جموں کشمیر انسانی حقوق کمیشن نے فوج کی اور سے انسانی ڈھال (human shield) بنا کر آرمی جیپ کے آگے باندھنے والے عام بندے فاروق ڈار کو 15؍ لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے۔ ہمارے مرکزی وزیر وینکیا نائڈو جو نائب صدر کے عہدہ کے لیے بھاجپا اُمیدوار بھی ہے، نے بنا کوئی دیرکئے بیان دے ڈالا کہ ایک ’’پتھرباز ‘‘کو معاوضہ دینے کا سوال ہی نہیں پیداہوتا ۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ حکم ریاست کی سرکار کے نام ہے۔ ریاست کی سرکار کو ابھی اس پرا پنا موقف اختیار کر نا ہے ، اس آرڈر کا مطالعہ کرنا ہے اور اس بارے اپنے خیالات ظاہر کرنا ہے ۔ اس سب کچھ سے پہلے ہی کسی مرکزی وزیر کا بیان دینا کچھ شوبھانہیں دیتا۔انسانی حقوق کے اس کمیشن کو 1997 ء میں ریاست کی سرکار نے قائم کیا تھا۔ اس کے عملے کی تنخواہیں اور دفتروں کا خرچہ سرکار اٹھاتی ہے۔ اس کے بعد اگر کمیشن کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کرنا ہے اوران کو سمجھنے اور عملانے سے پہلے ہی انہیں ردّ کر دینا ہی طے ہے تو ایسا کمیشن بنانے کا کیا فایدہ؟ اس طرح کے کمیشنوں پر لوگوں کا اعتقاد بنا رہے، یہ سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے سرکار کا اپنا اعتقاد اور اعتمادہونا چاہیے اور یہ نہ صرف ظاہر بھی ہونا چاہیے بلکہ یہ لوگوں کو نظر بھی آنا چاہیے۔ انصاف کے بارے میںزبان زد عام محاورہ ہے کہ عدل وانصاف وہی جوزمین پر موجود بھی ہو اور اس کی موجودگی سب کو نظر بھی آئے۔ اگرنیائے کوئی نظر نہ آنے والی چیز ہوئی تو شک و شبہ پیدا ہوتا ہے۔ بہرحال ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن کا چیئرمین جوہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہے ، نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ فاروق احمد ڈار کو آرمی کے میجر گگکوئی نے ہیومن شیلڈ بناکر نہ صرف زورد ارذہنی جھٹکا دیا ہے بلکہ اس کوذلیل (humilate) کیا گیا ہے۔ ججمنٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مذکورہ شہری کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔ لہٰذااس کے عوض میں کمیشن فریادی کو 15؍ لاکھ روپے کا عوضانہ ادا کیا جانے کا حکم دیتا ہے۔ اس حکم نامے پر 6؍ ہفتوں میں عمل درآمد کرنے اور اس کی اطلاع کمیشن کے دینے کا حکم بھی دیا گیاہے۔
صحیح ہے کہ اس کمیشن کے فیصلہ جات سفارشی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی یہ نیم عدالتی (quasi judicial)ہوتا ہے۔کچھ بھی ہو زیر بحث معاملہ میں فیصلہ ایک تجربہ کار جج کی رہنمائی میں ہوا ہے۔گواہوں کے حلف اٹھا کر دئے گئے بیان دستاویزات میں درج ہیں، ان پر جرح وتعدیل ہوئی ہے اور فاضل جج نے اپنے فیصلے کی وجوہات بھی بتا دی ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر آرڈر کا پوری طرح مطالعہ کرنے کے بعد بھی سرکار کو اس میں کوئی قانونی یا قواعد کا سقم و نقص نظر آتا ہے تو وہ واضح کر دیاجانا چاہیے اور معاملہ کو خود ہائی کورٹ میں مزید شنوائی کے لئے بھیجاجاناچاہیے البتہ بنا کوئی کارروائی کئے اس فیصلے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دینا صاف لفظوں میں انضاف کا گلا دبانا مانا جائے گا۔سرکار بھی کہتی ہے، سیاستدان بھی کہتے ہیں اور سبھی سمجھ دار لوگ بھی جانتے ہیں کہ ترقی و خوش حالی کے لئے سماج میں امن وامان کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر پبلک کو تکلیف ہے، کوئی ناراضگی یا کوئی جائز مسئلہ ہے تواس کو سڑکوں پر آ کر فساد یا شور شرابہ کرنے کے بجائے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہ دُرست ہے لیکن سوچنا یہ بھی ہوگا کہ اگر سرکار ہی انصاف کے لئے قانونی راستے بند کرنے لگی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوںگے۔ جموں کشمیر کی وزیراعلی محبوبہ مفتی تو بہت بار کہتی رہی ہے کہ ریاست کی تعمیر و ترقی کے راستے میں بدامنی یاامن شکنی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ درست فرمانا ہے لیکن ان کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ امن کے راستے میں بھی کوئی رکاوٹ کسی بھی ریاستی عناصر سے نہیں آنی چاہیے۔انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے متاثرہ شہری کے حق میں اعلان کئے گئے معاوضے کی رقم کوئی پہاڑ جیسی زیادہ رقم نہیں ہے۔ اگر سرکار فاروق احمد ڈار کو یہ رقم عزت اور سلیقے سے دیتی ہے ، اگر وزیراعلیٰ خود اس کے گھر جا کر یہ چیک دیتی ہے تو اس کارروائی سے نہ صرف لوگوں میں سرکار کے تئیں اعتقاد اور اعتماد بنے گا بلکہ حصول انصاف کے لئے قانونی راستے کی بھی جیت ہو گی جس کی آج کشمیر میں سخت ضرورت ہے۔
ہر امن پسند اور عدل نواز انسان مانتاہے کہ جو کچھ بھی فاروق ڈار کے ساتھ ہوا، وہ پہلی ہی نظر میںہی صاف کرتا ہے کہ یہ بالکل ناجائز، غیر مناسب، غیرآئینی،غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر مہذبانہ حرکت ہے۔اس واقعہ کے کئی ایک پہلو ہوںگے جن پر بحث ہو سکتی ہے لیکن ایک بات پکی ہے کہ جس جوان سال شہری کے ساتھ یہ سب کچھ کیا گیا، اس کا سرے سے کوئی قصور نہیں تھا، وہ مبینہ طورپارلیمانی نشست کے لئے پولنگ بوتھ سے ووٹ دے کر آرہاتھا ۔اور متعلقہ فوجی افسر کا یہ کہنا کہ وہ لوگوں کو بھڑکا رہا تھا،لیکن کس بات کے لئے بھڑکا رہا تھا، محض الزام تراشی اور عذر لنگ ہے ۔ سچ یہ ہے کہ جب وہ سسٹم کو مان رہاتھا تبھی تو اس نے خود ووٹ ڈالا تھا۔ نیز اگر فرض بھی کیا جائے کہ وہ لوگوں کو بھڑکا رہاتھا توکیا ملکی آئین میں بھڑکانے کی یہ سزا لکھی ہے کہ اس کو جیپ کے آگے باندھ کر بھوکا پیاسا کئی گھنٹے تذلیل کرکے سڑکوں پر گھمایا جائے گا؟ کیا ایسی کڑی سزا دینا کسی فوجی افسر کا کام ہے یا کسی مجسٹریٹ کا؟ اگر اس نے قانون کی خلاف ورزی کی تھی تو اسے پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا؟ کیوں اس کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کروائی گئی؟ اس کے ساتھ ہی ایک اورسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں آزادی ٔ اظہار کا حق ختم ہو گیا ہے؟ اروندھتی رائے نے اس واقعہ کے خلاف لکھا تو بی جے پی کے ایک ایم پی نے بیان دے دیا کہ اُس کو بھی اسی طرح جیپ کے آگے باندھ کر گھمایا جائے۔تو کیا ایسی سزاؤں کا فیصلہ فوجی افسر کریںگے ؟ بھاجپا کے ایم پی کریں گے؟ عدالتیں کریں گی؟بھاجپا کے متذکرہ ایم پی سے ہماری درخواست ہے کہ ار وندھتی کو تو چھوڑئے، اگر یہ چند سطریں لکھنے والے اس بندے کے بارے میں ایسا کوئی بندوبست ہو سکے کہ اس کو بھی اسی جیپ پرباندھ کر اسی راستے گھما دیا جائے تو راقم السطور بہت شکر گزار رہے گاتاکہ اس سے شاید فاروق ڈار کے درد کو کچھ حد تک بانٹا جا سکے۔آخری بات یہ کہ پتہ چلا ہے کہ فاروق ڈارنے غصے میں کہا ہے کہ اب وہ کبھی ووٹ نہیں ڈالے گا لیکن ہماری اس سے مودبانہ عرض داشت کہ غصہ نکالنے کا راستہ ووٹ نہ ڈالنا نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ووٹ ڈالنا ہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ ظلم کی اندھیری رات کو سپیدہ ٔ سحر میں بدلنے کے لئے فاروق بھائی! اگلے انتخاب میں خود کھڑا ہونا چاہیے اور حق کی آواز بلند کرنی چاہیے:’’ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔
رابطہ 098783 75903