ندائے حق
اسد مرزا
جہاں پوری دنیا نیپال سے9 ستمبر کو آنے والی تصاویر دیکھ رہی تھی جہاں حکومت سے مایوس نوجوانوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا، اسی شام ایک اور ڈرامائی واقعہ کی خبر سامنے آئی ۔ اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے دوحہ، قطر میں میزائل داغے، جس میں ایک عمارت کو نشانہ بنایا گیا جہاں حماس کے اعلیٰ عہدیدار صرف ایک دن پہلے امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی جنگ بندی کی تازہ ترین تجویز پر تبادلہ خیال اور غور کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ابتدائی رپورٹس میں بتایا گیا کہ اسرائیلی حملہ حماس کی سینئر قیادت بشمول فلسطینی چیف مذاکرات کار خلیل الحیا کو مارنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ تاہم بعد میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ اگرچہ حماس کے چھ افراد مارے گئے، تاہم زیادہ تر سینئرقیادت محفوظ رہی کیونکہ وہ اس وقت عمارت میں موجود نہیں تھے جب میزائل حملہ کیا گیا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے فوری طور پر ایک بیان جاری کیا کہ یہ حملہ’’مکمل طور پر آزاد اسرائیلی آپریشن تھا۔ اسرائیل نے اسے شروع کیا، اسرائیل نے اسے انجام دیا، اور اسرائیل اس کی پوری ذمہ داری قبول کرتا ہے۔‘‘ یہ بیان بہت جلد جاری کیا گیا تھا گویا امریکہ اور صدر ٹرمپ کو کسی ممکنہ الزام سے بچانے کے لیے۔تاہم ناکام حملے نے عالمی نظام (جو پہلے ہی مکمل طور پر تباہی کی حالت میں ہے)، بین الاقوامی سرحدوں کی حرمت، علاقائی سالمیت اور ملکی خودمختاری، علاقائی/عالمی تنازعہ میں ثالث بننے کے خطرات جیسے کہ قطر اب محسوس کر رہا ہے، ان پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ یقیناً یہ آخری بار نہیں ہے کہ دنیا نے اسرائیل کی طرف سے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے اور اپنی مرضی سے خودمختار ممالک کے اندر حملہ کرنے کے بارے میں سنا ہے، جس کی وجہ سے چند اہم موضوعات پر غور کرنا ضروری ہے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکہ اور خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شروع سے ہی غزہ جنگ میں اسرائیل کی غیر واضح حمایت کا عزم کیا ہے۔ یہ بھی کوئی راز نہیں ہے کہ اگر امریکہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ کی مادی اور اخلاقی حمایت واپس لے لے تو اسرائیل جنگ جاری نہیں رکھ سکے گا تاہم یہ فریب اور دوغلا پن ہے جو خود حمایت سے زیادہ مشتعل ہے۔امریکہ نے 7-8 ستمبر کو حماس اور اسرائیل کو جنگ بندی کا نیا منصوبہ پیش کیا، جس میں حماس کی قیادت کو حتمی وارننگ کے طور پر اس پر رضامندی کے لیے 48 گھنٹے کا وقت دیا گیا۔ حماس کی قیادت 9 ستمبر کو اس تجویز پر بات کرنے کے لیے بلائی گئی تھی جب اسرائیل نے حملہ کیا تھا۔
یقینا ًآپ اس اسکرپٹ سے واقف ہوں گے؟ یہی اسکرپٹ جون کے مہینے میں بھی استعمال کیا گیا تھا، جب امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان 15 جون کو ایران جوہری معاہدے پر پانچویں اور شاید حتمی بات چیت کی شروعات ہوگی۔اس کے بعد ایران کو 13 جون کو اسرائیل نے نشانہ بنایا، جس نے نتیجہ خیز مذاکرات یا کسی معاہدے کے کسی بھی امکان کو سبوتاژ کیا۔ امریکہ نے اسرائیل کی سرزنش کرنے کے بجائے اگلے 12 دنوں میں مسلسل حملوں میں اسرائیلی جیٹ طیاروں کی مددکی اور اسرائیل کوفوردو نیوکلیئر پلانٹ کو تباہ کرنے کے لیے GBU-57 بم بھی مہیا کرائے۔
اسی طرح 9 ستمبر کو دوحہ حملے کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ نے استدعا کی کہ اسے میزائل حملے سے محض 10 منٹ قبل اسرائیلی حملے کا علم ہوا۔ دوحہ میں العدید ایئر بیس، خطے کا سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ہے اور یہ امریکی سنٹرل کمانڈ کے فارورڈ ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کرتا ہے، جسے CENTCOM بھی کہا جاتا ہے، جو پورے خطے میں امریکی فوجی کارروائیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔اس اڈے کے اہم کاموں میں سے ایک اس کا اپنا دفاع ہے اور پورے خطے کی نگرانی اور فضائی دفاع ہے۔ یہ دونوں افعال 24×7، سال میں365 دن جاری رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے پاس جدید ترین نظام ہیں،جس سے کہ وہ خطے میں ہونے والی کسی بھی ہوائی یا فوجی کارروائی کے بارے میں سیکنڈوں میں جانکاری حاصل کرسکتے ہیں۔
آج صرف قطر ہی نہیں بلکہ پورا خطہ صدمے کی کیفیت میں ہے۔ جون 2025 میں ایرانی سرزمین کی خلاف ورزی ایک مختلف معاملہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے قبل بھی ایران اور اسرائیل آپس میں لڑ چکے ہیں۔لیکن قطر، جو جنگ بندی کے معاہدے میں ثالثی کر رہا ہے اور گزشتہ دو سالوں سے حریف وفود کی میزبانی کر رہا ہے، اس کو نشانہ بنایا جانا یقینا علاقے کی اسلامی حکومتوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہونے کے علاوہ ان کو یہ سبق بھی ہوسکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل وسطی ایشیا کے کسی بھی ملک پر کہیں بھی اور کبھی بھی حملہ کرسکتے ہیں، چاہے وہ ان کے اتحادی ہی کیوں نہ ہوں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیل کے دشمنوں کا کسی بھی وقت کہیں بھی تعاقب کرنے کا عزم کیا ہے، جیسا کہ امریکہ نے 9/11 کے بعد کیا تھا۔ اس کے علاوہ نیتن یاہو نے زخم پر نمک لگاتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ اسرائیل کا حصہ ہے اور وہاں کسی فلسطینی کی موجودگی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اس طرح کی کسی بھی حکمت عملی پر کام کرنے سے پہلے نیتن یاہو کو یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ 20 سال کے عرصے تک افغانستان میں اپنی تمام تر فوجی طاقت کے ساتھ موجود رہا لیکن اس کے باوجود اسے کوئی فیصلہ کن فتح حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے اختتام پر اسے اگست 2021 میں انتہائی شرمناک صورتحال میں افغانستان سے واپس جانا پڑا، جس سے طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قطر نے طالبان کی بھی میزبانی کی تھی جہاں فروری 2020 میں امریکہ طالبان امن معاہدہ ہوا تھا۔ کیا اسرائیل بھی غزہ میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی جنگ کی طرف دیکھ رہا ہے؟ کیا اس کے پاس اسٹیمینا یا وسائل ہیں؟ کیا یہ کسی ایسے منظر نامے کے لیے تیار ہے جہاں اس سب کے اختتام پر حماس (طالبان کی طرح) اقتدار میں یا کسی طاقت ور پوزیشن میں سامنے آجائے گی؟
قطر پر میزائل حملے نے کئی اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس طرح کے حملے کرنے کی اجازت کس عالمی قانون نے اسرائیل کو دی ہے؟ ساتھ ہی ایسے حملے خودمختار ممالک کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کرنے والے واقعات ناقابل قبول ہیں اور اس حملے پر امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک کو اسرائیل کی سرزنش کرنی چاہیے۔عالم تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں اس حملے کی مذمت اسرائیل کا نام لیے بغیر کی گئی۔
حقیقت پسندانہ اختتامی مقصد کو ذہن میں رکھے بغیر جنگ کو جاری رکھنے کے بجائے، مستقبل میں سلامتی اور بقائے باہمی کو یقینی بنانے کے لیے علاقائی اور عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر اقدامات کرتے ہوئے ایسے حل پر غور کرنا مفید ہو سکتا ہے جو اس کے یرغمالیوں کو وطن واپس لائے اور غزہ کے تعلق سے نیتن یاہو، ڈونالڈ ٹرمپ اور ٹونی بلیئر کے جو بھی خفیہ پلان ہیں انھیں ختم کرکے فلسطینیوں کو ان کا ملک واپس دیا جائے تبھی علاقے میں امن قائم ہوسکتا ہے، لیکن ایسی صورت حال بننے کے آثار بہت کم ہیں، کیونکہ ان سب کا مقصد مذہبی اور دیگر تواریخ کو دوبارہ لکھ کر صہیونیت کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ لیکن اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی اور سب مسلمان ان شاء اللہ دیکھیں گے کہ کس طرح صہیونیوں کا یہ پروگرام ختم اور ان کی حکومت نیست و نابود ہوگی۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)