دے دیا زہر کوئی دوا سے پہلے
پی گیا میں بھی جسے قضا سے پہلے
مر کرونا سے گیا، لوگ کہتے ہیں سعیدؔ
کب کا میں مر چکا کرونا سے پہلے
۔۔۔۔
سنا ہے وقتِ آفت پر خدا ہی یاد آتا ہے
مگر بازی گروں کو تو تماشا یاد آتا ہے
مرے ہیں بھوک سے اب لوگ یارو ہر طرف دیکھو
ہمیں تو شہنشاہوں کو لُبھانا یاد آتا ہے
بُرا نہیں، وہ سادگی اچھا شگون تھا
ہر آدمی ہو اپنا یہ سر پر جنون تھا
صندل کے اس مکان میں دم گُھٹ گیا میرا
کُٹیا میں رہ کے دوستو کتنا سکون تھا
۔۔۔۔
دیر تک ہم سو گئے عمر کو گھٹا بیٹھے
وقت نے مانگا حساب زندگی لُٹا بیٹھے
تو نے پہچانا نہیں جب موسموں کو سعیدؔ
کاغذی پھولوں سے گھر اپنا سجا بیٹھے
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر،موبائل نمبر؛9906355293