سعودی عرب نے اچانک قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کردئے ۔سعودی عرب کے ساتھ ہی اس کے چھ اتحادیوں نے بھی اس پرعمل درآمد کا اعلان کیا ہے ۔آخر کیا وجہ ہوئی کہ سعودی عرب اور قطر کے تعلقات اچانک اس نہج پر پہنچ گئے ؟ہم قطر اور سعودی عرب کو پیر بھائی، ان معنوں میں قرار دے سکتے ہیں کہ دونوں کا ریموٹ کنٹرول وہائٹ ہاوس میں ہے ۔جاننے والے بتاتے ہیں کہ تعلقات کی اس خرابی میں اصل کردار بھی وائٹ ہاوس ہی کا ہے ،جب تک سعودی عرب کو چاروں طرف سے گھیر نہ لیا جائے اور یہ چومکھی جنگ میں ملوث نہ ہوجائے ،عالمی سازش کا روں کی سعودی عرب کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی ۔یوں تو قطر دیکھنے میں ایک ننھا سا ملک ہے مگر اس کی اہمیت اپنی جگہ پر ۔قطر کی کیا اہمیت ہے اسے دیکھتے ہیں۔
یوں تو پورے کا پورا ایشیا ہی امریکی اثر ونفوذ میںداخل ہے ۔کیا افغانستان ،کیا پاکستان ،کیا عراق ،کیا پورا مشرق وسطیٰ ،کیا سعودی عرب ،کیا یمن ،کیا اُردن ،کیا عراق سب کچھ تو امریکہ کے حوالے ہے۔تاجکستان میں امریکہ کا باقاعدہ فوجی اڈہ قائم ہے اور ترکی ،وہ تو باقاعدہ ناٹو معاہدہ میں شامل ہے ۔افغانستان میں ناٹو افواج کی کمانڈ کرتا رہا ہے مگر اس وقت قطر کی اہمیت ان سب سے بڑھ کر ہے ۔
جزیرہ نما قطر کہنے کو تو عرب دنیا کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے اور اس کی واحد زمینی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے جب کہ اس کے بقیہ تین طرف خلیج فارس ہے ۔اس کا قریب ترین سمندری ہمسایہ جزیرہ بحرین ہے ۔قطر کا شمار مختصر ترین آبادی والے ممالک میں بھی کیا جاسکتا ہے ۔2008کی مردم شماری کے مطابق اس کی کل آبادی تقریباًپندرہ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی ،جس میں قطری عربوں کا تناسب صرف بیس فیصد تھا بقیہ آبادی میں سے بیس فیصد دیگر عرب باشندے تھے جب کہ بھارتیوں کا بھی تناسب بیس فیصد ہی تھا ۔نیپالیوں کا تناسب تیرہ فیصد ،فلپائنیوں کا دس فیصد اور پاکستانیوں کا تناسب کل آبادی کا سات فیصد تھا،دیگر پانچ فیصد میں دیگر اقوام شامل ہیں ۔یہاں کے موجودہ حکمران شیخ محمد بن خلیفہ امریکہ و دیگر بین الاقوامی قوتوں کی براہ راست آشیرواد سے اپنے والد خلیفہ بن حماد کا تختہ اُلٹ کر 1995میں برسر اقتدار آئے۔
نائن الیون کے فوری بعد سے ہی انہوں نے بیرونی آقائوں کو خراج ادا کرنا شروع کردیا ۔ جڑواں نادروں کی تباہی کے بعد امریکی فرمانروا بش نے جیسے ہی اقوام متحدہ کی چھڑی عراق پر حملے کے لئے طلب کی،اس کے ساتھ ہی امریکی سنٹرل کمانڈ سینٹ کام نے اپنا نیا ہیڈ کوارٹر قطر کو چن لیا اور یہاں پر فوری طور پر عملہ اور آلات منتقل کردئے گئے ۔اس وقت ہی سے یہاں پر سینٹ کام کا امریکہ کے بعد دوسرا مرکز قائم ہے اور یہیں سے امریکہ وسطی اور جنوبی مغربی ایشیا ،مشرق وسطیٰ اور شمال مشرقی افریقہ کے پچیس ممالک میں اپنے ملٹری آپریشنز کو کنٹرول کرتا ہے ۔ گوکہ امریکہ کے فوجی دستے سعودی عرب، یمن، عراق،کویت،پاکستان ،تاجکستان ،ترکی ،افغانستان اور دیگر ملکوں میں بھی موجود ہیں مگر ان کے لئے ہیڈ کورارٹر کا کام قطر ہی کرتا ہے ۔اس مقصد کے لئے دوحہ سے صرف 28میل کی دوری پر واقع العدیدملٹری بیس امریکہ کا ایشیا و افریقہ کے لئے نیا پنٹا گون ہے ۔
عالمی سازش کارواں کی منصوبہ بندی کو دیکھئے تو ان کی ٹائمنگ پراش اش کرنے کو جی چاہتا ہے ۔قطر نے العدید ائر بیس کو تعمیر کرنے کا کام 1990میں ایک ارب ڈالر مالیت کے منصوبے سے شروع کیا ،اس وقت قطر کے پاس فضائیہ نام کی کوئی چڑیا موجود نہیں تھی اور نہ ہی مستقبل میں اس وقت اس کی کوئی ضرورت محسوس ہورہی تھی ۔اس وقت راوی ہر جگہ چین کی بانسری بجا رہا تھا مگر سازشی اپنی سازشوں کا جال بُن رہے تھے ۔1991میں آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ اور قطر منصوبے کے عین مطابق ایک دفاعی معاہدے میں شامل ہوگئے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ توسیع ہی ہوتی گئی ۔جب العدید ائر بیس تعمیر کیا جارہا تھا اس وقت کسی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا کہ اس ائر بیس کا رن وے خلیج کی کسی بھی ریاست میں طویل ترین ہے اور یہاں پر دس ہزار کی نفری کو رکھنے کی سہولت موجود ہے ۔اسی تناسب سے یہاں پر آلات ،جہاز اور دیگر معاملات کا انتظام کیا گیا ۔1990میں جب العدید کی تعمیر کی گئی تو اس وقت تمام غیر ملکیوں سمیت قطر کی کل آبادی محض چار لاکھ کے قریب تھی مگر ائر بیس کی اس بڑے پیمانے پر تعمیر پر کسی کو بھی تشویش نہیں ہوئی ۔
اب دوبارہ سے معاملات کو سمجھئے ۔امریکی سینٹ کام نے نائن الیون کے بعد قطر کو اپنا مرکز بنایا ،مگر اس کی تعمیر ٹھیک دس برس پہلے شروع ہوچکی تھی،کیونکہ اتنا بڑا مرکز راتوں رات تعمیر نہیں کیا جاسکتا تھا اور اس کی تعمیر کے لئے تقریباً اتنا ہی عرصہ درکار تھا ،اس لئے اس کی تعمیر پہلے سے ہی شروع کردی گئی ۔کسی بھی ملک پر حملہ ایک دو دن کی کہانی نہیں ہوتی ۔اس کی تیاری کے لئے برسوں درکار ہوتے ہیں ،بہانہ کچھ بھی ہو مگر پڑوسی ملک پر حملے کے لئے کم از کم پانچ برس کی تیاری درکار ہوتی ہے اور اگر ہزاروں میل دور کا معاملہ ہو تو دس سے بیس برس جیساکہ ہمیں عراق پر حملے کی صورت میں نظر آیا ۔
اور پھر قطر نے یا پھر اس کی چھتری تلے امریکی مرکزی کمانڈ سینٹ کام نے وہ تمام آپریشنز سر انجام دئے جو ایٹلانٹک پار سے نہیں کئے جاسکتے تھے۔افغانستان ،ایران کی پوری جنگ یہیں سے لڑی گئی اور آ ج بھی یہ سارے ملٹری آپریشنز کے خیمے اعصابی مرکز و ریزرو آرمی بیس کا کردار ادا کررہا ہے ۔عرب دنیا میں آنے والے نام نہاد انقلاب کی لہر بھی یہیں سے پیدا کی گئی اور لیبیا کی ٹیسٹ ٹیوب باغی فورس کی بھی یہیں پر ولادت ہوئی ۔قذافی سے ذاتی عداوت رکھنے والے چند قبائیلی باغیوں کے پاس راکٹوں سے زیادہ کوئی اسلحہ نہ تو موجود تھا اور نہ ہی وہ اس کا استعمال جانتے تھے ۔اسی لئے قذافی بہت زیادہ پُر امید تھا کہ اس کی تربیت یافتہ فوج اس ننھی سی بغاوت کو دنوں میں فرو کردے گی ،مگر یہ اس کی بھول تھی کیونکہ اس بغاوت کی پشت پر عالمی سازش کار تھے۔
یہ قطر ہی تھا ،جس نے عرب لیگ کو مجبور کیا کہ وہ اقوام متحدہ میں لیبیا کو نو فلائی زون قرار دے ۔اقوام متحدہ کی اسی قرار داد نے ناٹو فورسز کو لیبیا میں باقاعدہ بمباری کرنے کی اجازت عطا کی تھی اور ان باغیوں کو رسد کی فراہمی کہاں سے ہورہی تھی ،کسی مغربی ملک یا امریکہ سے نہیں بلکہ قطر سے ۔جی ہاں !یہ قطر ہی تھا جس نے ان باغیوں کو آلات ،مواصلات سے لے کر جدید بکتر بند تک اور لامنتہائی فنڈنگ بھی۔یہ قطر میںموجود امریکی مرکز سینٹ کام ہی تو تھا جو لیبیا میں باقاعدہ ناٹو کے تربیت یافتہ فوجی باغیوں کے ساتھ داخل کررہا تھا جو ٹینک ،اینٹی ائر کرافٹ گنز اور دیگر جدید حربی آلات استعمال کررہے تھے اور براہ راست بذریعہ سیٹیلائٹ اپنے مرکز کے ساتھ رابطے میں تھے اور جی ہاں!یہ بھی قطر ہی تھا جس نے قذافی کی زندگی میں ہی طرابلس پر باغیوں کے قبضے کے ساتھ ہی ان کی حکومت تسلیم کرلی تھی اور پھر سازش کاروں کے فرستادہ یہ باغی جب خالی ہاتھ حکومت کی مسند پر بیٹھے تو ان نئے حکمرانوں کو باغی سپاہیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے سو ملین ڈالر کی نقد رقوم بھی فراہم کی۔لیبیا کا نظام زندگی چلانے کے لئے چار جہا ز پٹرول اور ڈیزل کے بھیجے بلکہ بن غازی بندر گاہ پر ان کو آف لوڈ کرنے کے اخراجات بھی ادا کئے ۔گوکہ شام کی بیرونی بغاوت کا ہیڈ کوارٹر ترکی ہے مگر عرب لیگ کو یہیں سے کنٹرول کیا جاتارہا ہے ۔
اب یہی قطر جزائر عرب میں ایک نئے فساد کا آغاز کرنے جارہا ہے اور جو ابی غزل سعودی عرب سے عرض کی جاچکی ہے ۔پہچان لیجئے ،یہ قطر نہیں ہے بلکہ امریکی مرکزی کمانڈ سینٹ کام ہے اور جواب دینے والے بھی ریاض میں بیٹھے امریکی سینٹ کام کی برانچ ہے ۔اس کو دام ہم رنگ زمیں سمجھئے ۔اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی خبردار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبر دار رکھیئے ۔ہشیار باش۔