رئیس صِدّیقی
وہ پیدائشی بہر ا نہیں تھا ۔ وہ ایک دم سے بھی اچانک بہرا نہیں ہوا تھا ۔در حقیقت ، وہ اونچی آواز میں ریڈیو سنتا تھا۔ وہ تیز ا ٓواز میں
ٹی وی کے پروگرام بھی دیکھتا تھا۔ پھر وہ موبائل میں ائر فون لگا کر بہت تیز اور اونچی ٓاواز میں گانے اور دیگر پروگرام سننے لگا۔
دھیرے دھیرے اسکی قوت سماعت کمزور ہونے لگی ۔اسے چکر بھی آنے لگے ۔جب اُس نے سرکاری ہسپتال میں ای این ٹی اسپیشلسٹ اور ماہر سماعت کو دکھایا تو اسے پتہ چلا کہ اسکی قوت سماعت ستر فی صد کم ہو چکی ہے ۔ڈاکٹر نے اسے سننے والی کان کی مشین ، ہیئر ایڈ لگانے کا مشورہ دیا لیکن اسکی مالی حیثیت ایسی نہ تھی کہ وہ ہیئر ایڈ خرید سکے۔
بہر حال، اب وہ ٹھیک سے سن نہیں سکتا تھا۔ اسکو دھیمی آواز میں بولے جانے والے الفاظ سمجھ میں نہیں آتے تھے لیکن وہ دل کا بہت اچھا تھا۔ وہ اپنے پڑوسیوں کا بھی بہت خیال رکھتا تھا۔ اس کو سب کی فکر رہتی۔ وہ سب کی خبرگیری کرتا اور سب کی مدد بھی کرتا۔ وہ بیماروں کی عیادت بھی کرتا۔
ایک بار کا ذکر ہے کہ اس نیک دل بہرے کا پڑوسی بیمار پڑ گیا۔ بہرے نے سوچا کہ یہ میرا اخلاقی، سماجی اور مذہبی فرض ہے کہ میں اس کی خیریت معلوم کرنے اس کے گھر جائوں۔ پھر اسے خیال آیا کہ میں تو کسی حد تک بہرا ہوں اور وہ پڑوسی بیمار پہلے ہی بہت دھیمے بولتا ہے ۔یا یوں کہیں کہ وہ منھ ہی منہ میں بولتا ہے ۔ بیماری میں اس کی آواز تو اوربھی کمزور ہو گئی ہوگی، جسکی وجہ سے مجھے بالکل نہیں سنائی دے گا۔
پھر اس نے قیاس لگایا کہ جب میں کہوں گا کہ
تم کیسے ہو؟
تو وہ کہے گا کہ
میں اچھا ہوں۔
اِس پر میں کہوں گا کہ
اللہ تیرا کا شکر ہے۔
پھر میں پوچھوں گا کہ
تم نے کھانا کھایا؟
تو وہ کہے گا کہ
ہاں ، میں نے سوپ پیا۔
اس پر میں کہوں گا کہ
یہ مناسب اور بہتر ہے۔
پھر میں پوچھوں گا کہ
کون سا ڈاکٹر تمہارا علاج کر رہا ہے؟
اس پر وہ کہے گا کہ
فلاں ڈاکٹر
تو اس پر میں کہوں گا کہ
مبارک ہو۔ وہ اچھا ڈاکٹرہے۔ اسکے ہاتھ میں شفا ہے۔ اس کے قدم مبارک ہیں۔
قیاسی اندازے کے مطابق سوال و جواب تیار کرکے معصوم بہرا اپنے پڑوسی کے گھر عیادت کے لئے پہنچا۔ اس کے پاس بیٹھا اور اس کے سر پر بہت شفقت سے ہاتھ پھیرا اور پھر بہت محبت سے پوچھا کہ وہ کیسا ہے؟
بیمار نے کہا کہ میں تو اس بیماری میں بے جان سا ہو گیا ہوں۔ میں تو لگ بھک مر سا ہی گیا ہوں۔
اس پر معصوم بہرے نے یہ سوچ کر ،کہ وہ کہہ رہا ہے کہ میں اچھا ہوں، وہ بولا :
اے اللہ تیرا شکر ہے!
خدا کا شکر ادا کرنے کے بعد، نیک دل بہرے نے دوسرا سوال کیا کہ۔۔۔۔
تم نے آج کیا کھایا؟
بیمار نے جل کر جواب دیا کہ
زہر کھایا!
بہرے نے یہ سوچ کر کہ وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے سوپ پیا ، اِس پر اِس نے کہا :
یہ مناسب اور بہترہے!
اس محبتی بہرے نے پھر پہلے سے تیار کیا ہوا سوال کیا کہ کون سا ڈاکٹر تمہارے علاج کے لیے آتا ہے؟
اب تک بیمار پڑوسی غصے سے لال پیلا ہو چکا تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ نیک دل بہرا بیمار پڑوسی کی کوئی بھی بات ٹھیک سے سن نہیں پا رہا ہے اور وہ اندازے سے ساری باتیں کر رہا ہے ۔ بیمار پڑوسی غصہ سے تلملاتے ہوئے بولا:
موت کا فرشتہ!
بہرے نے بڑی معصومیت سے، یہ سوچ کر کہ وہ کہہ رہا ہے کہ فلاں ڈاکٹر صاحب آتے ہیں، کہا:
اس کے قدم مبارک ہوں!
بس پھر کیا تھا ، اس بیمارنے برابھلا کہتے ہوئے عیادت کے لئے آئے اپنے ہمدرد مہمان کو اپنے گھر سے باہر جاے کا راستہ دکھایا اور وہ
بے قصور ا و رکم سنائی دینے والا بہرا یہ نہ سمجھ سکا کہ آخر ہوا کیا؟ آخرکار اسکی غلطی کیا تھی ؟؟ اسکا کیا قصور تھا؟؟؟
اس الجھن کو سلجھانے کے لئے وہ اپنے ایک قریبی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا قصہ سنایا۔اس پر بزرگ نے قدرے سوچتے ہوئے فرمایا:
تمہارا قصور یہ ہے کہ تم نے اپنی لاپرواہی سے قدرت کی انمول نعمت، قوتِ سماعت ضائع کردی اور اس بیمار کا قصور یہ ہے کہ خدا نے اسے قوتِ گویائی دے رکھی ہے لہکن وہ اسکا صحیح طریقہ سے استعمال نہیں کر رہا ہے ۔
دراصل ،بہت سے لوگ اپنے منھ ہی منھ میں بولتے ہیں یا وہ بات کرتے وقت ضرورت بھر اپنا منھ نہیں کھولتے ہیں یا ضرورت سے زیادہ دھیمے بولتے ہیں ، یا ضرورت سے زیادہ بڑی تیزی سے بولتے ہیں یا اتنی جلدی جلدی بولتے ہیں کہ انکا ایک لفظ انکے منھ سے باہر نکلتاہے جبکہ دوسرا لفط انکے منھ کے اندر ہی رہ جاتا ہے۔
بہر حال، ایسے سب ہی لوگوں کو اللہ توفیق دے کہ وہ خود ہی اپنی اصلاح کر لیں!
���
گرین ویلی انکلیو، ائرپورٹ روڑ بھوپال
موبائل نمبر؛9811426415