Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

قرض اور سود کے دلدل میں ڈوبتا ہمارا معاشرہ | سرمایہ کاری روزگارکیلئے نہیں ،منافع کیلئےکی جاتی ہے دعوت ِفکر

Towseef
Last updated: March 4, 2025 11:50 pm
Towseef
Share
12 Min Read
SHARE

شہاب حمزہ

عالمی سطح پر خواتین کے تعلق سے چند اہم باتوں پر ماہرین کا اتفاق ہے، ان تسلیم شدہ حقائق میں جس بات کی سب سے زیادہ مثال دی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر ایک خاتون تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو پورا خاندان تعلیم یافتہ ہوتا ہے اور معاشرے پر اس کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔یہ ایک جامع حقیقت بھی ہے کہ خواتین کے اثرات ان کے خاندان پر لازمی طور پر پڑتا ہے ۔ٹھیک اسی طرح سے اگر یہ خاتون قرض دار ہوتی ہے تو ایک پورا خاندان قرض میں ڈوب جاتا ہے اور قرض کا کوئی ایسا کاروبار نہیں جہاں سود کی لعنت شامل نہ ہو۔وزارت شماریات (این ایس او) کی حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق شہروں کی ایک لاکھ کی آبادی میں 17442 لوگ قرض میں ڈوبے ہیں جبکہ گاؤں میں قرض لینے والوں کی تعداد ایک لاکھ میں 18714 ہے ۔اس رپورٹ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہروں میں ایک لاکھ کی آبادی میں سے 10584 عورتوں نے قرض لے رکھا ہے جبکہ گاؤں کے تعلق سے یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک لاکھ میں سے 13 ہزار 14 خواتین قرض کی بوجھ میں دبے ہیں ۔اس سے قبل کے اس اعداد و شمار سے کوئی رائے قائم کی جائے، سال 2016 اور 2021 کی رپورٹ پر نظر ڈالی جانی چاہیے ۔سال 2016 میں آئی رپورٹ کے مطابق شہروں میں 22.4 فیصد خاندان اور گاؤں میں 31.4 فیصد خاندانوں نے قرض لے رکھا تھا ،جبکہ 2021 میں ائی این ایس او رپورٹ کے مطابق وبا سے قبل شہروں میں 22.4 کے مقابلے گاؤں میں 35 فیصد خاندان قرض میں ڈوبے تھے ۔لاک ڈاؤن اور وبا نے نہ صرف معیشت کو تباہ کیا بلکہ لوگوں کے معاشی توازن کو تقریبا ًناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور معاشی اعتبار سے زیادہ تر خاندان بدحالی کے شکار ہو گئے اور آج بھی تنگ دستی اور معاشی زبو حالی سے باہر آنے کی کوشش میں لگے ہیں ۔

اب ذرا غور کریں ان ایس او 2022 23 کی رپورٹ میں شہروں کے 17442 اور گاؤں کی 18714 لوگ قرض میں مبتلا ہیں۔ اگر قرض لینے والے ایک شخص کے خاندان میں چار فرد شمار کیے جائیں تو گاؤں اور شہروں کی تقریباً 60 سے 70 فیصد کی آبادی قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔ جبکہ گاؤں میں خواتین قرض دار تیرہ ہزار ہیں اور ایک خاتون کا خاندان اگر چار افراد پر مشتمل ہے تو بھی ملک کی تقریباًآدھی دیہی آبادی خواتین کے ذریعے لیے گئے قرض کے سائے میں زندگی گزار رہی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ چاہے بچوں کی تعلیم ہو،مرض اور اعلاج کا معاملہ ہو، گھریلو ضرورتوں کی چیزیں ہوں یا کھانے پینے پہننے اور آرام و آسائش کے سامان ہوں، ان تمام چیزوں پر گاؤں میں بھی شہروں کے اثرات نظرآنے لگے ہیں ۔ گاؤں کے لوگ بھی شہری زندگی کی راہوں پر نکل پڑے ہیں اور زندگی کی ان ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے لوگ قرض میں ڈوبتے جا رہے ہیں ۔قابل غور بات یہ ہے کہ ہماری ملک کی آدھی آبادی اگر قرض جیسے مرض میں مبتلا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر قرض کا کاروبار کیسے چل رہا ہے ؟ ملکی سطح ہو یا عالم سطح بازار چند لوگوں کے قبضے میں ہے ۔ پوری دنیا کی سروری بتاتی ہیں کہ معیشت پر حکومتوں کی گرفت کمزور ہے ۔ عالمی پیمانے پر فی کش آمدنی میں گراوٹ درج کی گئی ہے وہیں ہندوستان میں بھی اس معاملے میں کافی کمی دیکھی گئی ہے۔ غربتی کا ریشیو بڑھا ہے۔ ہمارے ملک میں خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ آج کے اس دور میں ایک بڑی اور جامع حقیقت یہ ہے کہ اب سرمایہ کاری روزگار مہیا کرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف منافع کمانے کے لیے کیے جاتے ہیں ۔ سرمایہ داروں کا مقصد سہولت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا رہ گیا ہے ۔ گزشتہ چند برسوں سے ان کے ذریعے ایسے تجارت کا انتخاب بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے جہاں نقصان کی امید ذرہ برابر بھی نہ ہو ۔ یعنی سرمایہ کاری ان راہوں پر چل پڑی ہے جس کی منزل منافع کے سوا کچھ اور نہ ہو اور اب تک اس عالم انسان میں صرف ایک ہی تجارت ایسی تصور کی جاتی ہے، جس میں خسارے کی قطعی گنجائش نہیں اور یہ تجارت سود کہ کاروبار کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔ قرض اور سود سے تعلق رکھنے والا کاروبار ہی فی الوقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ عروج پر ہے ۔ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی قرض اور سود کا کاروبار اب تک کے سب سے اونچے پائیدان پر ہے ۔ آج بھوکے کو نوالہ اِس سہولت سے دستیاب نہیں جتنی اسانی سے لوگوں کو قرض مل جایا کرتا ہے ۔ ای ایم آئی کے نام پر سودی کاروبار کا سلسلہ عروج پر ہے ۔ بازار کا دل اتنا کشادہ ہو گیا ہے کہ عام انسان کی ضرورت سے جڑی ہوئی تمام چیزیں ای ایم آئی پر دستیاب ہیں ۔ قرض پر چیزیں لینے کے لیے ایک زندہ انسان ،شناختی کارڈ اور زندہ موبائل نمبر کا ہونا شرط ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ قرض دینے والے نہ آپ سے آپ کی اوقات پوچھتے ہیں نہ ہی آپ کی آمدنی ۔ حتیٰ کہ زیرو ڈاؤن پیمنٹ پر بھی موٹی سود کی شرح کے ساتھ آپ کی خواہش کی چیزیں آپ کے حوالے کر دی جاتی ہیں ۔ دراصل یہ وہی چند لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں بازار کا نظام ہے اور سود کے کاروبار سے ان کی آمدنی میں ہر دن بے تحاشہ اضافہ درج ہوتا جا رہا ہے ۔ جس کے سبب قرض اور سود کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے اور یہی سبب ہے کہ قرض اور سود کے سائے میں ملک کی تقریبا آدھی آبادی زندگی گزار رہی ہے ۔اس پس منظر میں اگر ہم مسلم معاشرے کی بات کریں تو رپورٹ کے مطابق یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم معاشرے کی آدھے سے زیادہ آبادی قرض اور سود کے دلدل میں دھنس چکی ہے ۔ مسلم مردوں سے کہیں زیادہ مسلم عورتیں قرض میں ملوث ہیں سودی کاروبار میں ان کی زندگیاں گھر چکی ہیں ۔ ملک بھر کے تمام گاؤں اور شہروں میں عورتوں کی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ مہیلا منڈل ، عورتوں کی تنظیمیں مختلف ناموں سے ملک گیر سطح پر ہر محلے میں اپنا کام کر رہے ہیں ۔ بلکہ ان کی رسائی تقریبا ًہر گھروں تک ہو رہی ہے ۔ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں ایسی تنظیمیں چلانے والے ہر گھر کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ہر گھروں تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔

ان تنظیموں کا کام گھریلو عورتوں کو ٹارگٹ بنا کر انہیں باسانی قرض مہیا کرانا اور سود کے دلدل میں دھکیل دینا ہے۔ چونکہ ہندوستانی معاشرے میں معاشی اعتبار سے مسلمان بے حد کمزور اور پچھڑے ہوئے ہیں ۔ سیاسی اور سماجی پسماندگی مسلمانوں کی تقدیر ہے ۔ ان سب سے بڑھ کر تعلیم کی کمی مسلمانوں کو دین سے بھی دور کرتی جا رہی ہے ۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہر روز جدیدیت کا سبق پڑھایا جا رہا ہے ۔ جس کے اثرات مسلم معاشرے پر بھی نمایاں طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور اس کا سب سے اہم نتیجہ دین و ایمان سے دوری کی شکل میں مرتب ہو رہا ہے ۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ مسلمان عورتیں قرض اور سودی کاروبار میں پھنستی چلی جا رہی ہیں ۔ اول تو سود کو اسلام میں حرام قرار دیا ہے۔ دوسری بات جو خاندان قرض کے بوجھ میں دبا ہو، جسے قرض کی ادائیگی کی فکر ہو اور خاندان ترقی کی راہوں پر چلنا تو دور قدم بھی نہیں رکھ سکتا ۔ قرض اور سود کے کاروبار کے ذریعے صرف ہماری معیشت اور ذہنیت پر ہی نہیں بلکہ ہمارے دین و ایمان پر بھی خاموش حملے کئے جا رہے ہیں ۔ ہمارے گھروں میں پیدا ہونے والے بچے قرض دار بن کر دنیا میں آ رہے ہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی فکر کریں قرض اور سود کہ بُرے اثرات سے لوگوں کو آگاہ کریں ۔ ہر محلے میں ذمہ داروں کی نگرانی میں ٹیم تشکیل دے کر اس لعنت سے لوگوں کو خبردار کیا جائے اور غریبوں، مفلسوں اور ضرورت مندوں کی شناخت کر ان کی ہر ممکن مدد کی کوشش کی جائے ۔ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی، نئی نسلوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش ہونی چاہیے ۔ مہیلا منڈل کی عورتوں پر جب محنت کیا گیا تو یہ تجارت سیکھ گئیں بلکہ اس کے مبلغ بھی بن گئیں۔ لہٰذا اگر ان پر ایمانداری سے محنت کی جائے تو تعلیم یافتہ معاشرے کی تعمیر کی جا سکتی ہے جہاں لوگ دین و ایمان کا دامن تھامے سود اور قرض محفوظ رہ سکیں گے ۔ اگر وقت پر اس سمت ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو ہماری نئی نسلوں پر اس کے گہرے اوربُرے اثرات دیکھنے کو ملیں گے اور زوال پزیر مسلم معاشرے کی تباہی کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہوگا۔
رابطہ۔8340349807

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
امرناتھ یاترا:بھگوتی نگر بیس کیمپ سے 6 ہزار سے زیادہ یاتریوں کا دسواں قافلہ روانہ
برصغیر
وزیر صحت سکینہ اِیتو کا بدھل اور سرنکوٹ اسمبلی حلقوں میں شعبہ صحت کے منظرنامے کا جائزہ ماہر ڈاکٹروں کی کمی پر سخت اظہارِ تشویش
جموں
’’کلین جموں گرین جموں مہم‘‘ ہائی کورٹ نے جانی پور کمپلیکس میں شجرکاری مہم کا انعقاد کیا
جموں
ادھم پور میں بس الٹنے سے سات مسافر زخمی
جموں

Related

مضامین

بابا نگری وانگت ،روحانیت کا مرکز

July 10, 2025
مضامین

یادِ الٰہی۔روح کی اصل غذا زندگی روح اور قالب دو اجزاء کی اصل صورت ہے

July 10, 2025
مضامین

زبان ،قلوب و اذہان کی ترجمان نقطہ نظر

July 10, 2025
مضامین

قرآن ِمجید عظمت اور سرچشمۂ حیات‎ روشنی

July 10, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?