پروفیسر محمد اسد اللہ وانی
جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ سیکریٹری کلچرل اکیڈیمی کے حکم کی تعمیل میں ،میں نے خبر نامہ ’اکادمی ‘ کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی اور ڈکشنری پروجیکٹ میں بیٹھ کرکام کرنے لگا۔ جوں ہی میں نے ساقی سے خبر بنانا اور سرخی لگانا وغیرہ سیکھنا شروع کیا تو اکیڈیمی کے کچھ اور لوگوںکے ساتھ ساقی کو بھی خبر نامہ کے ادارتی عملہ میں شامل کیا گیا۔ جس کی وجہ سے جہاں میرے اس کام میں آسانی پیدا ہوئی وہاںمجھے ماہنامہ شیرازہ اردو،سالنامہ ہمارا ادب ، اقبال صدی تقریبات،لل دیداور شیخ العالم شش صد سالہ تقریبات اور دوسری کئی روز مرہ کی سرگرمیوںمیں شامل کرکے بہ یک وقت کئی آزمائشوں میں ڈال دیا مگر موتی لال ساقی،رشید نازکی اور محمد احمد اندرابی کی سرپرستی اور رہنمائی کی بدولت میں ان آزمائشوں میں پورا اُترا اورکامیابی اورکامرانی سے ہم کنار ہوا ۔
شیخ العالم شش صد سالہ تقریبات کے دوران شیخ العالم کی زندگی فن اور فکر جیسے مختلف موضوعات پر سیمینار وں کے انعقاد کے لیے مضامین لکھنے لکھوانے کاجب سلسلہ شروع ہواتو ایک دن میں نے ذرا جھینپتے ہوئے موتی لال ساقی سے کہا کہ میں بھی شیخ العالم کے بارے میںکسی موضوع پرلکھنا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا۔ ہاں لکھو، شیخ العالم اور کشتواڑ پر لکھو۔یہ سن کر مجھے لگا کہ انہوں نے مجھ سے مذاق کیا ہے۔بھلا شیخ العالم کاکشتواڑ سے کیا تعلق؟ شیخ العالم تو لل دید کے ہم عصراور اُن کے بعدکشمیری زبان کے سب سے بڑے ریشی شاعر ہوئے ہیں ۔اُن کی زیارت تو چرار شریف میںہے ۔کشتواڑ کے ساتھ اُن کے تعلق کی کیا تُک ہے ؟ دو تین دن تک میں نے اس بات ذکر کسی کے ساتھ نہیں کیا۔آخر کارکافی غوروخوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ساقی صاحب تو مجھ سے مذاق نہیں کر سکتا ،کیونکہ آج تک انہوں نے کبھی مجھ سے مذاق کیا ہی نہیں ہے۔اس لیے شیخ العالم کاکشتواڑ سے کوئی نہ کوئی تعلق تو ضرور ہوگا ۔چنانچہ میں اپنے دفتری کام کاج سے فرصت نکال کر لائبریری سے انگریزی ،اردو اور کشمیری میں شیخ العالم کے بارے میں کتابیں لا تا رہا اورمطالعہ کرتا رہا ۔چند دن کے بعدیہ نتیجہ نکلا کہ حضرت شیخ العالم کا کشتواڑ کے ساتھ ایک نہیں تین طرح کا تعلق ہے۔(۱)شیخ العالم کے آباو اجداد سرتھل کشتواڑ کے رہنے وا لے تھے۔(۲)اُن کے چار مقتدر خلفا میں سے دو خلیفے (زین الدّین اورلطیف الدّین) کشتواڑ کے رہنے والے تھے۔(۳ )شیخ العالم کے شاعری میں وادیِ چناب کی زبانوں کاذخیرۂ الفاظ موجود ہے ۔ گویاشیخ العالم کا کشتواڑکے ساتھ آبائی،روحانی اورلسانی تعلق رہاہے۔ ’ شیخ العالم اور کشتواڑ‘ کے عنوان سے جب میرا یہ مقالہ شائع ہوا تو ادبی حلقوں میں اس کی اس قدر پذیرائی ہوئی کہ میں نے اس سے حوصلہ پاکرلگ بھگ دو سو صفحات پر مشتمل ’ شیخ العالم۔ایک مطالعہ‘ کے عنوان سے کتاب لکھ کر شائع کی جس پر ۱۹۹۴ء میں مجھے ریاستی کلچرل اکیڈیمی کی جانب سے کتابوں کے مقابلے میںBest Book Award ملا۔یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا اس کتاب کے سبھی ابواب نہ صرف ساقی مرحوم کی نظروں سے گزرے ہیںبلکہ انہوں نے انہیں نوک پلک سے درست بھی پایا ہے۔اس کتاب کا ایک باب ’بدھ مت اور ریشیت‘تحریر کرتے وقت انہوں نے مجھے دھرمانند کوسمبی کی کتاب ’بھگوان بدھ‘ کا خصوصی طور پر مطالعہ کرنے پر زور دیا تھا۔چنانچہ یہ کتاب میرے لیے بدھ مت کی تفہیم کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی۔ ۱۹۹۲ء میںجب میں نے’ شیخ العالم۔ایک مطالعہ‘ کو حتمی صورت عطا کی اور میں اسے موتی لال ساقی کو دکھانے کے لیے گڑھی ادہم پور گیا جہاںمیں پورا دن اُن کے ساتھ رہا ۔انہوں نے اس کتاب کامکمل مسودہ دیکھنے کے بعداسے کتابت کے لیے کاتب کے حوالے کرنے کو کہا ۔ میںساقی کابے حد احسان مند ہوںکہ اُن کی رہنمائی میں تحریر کی گئی میری یہ کتاب مطالعۂ شیخ العالم کے سلسلے میں کافی اہمیت کی حامل ہے ۔میں اس ضمن میں ساقی کے بارے میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں ؎
اتنا ہوں تری تیغ کا شرمندۂ احساں سر میر ا ترے سر کی قسم اُٹھ نہیں سکتا
موتی لال ساقی مجھے ہمیشہ شیرازہ اورہمارا ادب کے مختلف خصوصی شماروں کے لیے مضامین تحریر کرنے کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔چنانچہ راجا اونتی ورمن،بابا دائود خاکی،تاریخِ اقوامِ کشمیر ۔ ایک جائزہ،رسا جاودانی کی اردو شاعری ،ضلع ڈوڈہ کے لوک عقائدوغیرہ کئی مضامین میںنے اُن ہی کی تحریک پر تحریر کیے ہیں ۔
کشمیر سے ہجرت کے بعد موتی لا ل ساقی کے لہجے میں کافی تلخی پیدا ہوگئی تھی جو وطن سے مہجوری کا لازمی نتیجہ تھی ۔کہتے ہیں ایک روزاُنہیں غالباً ادہم پور کے اطراف میں ایک ایسی چڑیانظر آئی جو عام طور پر گرم علاقوں میں نہیں ہوتی بلکہ کشمیر میں ہوتی ہے ۔ ساقی مرحوم اُسے دیکھتے ہی مہجوری کے جذبات سے اس قدر مغلوب ہوگئے کہ انہوں ایک نظم کہی جس میںوہ اس چڑیاسے مخاطب ہوکر پوچھتے ہیں کہ کیا تم بھی میری طرح ہجر کی ماری ہو ؟ جو اس اجنبی ماحول اور ناموافق موسم سے نبردآزماہورہی ہو۔
موتی لال ساقی کشمیرکی ہزاروں سال پرانی مذہبی، تہذیبی اورتمدنی روایات کے پروردہ تھے ۔وہ اُن ا قدار کی علامت اور پاسدار تھے جنہیں ریشیوں، منیوں اوروَلیوں نے پروان چڑھایا تھا اورجن کی وجہ سے اس دھرتی کو پیر وار یاریشی وار(پیروں اوررشیوں کی دھرتی) کہا جاتا رہا ہے ۔یہ سرزمین عہدِقدیم سے ہی گہوارۂ علم وعرفان رہی ہے جس نے بلا امتیازمذہب وملت،رنگ ونسل اورقوم ووطن ہرایک کواپنی آغوش میں ہمیشہ پناہ دی ہے ۔سرزمینِ کشمیر خوب صورت تو ہے ہی، شایدمحولہ بالا اوصاف کی بناپراسے’فردوس برروئے زمیں‘ کہتے رہے ہیں ۔عام طور پر کوئی بھی آدمی اپنے گھر سے نکلنا نہیں چاہتا ،لیکن جب اُسے جنت ِکشمیر سے نکلنے پرمجبورکیاگیا ہوگا تواُس وقت اُس کا کیا عالم رہاہوگا ۔ موتی لال ساقی کو جب جنت ِکشمیرسے نکلنا پڑا تو وہ صدمۂ جانکاہ سے دوچار ہوئے۔انہوں نے اپنی ساری عمرجس کشمیر کی تاریخ، ثقافت ، تمدن،مذہبی رواداری، آپسی بھائی چارے اورتہذیبی قدروں کی آب یاری کرتے ہوئے گزاری تھی،اُس سے مہجوری نے انہیں عارضۂ قلب میںمبتلا کردیا جو آخر کار جان لیوا ثابت ہوا۔
موتی لال ساقی ایک مقبول اورمعروف شخص تھے ۔اُن کے روابط ریاست اورریاست سے باہر اکثر پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ تھے ۔اُن کی زبان وادب کی باریکیو ں پر ہمیشہ نگاہ رہتی تھی اور اپنے جانکاروںکو اُن سے آگاہ بھی کرتے تھے ۔کشمیر میں اُن کے دوستوں میں پروفیسر برج پریمی اُن کے ہم پیالہ وہم نوالہ تھے۔ساقی کی طرح انہوں نے بھی ہجرت کی اوراپنے اہل وعیال کے ساتھ جموں پہنچے جہاں کچھ دنوں کے بعدکشمیر سے مہجوری کے درد وکرب کی تاب نہ لا کروہ اپنی جنت ِ ارضی سے دورجموں میں چل بسے۔اُن کے انتقال کے چند برس بعد جموں یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں برج پریمی میموریل سوسائٹی کی
طرف سے ڈاکٹر برج پریمی کی یاد میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس کے ایوانِ صدارت میں موتی لال ساقی بھی تھے ۔ ساقی نے اپنے خطبہ میںڈاکٹربرج پریمی اور اپنے تعلق سے ایک اہم بات کہی جس کا میںقارئین کی دلچسپی کے لیے یہاںپر اعادہ میں کرنا چاہتا ہوں :
’برج پریمی میرے بچپن کے دوست تھے ۔ہم دونوں ہم پیالہ وہم نوالہ تھے ۔ہم دونوں نے ایک ہی طرح کی زندگی جی ہے اور دونوںکے درمیان بچپن سے بڑھاپے تک جو بات مشترک رہی ہے ،وہ یہ کہ جب ہم کچھ بھی کھا کر ہضم کرسکتے تھے تب وہ سب کچھ کھانے کومیسّرنہیں تھا اور اب جب کہ ہر شے وافر مقدارمیں میسّرہوئی مگر تب کھا نہ سکے‘ ۔
موتی لال ساقی کشمیری کے ایک اچھے رباعی گو شاعر بھی تھے ۔ایک باردفتر میں بیٹھے بیٹھے باتوں باتوں میں انہوں نے اپنی کچھ رباعیاں سنائیں ۔جب انہوں نے یہ رباعی سنائی ؎
بہارُک وَق تہ بیہ گوژھ جام آسُن ژوداہمہ زونِ ہُند گوس شام آسُن
شبابِک نغمہ گوژھ آسِن نیٹین کیتھ میہ گوژھ بیہ برونہہ کنہ گُلفام آسُن
تویکا یک میری نگاہوں کے سامنے رباعی میں بیان کیا گیایہ منظرایسا پھرگیا کہ میں نے اُسی وقت فی البدیہ اِسے اُردو کا جامہ پہنا دیا۔چنانچہ میں کشمیری زبان کے اس عالی قدر شاعراور ادیب کے بارے میںاپنے اِن برجستہ اور بے ربط خیالات کواُن کی کشمیری رباعی کے اس اردو ترجمہ پر ختم کرتا ہوں۔
فصل ِ گُل ہو اور دورِ جام ہو چودہویں کا چاند رنگیں شام ہو
نغمۂ شیریں لبا لب جام ہو اور میرے رو برو گُل فام ہو
علامہ اقبال لین نوآباد سنجوا روڑ جموں
رابطہ۔9419194261