قطر کاپُر خطر بحران

Kashmir Uzma News Desk
18 Min Read
 رواں ماہ کی ابتداء میںسعودی عرب اور مصر سمیت چھ عرب ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا اور یمن نے قطر پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا  جس کوخلیجی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے کہا کہ سعودی عرب نے قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دئے ہیں اور وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے بچنے اور قومی سلامتی کے پیش نظر قطر کے ساتھ اپنی سرحدوں کو بھی بند کر رہا ہے۔سعودی عرب نے ایک بیان میں قطر پر ایرانی حمایت یافتہ شدت پسند گروپوں کے ساتھ مشرقی علاقوں قطیف اور بحرین میں تعاون کرنے کرنے کا الزام لگایا ۔ان ممالک کا یہ الزام بھی ہے کہ قطر بقول ا ن کے اخوان المسلمون ،حماس کے علاوہ دولت ِاسلامیہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔متحدہ عرب امارات نے قطری سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کے لیے ۴۸؍گھنٹے کی مہلت دی ۔سرکاری خبر رساں ادارے ڈبلیو اے ایم کے مطابق ابوظہبی نے دوحہ پر دہشت گرد، انتہا پسند اور مسلکی تنظیموں کی حمایت کا الزام لگایا ۔سفارتی پابندیوں کے اعلان کے بعد جہاں سعودی، اماراتی اور بحرینی شہریوں کو قطر کا سفر کرنے سے روکا گیا ، وہیں سعودی حکومت نے وہاں مقیم اپنے شہریوں کو واپسی کے لیے دو ہفتے کی مدت دی ۔ انہی ۱۴؍دنوں میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں مقیم قطری شہریوں کو بھی اپنے وطن واپس جانا پڑا۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ ۸۰ہزار مصری شہری قطر میں مقیم ہیں اور ان میں سے اکثریت انجینئرنگ، طب اور قانون کے علاوہ تعمیرات کے شعبوں سے ہی وابستہ ہے۔اس بڑی تعداد میں کارکنوں اور ملازمین کا چلے جانا قطر میں کام کرنے والی مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے ایک دردِ سر ثابت ہو سکتا ہے۔
دراصل سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے اعلانات مذکورہ ممالک کی جانب سے قطری نیوز ویب سائٹس بلاک کیے جانے کے واقعے کے دو ہفتے بعد کیے گئے ۔یہ ویب سائٹس قطری امیر تمیم بن حمد الثانی کے ان بیانات کی آن لائن اشاعت کے بعد بلاک کی گئی تھیں جن میں وہ سعودی عرب پر کڑی تنقید کرتے دکھائی دئے تھے۔قطری حکومت نے ان بیانات کو جعلی اور شرمناک سائبر جرم کہا تھا۔قطر کا الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کے ٹی وی چینل کی انگریزی اور عربی زبانوں میں نشریات دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں اور اکثر اس کی خبروں اور تجزیوں میں خلیجی ممالک کے اندورنی مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے اور خلیجی اور عرب حکومتوں کی پالیسیوں پر تنقیدی جائزے اور تجزیے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔یمن میں حوثی باغیوں کے دارالحکومت صنعا پر قبضے کے بعد صدر منصور ہادی فرار ہو کر ساحلی شہر عدن منتقل ہو گئے تھے تاہم بعد میں حوثی باغیوں نے جب عدن کی جانب پیش قدمی شروع کی تو صدر وہاں سے فرار ہو کرسعودی عرب پہنچ گئے تھے۔سعودی عرب کی کمان میں قائم اتحاد کے ہزاروں فوجی یمن میں بھیجے گئے ہیں تاکہ صدر ہادی کی حکومت کو بحال کیا جا سکے۔ اتحادیوں نے جولائی میں ساحلی شہر عدن کا کنٹرول حوثی باغیوں سے لے لیا تھا اور اب ملک کے شمالی علاقوں کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔یادرہے کہ سعودی عرب کمان کے تحت ایک ہزار قطری فوجیوں کو یمن کے علاقے ماریب میں تعینات کیا گیا اور ان کے ساتھ بکتر بند گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر بھی بھیجے گئے ۔ قطر نے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملوں کے لیے اپنے طیارے بھی فراہم کیے تھے۔ حوثی قبائلیوں کے ماریب میں گولہ بارود کے ایک ذخیرے پر راکٹ حملے کے نتیجے میںماریب ہی میں سعودی اتحاد کے ۶۰فوجی مارے گئے تھے جس میںہلاک ہونے والے فوجیوں میں متحدہ عرب امارات کے ۴۵، سعودی عرب کے دس اور بحرین کے پانچ فوجی شامل تھے۔اس واقعے کے بعد متحدہ عرب امارات کے جنگی طیاروں نے یمن میں کئی مقامات پر شدید بمباری کی تھی جب کہ حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ ان کا یہ حملہ سعودی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کے جرائم کا بدلہ ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں مارچ سے سعودی کمان میں ہونے والی فوجی کاروائیوں میں ساڑھے چار ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے دو ہزار سے زیادہ عام شہری ہیں۔اب سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعدقطر کو سعودی قیادت میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف سرگرم عسکری اتحاد سے بھی نکال دیا گیا ۔ایس پی اے کا کہنا ہے کہ اس اخراج کی وجہ یہ تھی کہ قطر کے اقدامات سے دہشت گردی مضبوط ہو ئی اور وہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں اور باغی ملیشیاؤں کی حمایت کرتا تھا۔دراصل خلیج کے ممالک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی چاراہم وجوہات ہیں جس کی بناء پرعرب ممالک پہلے بھی قطرکواس کے سنگین اثرات سے مطلع کرچکے تھے۔
پہلی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ عرب سپرنگ کہلانے والی مشرقِ وسطیٰ میں آئی انقلابی لہر کے بعد سیاسی تبدیلیوں کے دوران قطر اور ہمسایہ ممالک نے مختلف عناصر کی حمایت کی تھی۔ دوحہ نے جن اسلام پسندوں کی حمایت کی تھی ان میں کچھ اپنے ممالک میں سیاسی فوائد اٹھا پائے ہیں۔مثال کے طور پر ۲۰۱۳ء میں جب مصر کے سابق صدر محمد مرسی کو معزول کیا گیا تو قطر نے ان کی جماعت اخوان المسلمین کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ یاد رہے کہ مصری حکومت نے اخوان المسلمین پر پابندی لگا رکھی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم مانتے ہیں۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے بیان کے مطابق قطر پر’’ اخوان المسلمین، داعش اور القاعدہ سمیت مختلف دہشت گرد اور فرقہ وارانہ گروہوں کی حمایت کرنا ہے جن کا مقصد خطے میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے‘‘۔ ادھر قطر نے اس اقدام کو بلاجواز اور بلاوجہ قرار دیا ہے۔ خود پر لگے الزامات کی تردید کرنے والے بیان میں قطری حکومت کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتا ہے۔دوسری اہم وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ نیا بحران اس وقت شروع ہوا جب قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے ایک مبینہ بیان پر رپورٹ شائع ہوئی جس میں امریکاکی جانب سے ایران کے خلاف جارحانہ مؤقف پر تنقید کی گئی۔ قطر کے مطابق ملک کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پر شائع ہونے والے بیان کے پیچھے ہیکرز کا ہاتھ تھا۔ ایران کے حریف سعودی عرب کو ایک عرصے سے تہران کے مؤقف اور خطے میں اس کے عزائم پر تشویش رہی ہے۔ سعودی بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ قطرسعودی عرب کے شیعہ اکثریت والے علاقے قطیف میں ایران کی پشت پناہی حاصل رکھنے والے گروہوں کی شدت پسندی کی کاروائیوں میں مدد کر رہا ہے۔ قطر پر یمن میں حوثی باغیوں کی پشت پناہی کرنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔دوحہ جس نے سعودی اتحاد کے ہمراہ یمن میں کاروائیوں میں حصہ لیا ہے، مصر ہے کہ وہ دوسرے ممالک کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ لیبیا جواس وقت سے عدم استحکام کا شکار ہے جب سے سابق رہنما معمر قذافی کو اقتدار سے بے دخل کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔ لیبیا کی ملٹری میں طاقتور حیثیت رکھنے والے خلیفہ ہفتار جنہیں مصر اور متحدہ عرب امارات کی پشت پناہی حاصل ہے، قطر پر دہشت گرد گروہوںکی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہفتار ملک کے مشرقی شہر تبروک میں قائم حکومت کے حامی ہیں جبکہ قطر طرابلس میں قائم حکومت کی حمایت کرتی ہے۔چوتھی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب نے قطر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ میڈیا اداروں(الجزیرہ) کو استعمال کرکے سرکشی کے جذبات اُبھار رہا ہے۔قطری میڈیا نے اخوان المسلمین کے ممبران کو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جب کہ قطر ی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ میڈیا پر جو مہم چل رہی ہے(قطر کے خلاف)وہ خطے میں عوام کے خیالات بدلنے میں ناکام ہوئی ہے خاص طور پرکہ اکسانے کی تحریک کے جو الزامات ہیں وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان چھ ممالک کی سفارتی تعلقات فوری طورپرختم کرنے کے اس فیصلے کا قطر کی معیشت اور وہاں کاروبار کرنے والے افراد پر کیا اثر پڑ ا؟چاہے قطر ائرویز ہو یا الجزیرہ یا پھر مشہور فٹ بال کلب بارسلونا کی سپانسر شپ اور پھر ۲۰۲۲ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی، جزیرہ نما عرب کے شمال مشرقی ساحل پر واقع یہ چھوٹی ریاست عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب رہی ہے۔قطر کی آبادی ۲۷؍لاکھ ہے اور دوحہ کی بلندوبالا عمارتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہ ملک کثیر القومی کمپنیوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ ایسے میں حالیہ سیاسی واقعات کا مطلب ہے کہ بہت سی چیزیں داؤ پر ہیں۔قطر میں اس وقت تعمیراتی سرگرمیاں زوروں پر ہیں اور ریاست میں ایک نئی بندرگاہ، ایک طبی زون، میٹرو کا منصوبہ اور ۲۰۲۲ء کے ورلڈ کپ کے حوالے سے آٹھ سٹیڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ان تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والا کنکریٹ اور سٹیل جہاں بحری راستے سے آتا ہے وہیں اس کا ایک راستہ سعودی عرب سے بذریعہ خشکی بھی ہے۔اس سرحد کی بندش کا نتیجہ جہاں سامان کی آمد میں تاخیر کی شکل میں نکلے گا وہیں اخراجات میں اضافے کی وجہ بھی بنے گا۔قطر کی تعمیراتی صنعت پر مال کی کمی کا جو خطرہ منڈلا رہا تھا ،اسے یہ بندش مزید سنگین کر دے گی۔امریکاکے بیکر انسٹیٹیوٹ میں خلیجی ممالک کے ماہر کرسٹن الرچسن کا کہنا ہے کہ سفارتی تعلقات کے انقطاع سے فضائی حدود اور سرحدوں کی بندش کا اثر ورلڈ کپ کے لیے طے شدہ نظام الاوقات اور سامان کی فراہمی پر پڑے گا۔صحرائی ریاستیں اپنی ارضیاتی ساخت کی وجہ سے خوراک کی پیداوار کے معاملے میں مشکلات کا شکار رہتی ہیں۔ قطر کے لیے فوڈ سیکورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس کی واحد زمینی سرحد سعودی عرب سے ہی ملتی ہے۔ اس سرحد پر روزانہ ہزاروں ٹرک آر پار جاتے جن پر اشیائے خوردونوش لدی ہوتی۔ ایک اندازے کے مطابق قطر میں استعمال ہونے والی۴۰؍فیصد خوراک اسی راستے سے آتی تھی۔سعودی عرب نے کہا کہ وہ یہ سرحد بند کر رہا ہے جس کے بعد قطر میں خوراک لانے کے لیے صرف ہوائی اور بحری راستے ہی بچیں گے۔ اس کا نتیجہ ملک میں افراطِ زر کی صورت میں نکلے گا جس کا اثر عام قطری شہری پر پڑنا لازمی ہے۔ ان کے مطابق جب چیزیںمہنگی ہو جائیں گی تو قطری عوام حکمران خاندان پر دبا ؤ ڈالنا شروع کریںگے کہ آیا وہ قیادت بدلے یا پھر سمت۔بہت سے قطری شہری اپنی روزمرہ کی خریداری کے لیے بھی سعودی عرب کا رُخ کرتے ہیں کیونکہ وہاں یہ نسبتا ًسستی ہیں اور اب یہ بھی ان کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔ادھرقطر کے وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی کا الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ تمام ممالک کو بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کو دور کرنے چاہئیں۔ قطر کے خلاف پیدا ہونے والے حیران کن تنازعے پر افسوس ہے، ہم اس بحران کے پیچھے حقیقی وجوہات کے بارے میں نہیں جانتے۔ اگر اس بحران کے پیچھے اصل وجوہات تھیں تو ان پر گزشتہ ہفتے جی سی سی کے ہونے والے اجلاس میں بات چیت یا بحث کی جا سکتی تھی، تاہم اس اجلاس میں اس بارے میں کوئی بات چیت یا بحث نہیں کی گئی۔ ریاض میں ہونے والے امریکی اسلامی عرب سمٹ میں بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ ان اجلاسوں میں ایسا کچھ بھی تھا تو ہمارے پاس اس بحران کے پیدا ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ قطر کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات غیر معمولی اور یک طرفہ ہیں۔ ہم قطر میں ایسی نوعیت کا کوئی قدم نہیں اٹھاتے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ مذاکرات کے ذریعے کوئی بھی مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ہمیں افسوس ہے کہ جی سی سی میں شامل کچھ افراد قطر پر اپنی خواہش نافذ کرنا چاہتے یا اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں جسے ہم مسترد کرتے ہیں ،تاہم ہمارا خیال ہے کہ اس نے جی سی سی کے کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔الجزیرہ کی جانب سے پوچھے جانے والے اس سوال پر کہ اس بحران سے قطر میں عام زندگی کتنی متاثر ہو گی، شیخ محمد کا کہنا تھا کہ قطر میں اس سے پہلے بھی متعدد بحران آ چکے ہیں جیسا کہ۱۹۹۶ء میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش اور ۲۰۱۴ء میں جی سی سی ممالک اور قطر کے درمیان پیدا ہونے والا بحران،تاہم ان بحرانوں پر قابو پا لیا گیا۔ قطر اپنے شہریوں کو معمول کی زندگی فراہم کرنے کیلئے خود پر انحصار کرے گا۔ ہمارے پاس ایسے پروگرامز ہیں جس کے ذریعے ہم زندگی کے تسلسل اور عام طور پر اہم عمارتی منصوبوں کو یقینی بنائیں گے۔اس سوال پر کہ اس بحران سے قطر کے امریکاکے ساتھ تعلقات کتنے متاثر ہوں گے توشیخ محمد کا کہنا تھا کہ قطر کے امریکا کے ساتھ تعلقات سرکاری اداروں کے ذریعے بنائے جاتے ہیں جو کہ مضبوط ہیں۔ قطر اور امریکاکے تعلقات مارجینل گروپس نہیں بناتے بلکہ امریکی حکومت کے سرکاری ادارے یہ تعلقات بناتے ہیں۔
 قطر بحران کے پیچھے امر یکہ کی امت مسلمہ کے خلاف کھلی اوردر پردہ جنگ کارفرماہے ۔ امر یکہ نہیں چاہتا کہ مسلم ممالک میں کہیں بھی امن وآشتی ہواورحقیقت یہ ہے کہ قصرسفیدکے فرعون کے حالیہ د ورۂ ریاض میں برملامسلم اُمہ میں انتشارکے جوبیج بونے کے بعد اسی طرز سیاست وسفارت کی توقع کی جارہی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلم اُمہ کے یہ رہنماء اب بھی سمجھنے سے قاصرہیں کہ ایک طرف توامریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن سعودی عرب اوردیگرعرب ممالک سے قطرکے خلاف پابندیوں کوختم کرنے کیلئے کہہ رہاہے کہ اس عمل سے دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں نقصان ہونے کاشدیدخدشہ ہے اوردوسری طرف قصرسفیدکافرعون رومانیہ کے صدرسے ملاقات کے دوران قطرپردہشت گردی کی معاونت کاالزام لگا کر عرب ممالک کے موجودہ اقدامات کی تحسین کر رہاہے ۔ وائٹ ہاؤس اورامریکی صدرکے بیانات میں تضادکی وجہ سے عالمی رہنماء قطرسے متعلق امریکی پالیسی سے پریشان ہیں    ؎
عشق قاتل سے بھی اورمقتول سے ہمدردی بھی 
یہ بتا کس سے محبت کی جزامانگے گا
سجدہ خالق کوبھی اورابلیس سے یارانہ بھی  
 حشرمیں کس سے عقیدت کاصلہ مانگے گا
�����
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *