تارے کی دُم کو دیکھ کر قصّہ گو نے آسمان کی فصیلوں کی اور نگاہ دوڑائی ۔تاروں کی جگمگ سے رات کا آسماں شامیانے کی مانند سج رہا تھا۔دور دور تک ستاروں نے الگ الگ ٹولیا ں بنائی ہوئیں تھیں اور ہرٹولی اپنی صدیوں کی تاریخ لئے تاریک فضا میں بے نشاں ہونے کے لئے پیر رہی تھی۔آسمان سے سرد اور موہوم ہوائیں قصّہ گو کے کانوں میں کچھ پیغام لے کرآتی تھیں، جس کی وجہ سے وہ سنجیدگی کاایک ایک زینہ عبور کرکے نیا عزم ِسفر باندھتے ہوئے نشان ِپا کو معدوم کر کے آگے بڑھتا چلا جارہا تھا۔فکر کی اس غوطہ زنی میں روشنی کے نیزے قصّہ گو کی آنکھوں میں طرح طرح کے انسانی سانچے بنا دیتے تھے ۔روشنی کے یہ سانچے کبھی کبھی انسانوں کی شکلیں اختیار کر رہے تھے۔روشنی کے ان نیزں میںقصّہ گو کو کوئی شخص دھیرے دھیرے آسماں کے زینے اترتا دکھائی دیا ۔جب وہ اُس کے قریب آ پہنچا تو تارے پہ سوار شخص کی آوازیں ہواؤں کے دوش پر قصّہ گو کے کانوں میں گونج رہی تھیں ۔وہ شخص پکار رہا تھا ….’’ انا ربکم الاعلیٰ‘‘….مگرتارا جتنا قریب آرہاتھا اتنا ہی اپنا وجود کھو دیتا تھا …. اور اس شخص کے پیچھے رتھوں میں سوار ایک بڑی فوج غروب کی اور دوڑ رہی تھیں ، جن کے چلنے میں بڑا ہی تکبّر محسوس ہو رہا تھا ۔تارے پہ سوار شخص کے سر پر ایک شکستہ تاج بھی چمک رہا تھا۔قصّہ گو کی نگاہیں اس تارے کا تعاقب ہی کر رہی تھیں کہ تارا سمندر میں گر کر معدوم ہو گیا ۔قصّہ گو یہ منظر دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا ..اور سرد آہیں بھرنے لگا….!
قصّہ گو متزلزل ہونے کے بعد پھر سے آسمان کی چترنگی دیکھ کر متفکر ہونے لگا اور طرح طرح کے تاروں کے جھرمٹ کو بڑے ہی متفکّرانہ انداز میں دیکھ رہا ہے۔
’’یہ تارے تاریخ کے کتنے ادوار سے آسماں میں پیر رہے ہوں گے؟آدم ،نوح ،موسیٰ اور بڑے بڑے بادشاہ بھی اس نظارے کو دیکھ چکے ہوں گے….!مریخ ،عطارد اور مشتری اپنے دائرے کی زد میں نہ جانے کیسی کیسی تہذیبوں کو لے چکے ہوں گے …؟وہ سلطنتیں جن کا سورج کبھی ڈوبتا ہی نہیں تھا، آج تارے ان کو زاد سفر بنائے ہوئے اس بے کراں تاریک آسماں میں منزل ِبے نشاں کی اور پیر رہے ہیں ۔‘‘
قصّہ گو کی نظریں بے کراں آسماں ہی کا سفر کر رہی تھیں کہ ایک سوال پردے کی طرح حائل ہو گیا ۔
بود کیسے نابود بن جاتا ہے؟ابھی یہ سوال ذہن سے نکلا ہی تھا کہ قصّہ گو نے ایک تارے پر بہت بڑی تہذیب سوار دیکھی ۔تارا جب پہلے آسمان پر پہنچا تو بادشاہوں کی لمبی قطاروں کے ساتھ گھوڑوں اور پیادوں کا ہجوم تھا۔اس تہذیب کا عالم یہ تھا کہ رقّاصائیں اور پیادے تک اونچی زبان کے بول لب پہ سجائے ہوئے ،تھے جس سے ان کی شان و شوکت اور بھی ظاہر ہوتی تھی۔مگر تارے کے تعاقب میں اور ایک تارا ایک اور تہذیب لئے ہوئے بڑی تیزی سے بھاگ رہا تھا ۔دونوں کا وجود دھیرے دھیرے اس تاریک اور بے کراں فضا میں تحلیل ہو رہا تھا اور اچانک دور افق کے نزدیک یہ تارے تہذیبوں کے ساتھ زمین بوس ہو کر کھنڈروں میں تبدیل ہو گئے ۔قصّہ گو یہ ڈراونا منظر دیکھ کر پیسنے میں شرابور ہو گیا۔
تاروں کا سماں تھا…. تاریکی تھی …..اور ..قصّہ گو..اور ان سب کے پہلو بہ پہلو وقت بھی تھا …ہوائیں تیز ہونے لگیں …قصّہ گو کے پریشان بال اُس کی آنکھوںمیں مخل ہو رہے تھے، مگر قصّہ گوخیالوں کے زینوں کو سرعت سے عبور کر رہا تھا… تاروں کی ایک ٹولی دیکھ کر قصّہ گو کی ملاقات اپنے وجود سے ہو گئی۔وجود نے قصّہ گو کی اور ہلکی سی مسکراہٹ بھری اور سر سے اشارہ کیا۔قصّہ گو سہما ہوااس کے بغل میں بیٹھ گیا اور اپنے وجود کی پیشانی کو تک رہا تھا۔قصّہ گو کا وجود تاروں کو زندگی کے رزمیہ اور بقا کی کہانیا ں سنا رہا تھا ۔قصّہ گو یہ کہانیاں سن کر حوصلہ بھرنے لگا ….قصّہ گو کے وجود نے جب اپنی آخری کہانی ختم کی تو آسماں کی تاریکی میں ہلکی سی پو پھٹنے لگی ….جتنی جتنی یہ پو تیز ہو رہی تھی قصّہ گو کا وجود تاروں کے ساتھ معدوم ہوتا چلا جا رہا تھا …..قصّہ گو جونہی خیالوں کے زینے سے اتر گیاتھا تو اس کی نظر تارے کی دُم پر پڑی جو نصف سے زیادہ کٹ چکی تھی ….تھوڑی ہی دیر میں صبح کے سورج نے آخری تارے کو بھی نابود کیا ….قصّہ گو اپنی آنکھوں کو ملتا ہوا سرد آہیں بھر نے لگا …اور چائے کی ایک لمبی چسکی لے لی…..ڈائری کا ورق پلٹا تو وہاں رنگین لفظوں میں یہ الفاظ نقش تھے …….
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات ،کار جہاں بے ثبات!
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا
ریسرچ اسکالر ،شعبۂ اردو ،سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر
[email protected]/9622704429