قطر کا قصور کیا ؟

Kashmir Uzma News Desk
15 Min Read
اس مضمون کی تمہیدمیں صرف ایک ایسی مختصربات رقم کررہاہوں جواپنے اندرایک جہاں کے معنی سموئے بیٹھی ہے اوروہ یہ کہ کتب احادیث کوکھول لیجئے ، احادیث’’ فتن ‘‘پڑھیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش گوئیوں کی صداقت پر اپنے ایمان کو تازہ کیجیے
ؕدریا کے طلاطم سے بچ سکتی کشتی
کشتی میں تلاطم ہو توساحل نہ ملے گا
 خدا نے عرب ڈکٹیٹروں سے ان کا سارا کیف و سرور چھین لیا وہ کھلے دھوکے میں تھے کہ خلق خدا اُنہیں اپنے مقدر کا ستارہ سمجھ رہے ہیں۔انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ خلق خدا ان کو اپنی صبح مراد سمجھ رہے ہیں ، انہیں یہ زعم باطل تھا کہ ہمیشہ زمین ان کے قدم چومتی رہے گی۔آسمان ان کی بلائیاں لیتا رہے گا،تقدیر کی شہزادی پھولوں کے ہار لئے ہمیشہ ان کی منتظر رہے گی لیکن اب تدبیریں اُلٹ چکی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر سے سفارتی تعلقات اور تمام زمینی ، بحری اور فضائی روابط بیک جنبش قلم ختم کردئے ہیں۔ اس مقاطعہ کی وجہ یہ بتائی گئی کہ قطر کے اقدامات سے ’’دہشت گردی مضبوط ہو رہی ہے‘‘'۔یہ سب حیلے بہانے ہیں ۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ لن ترانی جلالہ الملک جناب ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ سعودی عرب دورے کے دوران پڑھائے گئے اسباق پربغیرکسی چون وچرااورمن وعن عمل درآمد اورتابعداری کامظہرہے۔ آپ نے ٹرمپ دورے کی ایک تصویر دیکھی ہوگی جس میں سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز، مصری صدر سیسی اور ٹرمپ ایک گلوب پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑے ہیں اور تمام مسلم ممالک کے نمائندے ان کے پیچھے دست بستہ وصف بستہ ہیں۔ یاللعجب !!!اس تصویر نے جو پیغام دیا تھا وہ شاید کسی اعلامیہ سے بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر کا ایک اہم سنگ میل تھا جس کے اپنے عروج پر پہنچتے ہی دجال کا خروج طے ہے۔
سوال یہ ہے کہ قطر سے امریکہ کو کیا پریشانی لاحق تھی جب کہ قطر بھی امریکہ کا بڑا اتحادی ہے، اس کابہت بڑا فوجی ائیر بیس وہاں قائم ہے جس میں ہردم تازہ 35ہزارامریکی فوجی موجودہیں۔یہ ائیربیس قطرنے ایک بلین ڈالر ذاتی خرچے سے امریکہ کی خدمت میں پیش کیاہواہے ۔یہ امریکی فضائی بیس خلیج میں موجوداس کے دیگربیسیوں اڈوں سے طویل ترین رن وے پرمشتمل ہے جس میں بیک وقت 120؍بمبارطیارے موجودہوتے ہیںجن میں دودرجن امریکی طیارے افغانستان پرحملوں پرمامورامریکی طیاروں کی ری فیولنگ کی ڈیوٹی پرتعینات ہیں۔ امریکی بمبارطیارے یہاں سے لیبیا،شام افغانستان اورعراق پربمباری کرنے سے قبل تازہ دم ہوجاتے ہیں۔سعودی عرب کی طرح قطرکے لئے بھی اپنے ملک میںامریکی فوجوں کی موجودگی باعث طمانیت ہے۔ اس ائیربیس کے بعد امریکہ کادوسراسب سے بڑاائیربیس سعودیہ میں العدیدکے مقام پرقائم ہے ۔ اس سوال کاجواب نہایت ہی آسان ہے اوروہ یہ کہ اسلحے کی سودابازی کی جس پیمانے پرٹرمپ اورسلمان کے درمیان ڈیل ہوئی ہے وہ سامان حرب وضرب شاہی محلات کوسجانے کے لئے تونہیںبلکہ اس کا’’جائزاستعمال‘‘ ڈھونڈنابھی امریکی فرائض میں شامل ہے ،اس لئے ایک مسلمان ملک دوسرے مسلمان ملک پرچڑھ دوڑے تواس اسلحہ کا’’جائزاستعمال‘‘ اسے بڑھ کراورکیاہوسکتاہے ؟جنگ ایک دم شروع نہیں ہوتی اس کے لئے پہلے گرانڈ ہموارکرناہوتاہے اورانکل سام سے زیادہ اس ابلیسیت میں کون یکتاہوسکتاہے؟
 امریکی سینیٹر ٹیڈ کروز ایک بل کا مسودہ لیے بیٹھا ہے جو عنقریب امریکی کانگریس میں پیش ہونے جارہا ہے جس کی رو سے صرف شدت پسند کارروائی میں ملوث افراد ہی دہشت گردی کے دائرے میں نہیں آئیں گے بلکہ’’ سیاسی اسلام‘‘ کے ہمدرد اور اس موضوع پر لٹریچر پڑھنے والے اور بولنے والے بھی’’ دہشت گرد‘‘ قرار دیے جائیں گے۔ گویا آزادی اظہار رائے سے اسلام کے حق میں رائے دینے کو مستثنیٰ مان لیا جائے گا، مغرب جو کہ اظہار رائے کی آزادی کا سب سے بڑا دعویدار ہے مسلمانوں کو یہ آزادی نہیں دینا چاہتا ہے ، لہٰذا امریکہ اسلامی فکر پر قدغن لگانے کے لیے عرب ممالک کو پہلے آگے بڑھانا چاہتا ہے۔جب بہت جلد امریکہ میں اس طرح کا قانون پاس ہوجائے گا اور دلیل یہ دی جائے گی کہ خود مسلم ممالک اس فکر کو دہشت گردی کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ یہ سب تانے بانے دجالی نظام کی تیاری ہے اور اس نظام کے عروج پر آنے میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو جلد از جلد دور کیا جارہا ہے۔ آج قطر کا نمبر ہے کل ترکی کا، اگر یہ دونوں ممالک دجالی نظام کا حصہ نہ بنے تو مصر میں جو ہوا وہ یہاں ہونا ہے۔
اس سیاق وسباق کوسامنے رکھتے ہوئے بات سمجھنے میں کوئی دقعت باقی نہیں رہتی ہے کہ جلالہ الملک جناب ٹرمپ !کی صدارت میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عرب اسلامک سمٹ کے دو ہفتے بعد ہی توقعات کے عین مطابق6 ؍جون 2017ء کو ایک بہت بڑی پیش رفت میں سعودی عرب، بحرین،مصر اور متحدہ عرب امارات نے قطر کے ساتھ اپنے تمام تعلقات منقطع کر دینے کا ڈرامائی اعلان کر ڈالاجب کہ تادم تحریر ماریشس اور مالدیپ نے بھی قطر سے اپنے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قطر پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ خطے میں انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا ہے، حالانکہ قطر نے دوٹوک الفاظ میں اس الزام کی تردید کی ہے۔
اب جب کہ ان تمام ممالک نے نہ صرف یہ کہ قطر سے سفارتی سطح پر تعلقات منقطع کر لئے ہیں، بلکہ قطری باشندوں کو دو ہفتے کے اندر بے دخلی کا نوٹس بھی دے ڈالا ہے اور اس سے تمام بری، بحری اور فضائی راستوں سے رابطے منقطع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے، مشرقِ وسطی کی پہلے سے پیچیدہ سیاست میں ایک اور خطرناک موڑ آ گیا ہے۔غالباً سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو یقین ہے کہ قطر اس مقاطعے کی تاب نہ لاسکے گا، کیونکہ قطر خوراک تک کے حصول میں اپنے ہمسایوں کا محتاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قطر میں عوام نے خواراک ذخیرہ کرنا شروع کر دی ہے۔ قطری حکومت نے یقین دلایا ہے کہ وہ اشیائے ضرورت کی قلت نہیں ہونے دے گی اور قطر کے اتنے وسائل ہیں کہ وہ متبادل انتظامات کر سکے لیکن بہرحال اس فیصلے کے طویل مدتی اثرات قطر کے لیے بہت گھمبیر ہیں لیکن اگر قطر اس مرتبہ مزاحمت کا فیصلہ کر لیتا ہے تو یہی مقاطعہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے لیے بہت بڑی غلطی ثابت ہوگا، کیونکہ آگ لگے ہوئے عربستان کی یہ آگ دوآتشہ ہونے کا امکان ہوگا ۔
تادم تحریرپاکستانی دفترِ خارجہ نے قطر کے ساتھ معمول کے تعلقات برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے، اور بتایا ہے کہ یہ معاملہ فی الحال زیرغور نہیں ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سعودی عرب اپنے غیر عرب اتحادیوں سے بھی اس معاملے میں تعاون کا خواہاں ہوگا۔ شاید درپردہ ترکی اور پاکستان کے ردعمل کا بغور جائزہ بھی لیا جا رہا ہو۔ ابھی تک پاکستانی حکومت نے مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر کافی سمجھ داری کا ثبوت دیا ہے مگر معلوم یہی ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پالیسی پر کاربند رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ افغان سرحدوں کی صورتحال، سی پیک پراجیکٹ، بھارت کی کشمیرجنگ بندی لائن پر بڑھتی ہوئی جارحیت اور کشمیر میں بڑھتے ہوئے مظالم کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔
 اخوان المسلمین،عرب سپرنگ کہلانے والی مشرقِ وسطی میں آئی انقلابی لہر کے بعد سیاسی تبدیلیوں کے دوران قطر اور ہمسایہ ممالک نے مختلف عناصر کی حمایت کی تھی۔دوحہ نے جن اسلام پسندوں کی حمایت کی تھی ،ان میں کچھ اپنے ممالک میں سیاسی فوائد اٹھا پائے ہیں۔مثال کے طور پر 2013 ء میں جب مصر کے سابق صدر محمد مرسی کو معزول کیا گیا تو قطر نے ان کی جماعت اخوان المسلمین کو ایک پیلٹ فارم فراہم کیا۔ سعودی حمایت یافتہ السیسی حکومت نے اخوان المسلمین پر پابندی لگا رکھی ہے اوراس کی اعلیٰ قیادت کوبیڑیاں لگاکربدترین عقوبت خانوں میں ڈال رکھاہے جب کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم مانتے ہیں۔سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے بیان کے مطابق قطر پر اخوان المسلمین، تحریک حماس داعش اور القاعدہ سمیت مختلف گروہوں کی حمایت کرنا ہے جن کا مقصد خطے میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ قطر اخوان المسلمون اورقبلہ اول اورفلسطین کی آزادی کے لئے سربکف تحریک حماس کا تعاون کرتا ہے۔
خیال رہے کہ عالمی اسلامی تحریکوں کے لئے ایک ہی ملک قطربچاتھاکہ جومعلوم نہیں کس بنیادپرعالمی تحریکوںکے لئے خیر القرون کے شاہِ حبشہ کا جیساکردارنبھارہاتھا۔حالانکہ قطرمیں باقی عرب ریاستوں کی طرح بادشاہت قائم ہے اورقطری شہزادے بھی سعودی شاہزادے جیسے ہی خصائل کے حامل ہیں مگراس سب کے باوجود2015ء میں افغان طالبان کوامریکہ سے مذاکرات کے لئے قطرنے ہی اپنے دارالحکومت دوحہ میں دفترکھول کررکھ دیاتھا،اخوان المسلمین کی بچی کچی قیادت کوسیاسی پناہ دے رکھی تھی ۔حماس کے قائدخالدمشعل کوٹھکانہ فراہم کیاہواتھا۔اسی طرح ایران کے ساتھ قطرکے تجارتی معاہدوں کوسعودی عرب اپنے لئے بدشگون سمجھتاہے ۔ ایران کے حوالے سے سعودیوں اور قطریوں کے مابین یہ نیا بحران اس وقت شروع ہوا جب قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے ایک مبینہ بیان پررپورٹ شائع ہوئی جس میں امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف جارحانہ موقف پر تنقید کی گئی۔ قطر کے مطابق ملک کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پر شائع ہونے والے بیان کے پیچھے ہیکرز کا ہاتھ تھا۔ ایران کے حریف سعودی عرب کو ایک عرصے سے تہران کے موقف اور خطے میں اس کے عزائم پر بجاطور تشویش رہی ہے۔ تازہ سعودی بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ سعودی عرب کے شیعہ اکثریت والے علاقے میں دوحہ ’’قطیف‘‘ میں ایران کی پشت پناہی حاصل رکھنے والے گروہوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں مدد کر رہا ہے۔
قطر پر یمن میں حوثی باغیوں کی پشت پناہی کرنے کا بھی الزام لگایاگیا ہے۔دوحہ جس نے سعودی اتحاد کے ہمراہ یمن میں کارروائیوں میں حصہ لیا ہے، کااصرار ہے کہ وہ دوسرے ممالک کی خود مختاری کی احترام کرتا ہے اور کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔اسی طرح لیبیا میں جاری تنازعہ بھی سعودیوں اورقطریوں میں خلیج کی وجہ بن گئی ،جب سے سابق رہنما معمر قذافی کو 2011 میں بے دخل کرنے کے بعد ہلاک کیا گیا تھا۔ لیبیا کی ملٹری میں طاقت ور حیثیت رکھنے والے الملک ہفتار جنہیں مصر اور متحدہ عرب امارات کی پشت پناہی حاصل ہے، قطر پر ان کے خلاف مورچہ زن ہوئے گروہوںکی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ الملک ہفتار کے مشرقی شہر تبروک میں قائم حکومت کے حامی ہیں جب کہ قطر ترابلس میں قائم حکومت کی حمایت کرتی ہے۔قطرکا میڈیا بھی اس نئی جنگ کی وجہ بن گیاہے۔ سعودی عرب نے قطر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ میڈیا اداروں کو استعمال کرکے سرکشی کے جذبات ابھار رہا ہے۔سعودی عرب شاکی رہاہے کہ قطری میڈیا نے اخوان المسلمین کے ممبران کو پلیٹ فارم مہیا کیا ہواہے، جب کہ قطر سعودی الزامات کی تردیدکرتے ہوئے کہتاہے کہ قطرایک آزادملک ہے، اسے یہ اختیارحاصل ہے کہ کسے جوڑے اوراس میں کسی کوکوئی امرمانع نہیں ہوناچاہئے ۔
قطردنیاکادوسراسب سے بڑاگیس ایکسپورٹرہے ۔اس کے پاس 1800ٹریلین کیوبک فٹ قدرتی گیس کاذخیرہ موجودہے ۔قطرکادارالحکومت دوحہ ہے۔دوحہ کی بلندوبالا عمارتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ قطر کثیر القومی کمپنیوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے ۔قطرکی ساری آبادی آبادی 27 لاکھ نفوس پرمشتمل ہے جبکہ اس کاکل رقبہ11,437 گیارہ ہزار چار سو سینتیس مربع کلومیٹرہے۔قطرکی کرنسی قطری ریال کہلاتی ہے۔صحرائی ریاست اور اپنی ارضیاتی ساخت کے باوصف یہاںبھرپور غلہ پیدانہیں ہوتا، اس لئے اس کے خوراک کاانحصارباہرکے ممالک پرہے۔قطرجیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ خلیجی ریاست ہے اس لئے اس کی واحد زمینی سرحد سعودی عرب سے ہی ملتی ہے۔اس سرحد پر روزانہ ہزاروں ٹرک آر پار جاتے ہیں جن پر اشیائے خوردونوش لدی ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق قطر میں استعمال ہونے والی 40 ؍فیصد خوراک اسی راستے سے آتی ہے۔اگرسعودی عرب یہ سرحد بند کرتاہے تو قطر میں خوراک لانے کے حوالے سے مشکلات پیداہوسکتی ہیں کیونکہ درآمدات اور برآمدات کے لئے صرف ہوائی اور بحری راستے ہی بچیں گے۔

Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *