبردستی کا راج
احمقانہ رائے اپنی ٹھونستے رہتے ہیں آج
چھینتے ہیں ہر کسی سے غیرتِ دِینی کا تاج
آشفتگی کا روگ پالا نہیں جاتا
آمادگی کا یوگ، ٹالا نہیں جاتا
کب تک منائیں سوگ، احساس کے بنا
کہتے ہیں دانا لوگ، ہالہ نہیں جاتا
ہوتا ہے تصور سدا تصویر سے اچھا
ہوتا سُہانا خواب ہے تعبیر سے اچھا
لگتی نہیں نظر ہے تصور یا خواب کو
ایسا خیال کیوں نہ ہو اِکسیر سے اچھا
ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندربل کشمیر،