آج ایک بار پھر تیمور نے بے دردی سے عائشہ کے بال کھینچتے ہوئے اس کے چہرے پر ایک زور دار طمانچہ مارا اور اپنے وحشی ضمیر کو تسلی دیتے ہوئے کمرے سے ایسے باہر نکلا جیسے کہ کسی درندے سے جیت کے آیا ہو۔ اس کی سوچ نے اس کو اتنا گرایا تھا کہ اب خالی ڈانٹ ڈپٹ سے اس کا من ہی نہیں بھرتا۔ عائشہ سے جھگڑنے کی تیمور کو ایسی لت لگی تھی کہ بغیر اِس کے اُس کو سکون ہی نہیں ملتا۔ زور دار طمانچے سے عائشہ میز سے ٹکراکے نیچے گرگئی، گال لال ہوگئے ۔ فرش پر گرتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسووں کی دھار بہنے لگی۔روتے روتے اس کی آنکھیں بھی سرخ ہوگئیں۔ ہاتھ پیر بے جان ہوگئے۔اندر ہی اندر اس کا دم گُھٹنے لگا۔ پورے کمرے میں سناٹا سا چھا گیا۔عائشہ اپنی تقدیر کو کوستی رہی۔۔۔اسکے علاوہ کرتی بھی کیا؟؟؟
ادھر فون کی گھنٹی عائشہ کے لئے اذانِ مرغ کی مانند ثابت ہو گئی ۔ کمرے کا ماحول بدل ساگیا۔ ڈراونی خاموشی میں قدرے تبدیلی آگئی۔ فون کی گھنٹی سنتے ہی عائشہ نے اپنے نیم مردہ قدم میز کی طرف بڑھانے شروع کئے۔اس کی آنکھیں ریگستان کی مانند جل رہی تھیں ۔ چہرے پر اِندردھنش کے سبھی رنگ دِکھ رہے تھے۔اس کی حالت ایسی تھی جیسے کسی ویرانے سے ابھی ابھی اس کے روح کی واپسی ہوئی ہو۔۔۔
فون پراپنے ابو کی لاڑ بھری آواز سنتے ہی عائشہ ٹوٹ سی گئی ۔ وہ زور زور سے چِلانا چاہتی تھی!!! لیکن اپنے ابو کی حالت اس کے عین مقابل تھی۔ اس نے اپنے من کی پکار کو اندر ہی اندر دفن کرلیا۔ وہ اپنے ابو کو ہر حال میں خوش رکھنا چاہتی تھی، چاہے اس کی خاطر اُسے اپنی خوشیوں کو بھی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ آخر بناوٹی الفاظ میں عائشہ اپنے باپ سے باتیں کرنے لگی۔من بہلاتے ہوئے عائشہ اپنے ابو سے کہتے ہوئے:
ـ’’اچھا ابو؛ تیمور میرا انتظار کررہا ہے ۔ہم دونوں ابھی باہر گھومنے جارہے ہیں ۔۔۔ آپ اپنا خیال رکھئے گا۔ میںآپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔۔ اللہ حافظ۔۔۔‘‘ اور یوں ایک بار پھر کمرے میں خاموشی وارد ہوگئی۔۔۔۔
تیمور کا انتخاب تو عائشہ کے ابو نے شاید اس لئے کیا تھا کہ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔ وہ اپنی لاڈلی عائشہ کو کسی قسم کی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔عائشہ نے بھی اپنی خواہشوں کو قربان کرتے ہوئے اپنے ابو کا مان رکھا تھااور تیمور سے شادی کے لئے راضی ہوئی تھی۔ لیکن اس بات کا علم ہی کس کو تھا کہ تیمور کی انسانی اقدار کو دولت کے نشے نے تار تار کیا ہوگا ۔ وہ ایک ایسے دلدل میں پھنسا تھا جہاں سے اُس کا نکل پانا ناممکن نظر آرہا تھا۔لیکن اس سب کے باوجود عائشہ نے تیمور کے ظلم و ستم پر کبھی اُف تک نہ کیا ۔ وہ یہ سب کچھ سہتی رہی۔۔۔ مجبوری میں یا محبت میں !!!!!عائشہ کے علاوہ یہ صرف خالقِ کائنات ہی جانتا ہو گا۔۔۔۔
عائشہ اس آس میں اپنے دن گذار رہی تھی کہ ایک نہ ایک دن اس کی خوشیوں کا سورج بھی طلوع ہوگا اور اُس کی اندھیری دنیا کو صبح کے نور کی طرح روشن کر دے گا۔ اُسے خالقِ کائنات کے رحم و کرم پر بے حد بھروسہ تھا۔ اس لئے وہ ہمیشہ تیمور کے احمقانہ روئے کو نظر انداز کرتی رہی۔ نفرتوں کے عوض وہ تیمور کو بے لوث محبتوں سے نوازتی رہی۔وہ نہ صرف اپنے ابو کی خاطر اپنی خواہشوں کو قربان کررہی تھی بلکہ تیمور کے لئے وہ مر مٹنے کو بھی تیار تھی۔
پریشانیوں اور امیدوں کی کشمکش میں وقت گذرتا گیا۔ عائشہ کی کوکھ اب آباد ہوگئی ۔ گھر میں بیٹی کے آنے سے تیمور کے رویے میں بھی تبدیلی آنی شروع ہوگئی ۔ وہ اب عائشہ کے ساتھ خوشی خوشی وقت گذارنے لگا۔عائشہ تیمور کا یہ رویہ دیکھکر پھولے نہ سمائی۔ ان کی حالت ایسی ہوگئی جیسے کہ بیٹی کے ساتھ ساتھ ان کا بھی نیا جنم ہوا ہو۔عائشہ اب تیمور کی دی ہوئی تکلیفوں کو بھُولنے لگی۔ ۔ دونوں میاں بیوی اپنی بیٹی تبسم پہ جان نچھاور کرنے لگے۔ عائشہ نے تو اپنی نوکری سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ وہ اب سارا وقت تبسم کے ساتھ ہی گذار رہی ہے۔گذارے بھی نہ کیوں !!! ایک وہ ہی تو ہے جو اس کی زندگی میں مسرتوں کے ایک سورج کی طرح طلوع ہوئی۔ جس نے اس کے اُجڑے چمن کو رنگ بخشا۔ جس کی بدولت عائشہ کی کھوئی ہوئی مسکان لوٹ آئی۔ تبسم کے جنم نے عائشہ کی مرجھائی ہوئی زندگی میں ایک نئی جان ڈال دی۔۔۔
عائشہ ابھی اپنے بیتے کل کو پوری طرح سے بُھولی بھی نہیں تھی کہ وقت نے ایک بار پھر سے اپنا رنگ بدل دیا۔ تیمور کے تیور پہلے جیسے ہونے لگے۔وہ عائشہ کی اور بے رُخی سا اختیار کرنے لگا۔ صبح و شام کی یہ تلخی تبسم کی پرورش پر بھی بُرا اثر ڈالنے لگی۔ عائشہ اپنی بچی کی خاطر سب کچھ چپ چاپ سہتی رہی۔شاید خالقِ کائنات نے عائشہ کو قربانیوں کا درس دینے کے لئے ہی پیدا کیا تھا۔۔۔
کچھ عرصہ ان آزمائشوں میں بھی بیت گیا۔ ایک دن تیمور کو اپنے آفس سے باقی ممبران کے ساتھ ایک انٹر نیشنل ٹیور پہ جانے کا آڈر ملا۔ یہ دعوت نامہ تیمور کے نفسیاتی وبا کے لئے کیمیا ثابت ہوا کیونکہ وہ اب عائشہ کے ساتھ وقت گذارنا فضول سمجھ رہا تھا۔تیمور یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا ۔اس نے دعوت نامہ بلا کسی تاخیر کے قبول کرلیا۔
تیمور کے بیرون ممالک کے دورے کی خبر نے عائشہ کی کمر ہی توڑ دی۔یہ خبر اس کی خاطر تیمور کے دئے گئے ظلم و ستم سے کئی زیادہ پریشان کُن ثابت ہوئی۔ لیکن تیمور کے فیصلے کو قبول کرنے کے بجائے اس کے پاس چارہ بھی کیا تھا؟؟؟ آخر عائشہ بھی تیمور کی خوشیوں کی خاطر چپ ہی رہی۔۔۔
اگلی سوموارکو تیمور کی روانگی ہے۔ ساری تیاریاں مکمل ہوگئیں۔تین دنوں اگر چہ تیمور نے اپنے ظلم و ستم کی لاٹھی کو روکے رکھا لیکن عائشہ کے لئے یہ زندگی کے سب سے دُکھی لمحے ثابت ہوئے۔ ایک عورت کے لئے شوہر کی جدائی سے بڑھ کر شاید ہی کوئی غم ہوگا۔ یہ دن عائشہ کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھے۔ اسکا من اندر ہی اندر جل رہا تھا۔وہ ڈراونے خیالوں کی دنیا میں کھو نے لگی۔۔۔۔۔
تیمور نے بھی کوئی پرواہ کئے بغیرعائشہ کو خیالوں کی اس دلدل میں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا اور خودرنگ رلیاں منانے بیرونی ممالک کی سیر کی خاطر روانہ ہو گیا۔۔۔ رخصتی تیمور کے ان الفاظ سے ہوئی :
’’عائشہ !!! تبسم کا خیال رکھنا۔ باقی ضرورت پڑنے پر ہی مجھے فون کرنا ۔‘‘
کئی روز تو عائشہ کو کھانے پینے کا من ہی نہیں کیا۔ زندگی کا چراغ جیسے بجھ سا گیا۔ تیمور کی دوریاں برداشت کرنا عائشہ کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ لیکن تبسم کی خاطر اس کو ایک بار پھر کمر کسنا پڑا۔ وہ تبسم کے ساتھ ہی اب وقت کاٹتی رہی اور اپنی بے رنگی زندگی کو رنگنے کی کوشش میں لگی رہی۔
وقت گذرتا گیا۔ تیمور کی فون کال بھی اب عید کا چاند ہونے لگی۔ وہ اپنے حال میں مست رنگ رلیاںمناتا رہا۔ ادھر عائشہ کو تیمور کی یادیں ستانے لگی۔ وہ بنا پانی کے مچھلی کی مانند تڑپنے لگی۔اپنا دکھڑا سناتی بھی کس کو؟؟؟ تیمور تو اُس کے دل کا حال ہی کبھی جان نہ پایا۔ رہا سوال عائشہ کے ابو کا !!! تو وہ دل کے مریض تھے اور عائشہ اُن کو مذید دُکھ نہیں دینا چاہتی تھی۔ یوں وہ اندر ہی اندر جلتی رہی۔۔۔۔
کرونا وباء نے پوری دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عائشہ باہر کے حالات دیکھ کر ڈرنے لگی۔ اپنے ابو کے بار بار اسرار کے بعد وہ مائیکے جانے پر راضی ہوگئی۔ مائیکے میں اسکو اکیلے پن سے تھوڑی نجات تومل گئی لیکن تیمور کی فکر ہر وقت اس کے من کو کُریدتی رہی۔ کرونا کی لہر کی شدت نے عائشہ کی پریشانیوں میں بھی اضافہ کیا۔ اُسے ہر وقت اب تیمور کی صحت کی فکر ہونے لگی۔ اس فکر نے اب عائشہ کی راتوں کی نیند بھی حرام کر لی۔۔۔لیکن تیمور ابھی تک ٹس سے مس نہیں ہوا!!!
اُدھر اب ساری دنیا میں لاک ڈاون کی صورت حال پیدا ہوگئی ۔ خوف کی لہر سے تمام مسافر اپنے اپنے آبائی ملکوں کی اور جانے کی ضد کرتے رہے۔ حکومتیں بھی پریشان ہونے لگیں۔ بہت محنت کے بعد ہی ایک لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ مسافروں کو اس شرط پر سفر کی اجازت ملی کہ آبائی ملک پہنچتے ہی کرونا وائرس کی خاطر جانچ ہوگی اور ٹیسٹ مثبت آنے پر لازمی قرنطین میں رہنا ہوگا۔
تیمور کا من بھی اب گھر آنے کے لئے تیار ہوگیا اور باقی ساتھیوں کے ساتھ ساتھ اُس نے بھی جہاز کی ٹکٹ بنوا لی۔ اُدھر عائشہ یہ خبر سُنتے ہی پھولے نہ سمائی۔ اُس کی بے رنگی زندگی میں جان سی آگئی۔ اس کے ابو بھی عائشہ کے لبوں پر برسوں بعد مسکراہٹ دیکھ کر خوش ہوگئے۔ سارے گھر میں خوشیوں کی دھوم مچ گئی۔سماں ایسا جیسے کہ کوئی مرا ہوا شخص زندہ ہوا ہو۔۔۔۔
ہوائی اڑے پر حسب معمول بیرونی ممالک سے آئے ہوئے تمام مسافروں کی جانچ ہو رہی تھی۔ عائشہ کی بد قسمتی!!!تیمور کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا۔شرائط کے مطابق اسے قارنطین میں رکھا گیا ۔ عائشہ کی خوشیوں پر ایک بار پھر سے پانی پھِر گیا۔اُسے اب تیمور کے صحت کی فکر ہونے لگی۔کرونا کی وجہ سے شرح اموات میں اضافے سے عائشہ کے من میں خوفناک وسوسے اُبھرنے لگے۔ وہ راتوں کو چیخنے ، چِلانے لگی۔ اُس کی حالت ایسی ہوگئی جیسے کہ وہ روز اپنے شوہر کو بچانے کے لئے موت کے فرشتے سے لڑ رہی ہو اور صبح کے نور کے ظہور تک ہر رات یہی سلسلہ جاری تھا۔
چند ہی دنوں میں تیمور کی طبیعت خراب ہوتی گئی ۔اُس کے جسم میں آکسیجن کی شرح کم ہوتی گئی۔ اُسے اب ونٹیلیٹر پر منتقل کیا گیا۔ جہاں وہ اپنی کرتوتوں کے سوا کسی اور سے ملاقات کرنے کو ترستا رہا۔ وہ انسانی شکل تلاش کرتا رہا لیکن خوف کے بھوتوں کے سوا کسی کو نہ دیکھ پایا۔اُسے اب عائشہ کی چیخ و پکار یاد آنے لگی۔ وہ چیخیں جو اُس کے دئے ہویئے مظالم کی وجہ سے نکلتی رہی۔وہ بھی آج عائشہ کو دیکھنا چاہتا ہے۔شاید اپنے ڈھائے ہوئے مظالم کی توبہ کی خاطر۔۔۔۔۔وہ آج عائشہ سے باتیں کرنا چاہتا ہے۔۔۔وہ تبسم کو یتیم ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔
عائشہ نے اپنے شوہر کی اس حالت کے بارے میں سُنا تو وہ بیقرار ہوگئی۔ وہ دیوانوں کی طرح اسپتال کے باہر اپنے شوہر سے ملنے کے انتظار میںدن گذارتی رہی۔ اُسے اپنی صحت کی ذرا بھی پرواہ نہ رہی۔۔ ہوتی بھی کیسے۔وہ توتیمور کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار تھی۔۔۔
کچھ دن یوں ہی پاگلوں کی طرح گذارے۔تیمور سے ملنے کی خاطروہ ڈاکٹر صاحبان سے گذارشیں کرتی رہی۔۔طبی عملے کے پیر پکڑتی رہی،وہ اپنی چھاتی پیٹتی رہی، بال نوچتی رہی لیکن اجازت نہ ملی۔ آخر اسپتال کے باہر گھومتے پھرتے عائشہ بھی کرونا کا شکار ہوگئی۔ کرونا وائرس شاید عائشہ کے جذبات سمجھ چکا تھا۔ عائشہ کی اور طبی عملے کے رویئے کو دیکھ کر شاید وائرس کو اُس پر ترس آیا ہو گا!!!اِسے بد قسمتی کہے یا خوش نصیبی !!!کرونا نے عائشہ کو تیمور سے ملوا ہی لیا۔۔۔آج وہ اسپتال میں ایک دوسرے کے کنارے چارپائیوں پر آپس میں خاموش گفتگو میں مصروف ہیں اور تبسم اُن کے انتظار میں خون کے آنسو بہا رہی ہے۔۔۔
���
برنٹی اننت ناگ کشمیر،[email protected]