طلوعِ اسلام سے اب تک چودہ صدیوں کے مختلف ادوار میں مسلم خواتین نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی عظمتوں کی تاریخ مرتب کی ہے۔ برصغیر ہندوستان کی گزشتہ آٹھ سو سالہ مشترکہ ہند آریائی تہذیب کی تاریخ بھی مسلم خواتین کے دورساز کارناموں سے مزین ہے جنھوں نے جہانبانی، ملک گیری، سیاست، علوم و فنون، صنعت و حرفت اور انسانی معاشرہ کی اصلاح و تعمیر میں اپنی بصیرتوں اور لیاقتوں کے دائمی نقوش لوحِ زمانہ پر مرتسم کیے۔ یہ شرف بھی اس عظیم خطہ ارض کی مشترکہ تہذیب کی زندہ علامت اردو زبان کو حاصل ہوا کہ یہاں ایک نابغۂ روزگار مسلم خاتون نے جنم لیا جس نے اپنی غیرمعمولی ذہانت، علمیت، تخلیقیت اور وسیع تاریخی، سماجی، سیاسی اور انسانی شعور و بصیرت کو فن افسانہ نویسی اور ناول نگاری کے وسیلے سے اس طرح ظاہر کیا کہ بیسویں صدی میں برصغیر کی کوئی اور قوم یا زبان اس کا ثانی پیدا نہیں کرسکی۔ نہ صرف برصغیر بلکہ تمام بلادِ مشرق میں اُردو زبان کی اس عالی مرتبت دانشور ادیبہ کی ہمسری کرنے والی کوئی خاتون بیسویں صدی میں دنیا کے سامنے نہیں آئی جس کا نام نامی ہے قرۃ العین حیدر۔
قرۃ العین حیدر کے ہم عصر نہ صرف اُردو زبان میں متعدد مرد اور خواتین قلمکار اُردو اور ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بیحد نمایاں ہوئے لیکن جو منفرد مقام قرۃ العین حیدر نے اپنے تخلیق کردہ ناولوں اور افسانوں کے ذریعہ حاصل کیا وہاں تک کسی اور کی رسائی ان کے دور میں کیا آنے والے زمانوں تک ممکن نہیں، بالکل اسی طرح جیسے شاعری میں غالبؔ کے بعد دو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی کوئی اُن جیسا پیدا نہیں ہوا۔ معروف نقاد پروفیسر قمر رئیس مرحوم کے الفاظ میں کہا جائے تو قرۃ العین حیدر کی یکتائے روزگار شخصیت اور ان کے بے مثل ادبی شاہکار صرف عطیۂ فطرت یا الہام نہیں ہیں، اس کے پیچھے ان کی برسوں کی ریاضت، محنت، تلاش و تحقیق اور تفکر ہے۔ انھوں نے مہینوں بلکہ برسوں کتب خانوں، پرانی حویلیوں اور قدیم دستاویزوں کی خاک چھانی، انہوں نے دنیا کے بڑے ادیبوں ٹالسٹائی اور فلابیر کی طرح ایک ایک ناول کی تسوید میں کئی کئی سال کام کیا ہے۔ اپنے شاہکار ناول ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں قرۃ العین حیدر نے ان گمشدہ زمانوں اور کہنہ آبادیوں کو دریافت کیا ہے جن کا تعلق ان کے آباواجداد سے رہا ہے اور جن کو وقت نے روند کر خرابہ بنادیا۔ اپنے دوسرے ناولوں ’آگ کا دریا‘ اور ’گردشِ رنگ چمن‘ میں انھوں نے سماجی اور تہذیبی تاریخ کے خزانوں سے بیش از بیش فائدہ اُٹھایا ہے اور اپنے زرخیز تخیل اور بے بہا تخلیقی ذکاوت سے تاریخی حقائق کو زندہ اور متحرک پیکروں میں ڈھال دیا ہے قرۃ العین حیدر نے ایک ایسی مشترکہ تہذیب کے گن گائے اور اپنے تہہ دار کرداروں میں ایسی ہندوستانی شخصیت کو اُجاگر کیا جس کا خمیر کئی قوموں اور نسلوں کے تہذیبی اختلاط کا رہینِ منّت ہے، انھوں نے ہندوستانی تہذیب اور اس کے افکار و اقدار کو ایک نامیاتی وحدت کے روپ میں دیکھا اور اپنے ناولوں اور کہانیوں کے تاروپود میں ہنرمندی کے ساتھ سمودیا۔ بلاشبہ ایسے عہدساز اور باکمال تخلیق کار کہیں صدیوں میں جنم لیتے ہیں۔‘‘
اُردو زبان کی عظیم ناول نگار اور آفاقی شہرت کی مالک قرۃ العین حیدر کی پیدائش 20جنوری 1927ء کو علی گڑھ میں ۔ انھیں ادبی ذوق اور افسانہ نگاری کا شوق ایک طرح سے وراثت میں ملا تھا، کیونکہ ان کے والد سیّد سجاد حیدر یلدرم اور ان کی والدہ نذرسجاد دونوں ہی ممتاز افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ قرۃ العین حیدر مغربی یوپی کے ایک تعلیم یافتہ اور معزز زمیندار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ 1957ء کی پہلی جنگ آزادی میں ان کے جداعلیٰ امیراحمد علی نے انگریزوں کے خلاف تلوار اُٹھائی تھی۔ ملک پر برطانوی تسلط قائم ہونے کے بعد ان کی موروثی جاگیر انگریزوں نے چھین لی، بعد میں ان کے فرزندوں میں سیّد جلیل الدین حیدر اور سیّد جلال الدین نے انگریزی تعلیم حاصل کی اور بنارس کے حاکم مقرر ہوئے۔ ان کی بہترین خدمات کے صلے میں ’خان بہادر‘ کا خطاب ملا۔ سیّد کرار حسین ایک بڑے سرجن بنے۔ ایک وقت میں وہ یوپی (ممالک متحدہ آگرہ و اودھ) کے سب سے بڑے ڈاکٹر کے طور پر مشہور ہوئے۔ قرۃ العین حیدر کے والد سیّد سجاد حیدر یلدرم سیّد کرار حسین کے صاحبزادے تھے جن کی ولادت 1880ء میں ہوئی۔ انھوں نے علی گڑھ کے ایم اے او کالج سے گریجویشن کیا۔ اس وقت یہ کالج الٰہ آباد یونیورسٹی سے ملحق تھا۔ بی اے کے امتحان میں سجاد حیدر نے یونیورسٹی میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی تھی۔ انھوں نے راجہ صاحب محمودآباد اور میرٹھ کے نواب اسماعیل کے معتمد کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ وہ کئی زبانوں کے عالم تھے خاص طور پر ترکی زبان پر وہ گہری دسترس رکھتے تھے۔ اپنی اسی لیاقت کی بنا پر وہ بغداد میں برٹش حکومت کے قونصل خانے میں ترکی زبان کے مترجم مقرر ہوئے۔
1914ء کی پہلی جنگ عظیم سے کچھ عرصہ قبل سجاد حیدر امیر کابل یعقوب خاں کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ بن کر ہندوستان آگئے۔ 1912ء میں ان کی شادی نذر زہرا بیگم سے ہوئی جن کا تعلق بھی ایک نہایت محترم و معزز سادات خاندان سے تھا۔ سیّدہ نذر زہرا بیگم کے والد میر نذر الباقر اودھ کے باشندے تھے لیکن اس وقت وہ برطانوی فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز اور صوبہ سرحد میں تعینات تھے۔ میر نذر الباقر کے جداعلیٰ سیّد معصوم علی اپنے وقت کے نامور ادیب و انشاپرداز تھے۔ ان کی تصنیف ’انشائے معصوم‘ مشہور ہے۔ سیّد معصوم علی سلطنت اودھ کے ناظم اور چکلہ دار تھے، ان کے دادا خان بہادر میرقائم علی حکومت برطانیہ میں بڑے منصب پر فائز تھے۔
سیّدہ نذر زہرا بیگم کی ولادت 1894ء میں صوبہ سرحد میں ہوئی۔ انھوں نے اس زمانہ کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور شروع سے ہی ان میں تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ سجاد حیدر صاحب کے ساتھ شادی ہونے سے پہلے ہی وہ خاصی مشہور ادیبہ بن چکی تھیں، ان کی تحریریں اس دور کے مقبول جرائد ’تہذیب نسواں‘، ’پھول‘ وغیرہ میں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ سیّدہ نذر سجاد نے صرف 14 برس کی عمر میں اپنا پہلا ناول ’اخترالنساء بیگم‘ لکھا تھا جو لاہور سے شائع ہوا۔ 1912ء میں سیّد سجاد حیدر سے شادی کے بعد وہ نذرسجاد کے نام سے لکھنے لگیں۔ انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ متعدد اسلامی ممالک کی سیاحت کی، وہ ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی تھیں۔ سیّد سجاد حیدر ترکی زبان و ادب میں مہارت اور دلچسپی کے سبب سجاد حیدر یلدرم کے نام سے مشہور زمانہ ہوئے۔ سجاد حیدر یلدرم سنہ 1920ء تک امیرکابل کے پولیٹکل ایجنٹ کی خدمات انجام دیتے رہے، جب علی گڑھ کالج نے یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا تو اس کے پہلے رجسٹرار مقرر ہوئے، وہ شعبۂ اُردو کے اعزازی صدر بھی رہے، وہ انجمن اُردوئے معلی کے بانیوں میں شامل تھے۔ 1928ء میں حکومت ہند نے انھیں یونیورسٹی سے واپس بلاکر انڈمان نکوبار کا ریونیوکمشنر بناکر پورٹ بلیئر بھیج دیا۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ غازی پور اور اٹاوہ وغیرہ اضلاع میں تعینات رہے۔ 1935ء میں یلدرم صاحب نے خرابیِ صحت کی بنا پر سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور باقی ماندہ زندگی انھوں نے تصنیف و تالیف اور علمی مشاغل میں گزاری۔ 1943ء میں ان کا انتقال ہوا۔
قرۃ العین حیدر کے بچپن کا زمانہ پورٹ بلیئر میں گزرا، ابتدائی تعلیم دہرہ دون میں حاصل کی اور بعد میں لکھنؤ کے ازابیلا تھوبرن کالج سے بی اے کی سند حاصل کی اور اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے 1947ء میں ایم اے کیا۔ انھوں لکھنؤ کے اسکول آف آرٹس کے علاوہ لندن کے ہیڈلیزآرٹس اسکول سے مصوری کی تربیت حاصل کی۔ تخلیق و تصنیف کے ساتھ ساتھ مصوری کا بیحد شوق تھا، مشہور مصور ایل ایم سین سے انھوں نے جاپانی واش تکنیک بھی سیکھی۔ لندن میں پنچ تنتر پر بنائی ہوئی ان کی الیسٹریشن کی نمائش بھی ہوئی۔ انھوں نے اپنی کتابوں کے سرورق خود تیار کیے اور بہت سی پینٹنگز بھی بنائیں، لیکن یہ ان کا صرف شوق تھا جبکہ تصنیف ان کا جذبہ و جنون تھا۔ اپنے عہد کی اس سب سے بڑی قلمکار کا تخلیقی سفر صرف چھ سال کی عمر میں شروع ہوا تھا 13 سال کی عمر میں ان کی کہانی پہلی بار بچوں کے رسالے ’پھول‘ لاہور میں شائع ہوئی۔ پہلا افسانہ 1942ء میں اس وقت رسالہ ’ہمایوں‘ لاہور میں چھپا جب وہ اٹھارہ سال کی تھیں۔
1947ء میں ملک کی تقسیم کے المیے نے ان کے حساس ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے اودھ کی تہذیب اور خوشحال ترقی یافتہ ماحول میں پرورش پائی تھی۔ مطالعہ اور اونچے طبقوں کے تعلیم یافتہ خواتین کے پسندیدہ مشاغل و سرگرمیاں ان کی زندگی کا محور بنی ہوئی تھیں، لیکن 1947ء میں ملک کی المناک تقسیم کا سانحہ برپا ہوا۔ حالات انھیں پاکستان لے گئے۔ سرحد کے دونوں جانب خوفناک فرقہ وارانہ فسادات میں انسانی خون کا دریا اور وطن سے بے وطن ہوتے لاکھوں خاندانوں کے دُکھ کو انھوں نے خود دیکھا اور برداشت کیا، ان کے ذہن میں اُردو کے متمول اشرافیہ کی خوبصورت زندگی کا جو تصور تھا، وہ پاش پاش ہوکر بکھر گیا، ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کا سارا حسن ان کی آنکھوں کے سامنے خاک میں مل گیا۔ اس المیے نے ان کے ذہن کو ایک حساس تخلیقی رویے سے ہمکنار کیا، اور پھر ان کے قلم سے عصری زندگی کی بے رحم حقیقتیں ان کی شاہکار تخلیقات میں ڈھلنے لگیں۔ انھوں نے مشرقی پاکستان (بنگال) کے امیر طبقے کے ہاتھوں غریب محنت کشوں کے استحصال کے خلاف ’چائے کا باغ‘ جیسی دردناک تحریر پیش کی۔ اسی دور میں انھوں نے ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘ جیسی عہدآفریں کہانی لکھ کر عورت ذات کی زبوںحالی اور معاشرے کے ایک المیے کو اس انداز میں بیان کیا کہ یہ بیان ادب عالیہ کا لافانی حصہ بن گیا۔
1950ء میں حکومت پاکستان کی وزارتِ اطلاعات و نشریات میں انفارمیشن آفیسر کے عہدے پر فائزہوئیں، اس کے بعد وہ پاکستان ہائی کمیشن لندن کی پریس اتاشی رہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ حکومت پاکستان کی ڈاکومینٹری فلموں کی پروڈیوسر اور حکومت کے اطلاعاتی انگریزی سہ ماہی رسالے کی ایڈیٹر بھی رہیں۔ کچھ عرصہ انھوں نے پاکستان ایئرلائنس میں بھی ذمہ دار عہدے پر خدمات انجام دیں۔ اس دوران ان کی بے پناہ مؤثر و دلپذیر اور اُردو افسانہ کی تاریخ میں ایک نئے انقلاب کا اعلان کرتی ہوئی ان کی کہانیاں شائع ہوکر ادبی دُنیا کو چونکاتی رہیں، اور جب پانچویں دہائی کے آخر میں ان کا عظیم ناول ’آگ کا دریا‘ شائع ہوا تو پاکستان کے اربابِ اقتدار اور تنگ ذہنوں کو یہ حقیقت پسندی برداشت نہ ہوئی، ایک بحث چھڑ گئی کہ کیا عالمی ادب میں ہمیشہ زندہ رہنے والا یہ ناول مملکتِ خداداد کے خلاف بغاوت کی ترغیب دیتا ہے؟
ایک قلمکار کی آزادیِ اظہار سلب ہونے لگے تو وہ ایسے ماحول میں جی نہیں سکتا، انھوں نے 1960-61ء میں پاکستان کو خیرباد کہاکہہ کر ہمیشہ کے لیے قرۃ العین حیدر اپنے وطن واپس آگئیں۔ ’آگ کا دریا‘ محض ایک ناول نہیں ہے۔ یہ چار ہزار سال کی ہندوستانی تاریخ کا منظرنامہ ہے جو آریہ تہذیب کے ادوار سے ہوتے ہوئے گوتم بدھ اور اشوک کے بھارت کے درشن کراتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد، عربوں، ترکوں، پٹھانوں اور مغلوں کے ساتھ اس دھرتی پر آنے والی اسلامی تہذیب اور ہندو سنسکرتی کے اتصال سے جنم لینے والے مشترکہ تمدنی ماحول اور اس کی بوالعجبیوں کی ایسی زندہ تصویر اس ناول کے مرکزی کردار گوتم نیلمبر کی صدیوں پر پھیلی ہوئی داستان کے آئینے میں اس طرح دِکھائی دیتی ہے کہ مصنفہ کی تحریر کسی جادوگر کا کرشمہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ ’آگ کے دریا‘ کا ہیرو گوتم نیلمبر ایک انسانی علامت ہے جو ہمیشہ زندہ ہے۔ وہی کمال الدین ابوالمنصور بن کر مغلوں اور پٹھانوں کی جنگ کا زخم خوردہ ہے، اپنے وقتوں کے حالات کا مقابلہ کرنے والا، ملک کی آزادی کے لیے برطانوی استعمار سے لڑنے والا وہی انسان نیلمبر ہے جو 1947ء میں کمال رضا عرف نواب کمن کے روپ میں پاکستان جاکر مہاجر کی اذیت ناک زندگی جینے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہاں مشترکہ ہندو مسلم تہذیب کے رنگارنگ اور پرفضا گلشن میں پلی بڑھی دنیا کی عظیم ادیبہ کا قلم تقسیم وطن کے المیے کی داستان سناتا ہے تو تنگ نظر سیاست اپنا مکروہ چہرہ دیکھ کر چراغ پا ہوجاتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کا یہ چار ہزار سالہ انسان وطن کے بٹوارے سے پہلے قوم پرست ہندوستانی تھا لیکن جب اپنے پیارے ہندوستان میں اس کی زندگی اجیرن کردی گئی تو وطن کے لیے جان تک نچھاور کردینے کا جذبہ رکھنے والے نواب کمن (کمال رضا) مملکت خداداد پاکستان پہنچتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک جہنم سے چل کر دوسرے بڑے جہنم میں آگیا ہے۔ ’آگ کا دریا‘ اُردو زبان کا اتنا مؤثر، اتنا وسیع، اتنا عظیم اور اس قدر عمیق علمی شاہکار ہے جس کی صرف چند خوبیاں بیان کرنے کے لیے ایک پوری کتاب کم پڑسکتی ہے۔ جنھوں نے پڑھا ہے وہ اس کی سحرخیزی سے واقف ہیں اور جنھوں نے نہیں پڑھا تو پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اگر کوئی اُردو والا ہونے کا مدعی ہے اور اس نے قرۃ العین حیدر کا ’آگ کا دریا‘، شوکت صدیقی کا ناول ’خدا کی بستی‘ اور عبداللہ حسین کا ’اُداس نسلیں‘ نہیں پڑھا تو اسے خود کو اُردو زبان سے رشتہ رکھنے کا اخلاقی حق حاصل نہیں، کیونکہ اتنے بڑے اُردو ادب میں ان تین ناولوں کے سوا کوئی اور بڑا شہ پارہ اب تک تخلیق نہیں ہوا اور ’آگ کا دریا‘ بجائے خود ہزاروں سال لمبی کہانی کی ایک جیتی جاگتی فلم کی طرح ہے جس کے لفظ بولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ہندوستان واپس آنے کے بعد قرۃ العین حیدر 1964ء سے 1968ء تک ترقی پسند انگریزی جریدہ ’اِمپرنٹ‘ کی ایڈیٹر رہیں۔ انھوں نے ٹائمز آف انڈیا گروپ کے موقر جریدہ السٹریٹیڈ ویکلی کے شعبۂ ادارت میں بھی کام کیا۔ ایس مکھرجی کی مشہور فلم ’ایک مسافر ایک حسینہ‘ (جائے مکھرجی، سادھنا) میں کہانی و مکالمہ نگار کی حیثیت سے ان کا نام آیا، لیکن اس کے بارے میں یہ سنا گیا کہ قرۃ العین حیدر کا اس طرح کی ہلکی رومانی فلم سے کوئی تعلق نہیں البتہ ازراہِ قدردانی ایس مکھرجی نے ان کا نام دے کر قانونی معاوضے کی صورت میں ان کی مدد کا یہ طریقہ اپنایا تھا۔ وہ فلم سنسربورڈ کی رکن بھی نامزد کی گئیں۔
انھوں نے پاکستان سے واپس آنے کے بعد دہلی میں اپنی زندگی کی نصف صدی بڑی شان کے ساتھ تصنیف و تالیف میں ہمہ وقت مصروف رہ کر گزاری۔ ان کی بیشتر شہرۂ آفاق تخلیقات اسی عرصے میں لکھی گئیں۔ ان کے مشہور و مقبول ناول جیسے ’کارِ جہاں دراز ہے‘ (1977ء)، ’آخر شب کا ہمسفر‘ (1979ء)، ’گردشِ رنگ چمن‘ (1987ء)، ’چاندنی بیگم‘ (1990ء)، ’شاہراہِ حریر‘ (2002ء) میں شائع ہوئے۔ چار ناولٹ ’سیتاہرن‘، ’چائے کے باغ‘، ’ہاؤسنگ سوسائٹی‘، ’دلربا‘ اور ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘ (یہ ناولٹ ماہنامہ بیسویں صدی میں بالاقساط شائع ہوا) ’ستاروں سے آگے‘، ’شیشے کا گھر‘، ’قندیل چین‘، ’پت جھڑ کی آواز‘ اور ’روشنی کی رفتار‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ قرۃ العین حیدر صاحبہ نے انگریزی سے اُردو میں کئی کتابوں کا خوبصورت ترجمہ کیا، اسی طرح اُردو سے انگریزی میں کئی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کے علاوہ اپنی کتابوں کو انگریزی زبان میں منتقل کرکے شائع کرایا۔ بچوں کے لیے کئی دلچسپ کتابیں انگریزی سے اُردو میں منتقل کیں جن میں ’لومڑی کے بچے‘، ’بہادرگھوڑا‘، ’میاں ڈھینچو‘، ’بھیڑیے کے بچے‘، ’ہرن کے بچے‘، ’شیرخاں‘، ’ڈینگو‘ اور ’جن حسن بن عبدالرحمن‘ شامل ہیں۔ یہ کتابیں مکتبہ جامعہ سے شائع ہوئی۔ ان کے فن و شخصیت پر ہندوپاک میں سینکڑوں مقالات لکھے جاچکے ہیں اور کئی وقیع کتابیں نامور اصحاب نے مرتب کی ہیں، جیسے ان سے لیے گئے انٹرویوز کا مجموعہ ’نوائے سروش‘ (مرتب جمیل اختر)، ’داستانِ عہدگل‘ (مرتب آصف فرخی)، ’قرۃ العین حیدر کے خطوط‘ (مرتب خالد حسن)، ’اندازِ بیاں‘ (مرتب جمیل اختر)، ’گل صد رنگ‘ (مرتبہ محمد حبیب خان)، ’آئینۂ جہاں‘، ’کلیاتِ قرۃ العین حیدر‘ (مرتب جمیل احمد)، ’آئینۂ حیات‘ کے عنوان سے ان کے چاروں ناولٹس کا مجموعہ (مرتب جمیل اختر) اور قرۃ العین حیدر ایک مطالعہ (مرتب پروفیسر ارتضیٰ کریم) وغیرہ وغیرہ جبکہ پروفیسر عبدالمغنی، امجد طفیل، اسلم آزاد اور عامرسہیل وغیرہ دانشوروں نے ان کے فن اور شخصیت پر باقاعدہ تحقیقی کتابیں تالیف کی ہیں۔
’آگ کا دریا‘ انگریزی کے علاوہ ہندوستان کی چودہ علاقائی زبانوں میں چھپ چکا ہے۔قرۃ العین حیدر اپنے اقلیم فکروقلم کی تاجدار تھیں، انھوں نے اپنی اس سلطنت کی زندگی بھر حفاظت کی۔ انھوں نے شادی اور گھرگرہستی کے جنجال سے آزاد رہ کر لوح و قلم کی پرورش میں پوری زندگی گزار دی۔ وہ جب تک زندہ رہیں پوری اُردو دنیا کے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور ممتاز علمی شخصیتوں کے لیے انتہائی محترم ہستی سمجھی گئیں۔ انھیں ہندوستان میں بہت سے اعزازات اور انعامات پیش کیے گئے جن میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (برائے پت جھڑ کی آواز، 1967ء) سوویت لینڈنہرو ایوارڈ (برائے تراجم، 1969ء) پرویز شاہدی ایوارڈ (مغربی بنگال اُردو اکادمی 1981ء) مجموعی ادبی خدمات کے لیے اترپردیش اُردو اکادمی کا ایوارڈ 1982ء، بھارت سرکار کی طرف سے پدم شری 1984ء، غالب ایوارڈ 1984ء، اقبال سمان (مدھیہ پردیش سرکار، 1988ء) وقاری گیان پیٹھ ایوارڈ 1990ء، ساہتیہ اکادمی کی فیلوشپ 1994ء، بہادرشاہ ظفر ایوارڈ دہلی اُردو اکادمی، دوحہ قطر سے مجموعی علمی ادبی خدمات کے لیے عالمی ایوارڈ 2000ء۔
عام لوگوں کو وہ تنک مزاج نظر آتی تھیں لیکن درحقیقت وہ ایک رحمدل اور رقیق القلب خاتون تھیں۔ وہ بڑی خاموشی سے ضرورت مند ادیبوں اور شاعروں کی مدد بھی کیا کرتی تھیں۔ یہ بھی تاثر تھا کہ وہ مذہب بیزار قسم کی خاتون ہیں جبکہ وہ شخصی طور پر نہایت خوش عقیدہ مسلم خاتون تھیں، انھیں مجگواں شریف ضلع بارہ بنکی کی عظیم روحانی شخصیت حضرت سلطان محمد عارف علی شاہ سے بیحد عقیدت تھی۔اپنے مرشد حضرت عارف علی شاہ کا ذکر ’میاں صاحب‘ کے حوالے سے اپنے سوانحی ناول ’گردشِ رنگ چمن‘ میں بڑی عقیدت سے کیا ہے۔ میاں عارف علی شاہ صاحب کا وصال دسمبر 2007ء میں ہوا۔قرۃ العین حیدر کو اُردو زبان کے تمام شاعر، ادیب، صحافی، نقاد اور محقق محبت و عقیدت سے ’عینی آپا‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی یادداشت متاثر ہوگئی تھی، انتقال سے پہلے وہ ایک ماہ تک صاحبِ فراش رہیں۔ 21اگست 2007ء کو جب عینی آپا نے نوئیڈا کے کیلاش ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہا تو پوری اُردو دنیا میں صف ماتم بچھ گئی۔ دنیائے ادب کا یہ گنج گرانمایہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوا۔
موبائل نمبر۔ 9212166170
ای میل۔[email protected]