کم نصیب چھ سالہ زینب اللہ کا کلام یعنی قرآن مجید پڑھنے گھر سے نکلتی ہے۔ راستے میں ایک شیطان ملتا ہے اور اسے بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اس معصوم کے ساتھ اپنی ہوس کی آگ بجھاتا ہے۔ اسے قتل کر دیتا ہے اور اس کا مردہ جسم اس کے گھر سے ایک میل دور ایک کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتا ہے۔ زینب کے والدین اس سے دور ہیں۔ وہ عمرہ کرنے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔ وہ خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں اپنی لاڈلی بیٹی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی خیر و عافیت چاہتے ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ وہ جس کے لیے دعائیں کر رہے ہیں اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے شیطان صفت انسان کی ہوس کا شکار بن چکی ہے جسے انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔ انہیں یہ اندوہناک حرم میں ہی خبر دی جاتی ہے۔ وہ افتاد وخیزاں واپس آ جاتے ہیں۔ اب وہ اپنی پیاری بیٹی کے غم میں گھل رہے ہیں۔ وہ بیٹی جو ان کو بہت عزیز تھی، ان سے دور بہت دور جا چکی ہے۔ دنیا میں جو آیا ہے اسے یہاں سے جانا ہے لیکن اس طرح سے جب کوئی جاتا ہے تو صرف اس کے متعلقین ہی سراپا غم نہیں ہوتے بلکہ جو بھی اس نوع کی جدائی کی سنتا ہے وہ رنج و الم کی تصویر بن جاتا ہے۔ آج نہ صرف پورا پاکستان بلکہ پوری دنیا زینب کے غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کا ماتم کر رہی ہے۔
زینب کون تھی؟ وہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر قصور کی ننھی منی کلی تھی۔۴ ؍ جنوری کو اس کے ساتھ یہ خون کھول دینے والا حادثہ پیش آیا۔ ۹؍ جنوری کو اس کا لاش بازیاب ہوئی۔ اس کے بعد پورے پاکستان میں اُسی طرح غم انگیز احتجاج کی لہر چل پڑی ہے جیسی لہر ۲۱۰۲ء میں دہلی میں ایک ۲۲ ؍سالہ طالبہ دامنی کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے بعد چلی تھی۔ اس وقت ہندوستان بھر میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ حکومت بھی حرکت میں آگئی تھی۔ اس نے خواتین کے تحفظ دینے کے سلسلے میں پہلے سے موجود قوانین کو اور زیادہ سخت کر دیا تھا۔ اس معاملے میں مجرموں کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ آج پاکستان میں بھی ویسا ہی ہنگامہ ہے۔ ویسا ہی غم وغصہ اور احتجاج ہو رہا ہے۔ پورا معاشرہ زینب کے غم سے متاثر بلکہ نڈھال ہے۔ پاکستانی ٹی وی سماء کی نیوز ریڈر کرن ناز پر بھی اس حادثے کا زبردست اثر ہوا۔ وہ جب خبر پڑھنے ٹی وی پر آئیں تو اس نے اپنی شیر خوار بچی کو اپنی گود میں بٹھا رکھا تھا۔ اس نے خبر پڑھتے ہوئے کہا کہ آج میں ایک نیوز ریڈر نہیں ہوں، ایک ماں ہوں۔ اسی لیے آج میں یہاں اپنی بیٹی کے ساتھ آئی ہوں۔ آج مجھے زینب کی خبر کے سوا کوئی خبر نہیں پڑھنی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جنازہ جتنا چھوٹا ہوتا اتنا ہی بھاری ہوتا ہے۔ آج پورا پاکستان زینب کے جنازے اور سوگواری کے نیچے دب گیا ہے۔ دوسرے لوگوں نے بھی اپنے اپنے انداز میں احتجاج کیا اور کر رہے ہیں۔ نیوز چینلوں پر زینب کو بہلا پھسلا کر لے جانے والے درندے کی تصویر دکھائی جا رہی ہے جو سی سی ٹی وی کیمرے سے لی گئی ہے۔ پولیس دعویٰ کر رہی ہے کہ زینب کے ایک ۶۳؍ سالہ محلے دار کا ڈی این اے ٹیسٹ میچ کر رہاہے۔اس لئے امکانی طور وہی اس سنگین جرم کا مر تکب ہوا ہے ۔ معصوم بچی اس شیطان کی اُنگلی پکڑے اپنے حشر سے بے خبر خوشی خوشی جا رہی ہے۔ اُسے کیا پتا تھا کہ وہ خوشیوں کے حصول کے لیے نہیں بلکہ اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے جا رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ زینب کا واقعہ ایک سال کے اندر قصور کا ایسا بارہواں واقعہ ہے۔ اس سے پہلے گیارہ معصوم بچیوں کا اسی طرح اغواء کیا گیا۔ ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور آخر پر ان کا قتل کر دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ کوئی ایک ہی شخص ہے جس نے یہ وارداتیں انجام دی ہیں۔ معصوم بچیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ سے یہی ثابت ہوا ہے لیکن یہ درندہ اب غالباً پولیس کی گرفت میں آچکا ہے۔ سینکڑوں پولیس والے اس کی تلاش میں رہے۔ سینکڑوں لوگوں کو حراست میں لے کر ان سے پوچھ تاچھ کی گئی او ر ساڑھے چار سو افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا چکا ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کے واقعات میں بڑے لوگ بھی ملوث ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایسے بہت سے دل خراش واقعات پیش آئے ہیں اور بہت کم لوگوں کو سزائیں ہوئی ہیں۔ ۵ا۲۰ء میں بھی قصور شہر پوری دنیا کے میڈیا میں چھایا ہوا تھا۔ وجہ بھی اسی قسم کی تھی۔ بچیوں کے جنسی استحصال کے ویڈیوز بنائے گئے تھے اور والدین سے ہزاروں روپے بطور تاوان مانگے جا رہے تھے۔ ان کو یہ کہہ کر بلیک میل کیا جا رہا تھا کہ اگر تاوان کی ادائیگی نہیں کی تو ہم یہ ویڈیوز عام کر دیں گے اور پھر تمہاری اور تمہارے بچوں کی جو بدنامی ہوگی اس کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔ پاکستان کے روزنامہ ’’ڈیلی ٹائمس‘‘ کے مطابق اس وقت جانچ سے پتہ چلا تھا کہ ۵۲ مجرموں کے ایک گروہ نے ۲۸۰؍ کم عمر بچوں کے ۴۰۰ ؍ویڈیوز بنائے تھے۔ جانچ میں صوبائی وزیر قانون، صوبائی اسمبلیوں کے کئی ممبران اور ایسے کئی لوگوں کے نام سامنے آئے تھے جن کے انڈرورلڈ سے روابط تھے اور جو بڑے طاقتور مانے جاتے تھے۔ اس وقت صوبائی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ مجرموں کو انتہائی سخت سزائیں دی جائیں گی لیکن رفتہ رفتہ معاملے کو دبا دیا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں چار برسوں کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بارہ ہزار واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور صرف ۱۰۰؍ مجرموں کو سزا ہوئیں۔ پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں دو سو فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ پاکستان میں ساڑھے سات برسوں میںہزاروں بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا لیکن سزائیں بہت کم لوگوں کو ہوئیں۔ اگر ان وارداتوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں ہوئی ہوتیں تو زینب کو اپنی جان سے ہاتھ نہیں دھونا پڑتا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں فیصل آباد اور لاہور میں ایسے دو واقعات ہوئے تھے۔ کم عمر بچوں کے اغواء اورجنسی زیادتی کے بعد ان کا قتل کر دیا گیا تھا۔ ان دونوں واقعات میں علی الترتیب فیصل آباد اور لاہور میں دونوں مجرموں کو کھلے میدانوں میں پھانسی دی گئی تھی۔ مجرموں کی لاشیں گھنٹوں تختہ ٔدار پر لٹکی رہیں۔ پھر کافی دنوں تک ایسی وارداتیں نہیں ہوئی تھیں۔
اسلام نے جرائم کے خلاف سزاؤں کا جو نظام مرتب کیا ہے ،اُسے آج کا نام نہاد مہذب معاشرہ اگر چہ بہت سخت کہہ کر مسترد کرتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جب تک مجرموں کو سخت ترین سزائیں نہیں دی جائیں گی اُن کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ جو لوگ اسلامی سزاؤں کی یہ کہہ کر مخالفت کرتے ہیں کہ وہ وحشی سزائیں ہیں وہی لوگ مجرموں کے خلاف انتہائی سخت سزاؤں کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ اسلام نے زنا کی دو سزائیں مقرر کی ہیں۔ اگر زانی کنوارہ ہے تو اسے۱۰۰؍ دُرے مارے جائیں اور اگر شادی شدہ ہے تو اسے رجم یا سنگسار کر دیا جائے۔ ہندوستان میں جب عورتوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بہت زیادہ بڑھ گئے تو لوگوں کی جانب سے ایسے مجرموں کے لیے پھانسی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ مطالبہ کرنے والوں میں ایل کے آڈوانی بھی شامل تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مجرموں کو سبق آموز سزائیں دی جائیں اور ایسی دی جائیں کہ دیکھنے والوں کی روح کانپ جائے تو پھر نہ کوئی نربھیا کسی درندے کی شکار بنے گی نہ ہی کوئی زینب۔