ابو ظہبی +واشنگٹن //قطر کے دورے کے بعد امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن واپس وطن آگئے ہیں۔ قطر کے ساتھ چار عرب ملکوں کے تعلقات میں تعطل کے معاملے کے حل کے لیے سفارتی ملاقاتوں میں بظاہر کوئی پیش رفت حاصل نہیں ہوسکی۔واشنگٹن روانہ ہونے سے قبل، قطر کے امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی کے ساتھ حتمی ملاقات کے بعد، ٹِلرسن نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے سے احتراز کیا۔ امیر کے بھائی شیخ محمد بین حماد الثانی نے ٹِلرسن سے کہا کہ ”امید ہے حالات میں بہتری آنے کے بعد، آپ سے پھر ملاقات ہوگی “۔قطری حکام سے بات چیت سے قبل بدھ کو ٹِلرسن نے بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع شہر، جدہ میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کی جس میں سعودی عرب، مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے سفارت کار شریک ہوئے۔سعودی قیادت والے گروپ نے گذشتہ ماہ کے اوائل میں قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے تھے۔تنازعے کے خاتمے کے لیے مصالحتی کوششوں کے سلسلے میں، ٹِلرسن نے چار دِن تک قطر، سعودی عرب اور کویت کا دورہ کیا۔ انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو تقویت دینے کے سلسلے میں ا±نھوں نے قطر کے ساتھ سمجھوتا طے کیا۔ لیکن، سعودی عرب، مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ یہ ناکافی ہے اور 13 مطالبات پر مبنی اپنی فہرست پر عمل درآمد پر زور دیا ہے۔ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے، قطر نے کہا ہے کہ اس سے ا±ن کے اقتدار اعلیٰ کو نقصان پہنچے گا۔ اِن میں ’الجزیرہ نیوز نیٹ ورک‘ کو بند کرنے کا قطر کو دیا جانے والا الٹی میٹم شامل ہے۔ ادھرمتحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید نے کہا ہے کہ قطر کو اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کے لیے مزید کوششیں کرنی چاہییں کیونکہ اس نے خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے ساتھ دو سمجھوتے کیے تھے لیکن اس نے ان دونوں میں کسی ایک کی بھی پاسداری نہیں کی ہے۔انھوں نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ قطر کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ان سمجھوتوں کی پاسداری کرنی چاہیے جن پر ا س نے امریکا اور اپنے خلیجی ہمسایوں کے ساتھ مل کر دستخط کیے تھے۔انھوں نے خلیجی عرب ممالک کےاس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یک سو ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت قطر کے پاس دو ہی آپشن رہ گئے ہیں: وہ یا تو دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی طرف داری کرے یا پھر دوسری جانب ہوجائے۔