قربانی کے جانور اور سرکاری نرخ نامہ اعلامیہ اطمینان بخش ،عمل درآمد انتہائی ناگزیر

یہ امر اطمینان بخش ہے کہ نظامت خورا ک و رسدات اور امور صارفین کشمیر نے عید الاضحی کے پیش نظر قربانی کے جانوروں کے نرخ مقرر کرنے کیلئے باضابطہ ایک نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے ۔مذکورہ اعلامیہ کی رو سے دہلی والے بھیڑوں میرینو کراس اقسام کے بھیڑوں کیلئے زندہ فی کلو310روپے جبکہ کشمیری (مقامی )اور بکروال بھیڑوں کیلئے زندہ فی کلو 295روپے قیمت مقرر کی گئی ہے تاہم افسو س کا مقام ہے کہ حسب روایت کوٹھداروں نے اب کی بار بھی سرکاری نرخ ماننے سے انکارکیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ قیمتیں بہت کم ہیں۔

 

ایسا پہلی دفعہ نہیں ہورہا ہے جب کوٹھدار من مانیوںپر اتر آئے ہوں بلکہ ہر بار اس طرح کے مواقع پر کوٹھداروں کی من مانیاں چلتی ہیں اور وہ عوام کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے باز نہیں آتے ہیں۔ویسے بھی اس وقت کوٹھدار وں اور قصابوں نے چھوٹے گوشت کے سرکاری نرخوں کو کب کا بالائے طاق رکھا ہوا ہے اور اس وقت بھی مارکیٹ میں چھوٹا گوشت 600روپے فی کلو سے کم کہیں نہیں بِکتا ہے جبکہ سرکاری ریٹ اس سے کہیں کم ہے ۔اب کوٹھدار چاہتے ہیں کہ عید کے مقدس تہوار پر بھی ان کی من مانیاں چلیں اور سرکار ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور وہ ان کی مرضی کے مطابق نرخ مقرر کرے ۔جس طرح سے کوٹھداروں نے سرکاری نرخ نامہ کو ماننے سے انکار کردیا ہے ،اُس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ اس عید پر بھی سرکاری نرخوں پر کوئی عمل درآمد نہیںہوگا ۔ایسے میںایک بار پھر سرکار کی اپنی رِٹ دائو پر لگی ہوئی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سرکار کوٹھداروں کے سامنے حسب روایت جھک جائے گی اور خاموشی اختیار کرکے انہیں عید پر قربانی کے جانوروں کے نام پر عوام کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ دے گی یا پھر متعلقہ محکمے حرکت میں آکر سرکاری نرخ نامہ کو زمینی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔گوکہ ماضی کے تجربات اس حوالے سے اطمینان بخش نہیں ہیں کیونکہ سرکاری نرخوں پر کبھی عمل نہیں ہوا ہے تاہم اب کی بار جس طرح ناظم خوراک و رسدا ت اور امورصارفین نرخوں پر عملدرآمد کرنے کے تعلق سے پُر اعتماد نظر آتے ہیں ،اُس سے یہ ہلکی سی امید بندھ گئی ہے کہ شاید اب کی بار لوگوں کو کوٹھداروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جائے گا۔سرکار کی ذمہ داری نرخ مقرر کرکے ہی ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ ان نرخوں پر عمل درآمد کرنا سب سے زیادہ اہم ہے اور سرکار کے پاس ایسا کرنے کیلئے مشینری بھی موجود ہے ۔

 

سرکار چاہے تو مقررہ نرخوں سے ایک روپے بھی اوپر نیچے نہیں ہوگا لیکن اگر نہ چاہے تو آنکھیں بند کرکے لوٹ کھسوٹ کا بازارگرم کرنے کی کھلی چھوٹ بھی دے سکتی ہے ۔یہاں یہ کہنا بھی لازمی ہے کہ سرکاری نرخوں کو زمینی سطح پر عملیانے والے اہلکار اس نرخ نامہ کو رشوت کا ذریعہ بھی نہ بنائیں کیونکہ ماضی میں یہ شکایتیں بھی عام رہی ہیں کہ متعلقہ محکموں کے کارندے نرخ نامہ پر من و عن عملدرآمد کرنے کے نام پراپنے ہاتھ گرم کرتے ہیں۔ایسا آج بھی ہوسکتا ہے ۔جہاں نرخوں پر عملدرآمد یقینی بنانا لازمی ہے وہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس عمل میں رشوت کا بازار گرم نہ ہو۔

 

کوٹھداروں کے بھی اپنے مسائل ہیں اور انہیں ویسے ہی ان نرخوں پر اعتراض ہے ۔ایسے میں اگر متعلقہ محکموں کے کارندے کوٹھداروں سے نذرانے بھی وصول کریں تو اُنہیں یا تو خسارہ برداشت کرنا پڑے گا یاپھر مجبور ہوکر سرکاری نرخوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نرخ مقرر کرنا پڑیں گے اور اس عمل میں اگر کوئی بیچ میں پِسے گا تو وہ غریب عوام ہی ہونگے۔جاتے جاتے ایک اہم بات ،کوٹھداروں کی شکایت ہے کہ بھیڑبکریوں کو لیکر کشمیر آرہی مال بردار گاڑیوں کو جموں سے صرف مخصوص اوقات کے دورا ن ہی کشمیر کی طرف آنے کی اجازت دی جارہی ہے جس کی وجہ سے شدید گرمی برداشت نہ کرتے ہوئے بھیڑ بکریوں کی بڑی تعداد گاڑیوں میں ہی مرجاتی ہیں۔یہ یقینی طور پر ایک سنگین صورتحال ہے اور سرکار کو فوری طور مداخلت کرکے یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ بھیڑ بکریوں سے لدھی مال بردار گاڑیوں کی بلا خلل آواجاہی جاری رہے تاکہ یہ مال بروقت کشمیر تک پہنچ سکے اور کوٹھداروں کو نقصان سے دوچار نہ ہونا پڑے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے نتیجہ میں بھی سرکاری نرخ نامہ پر عمل درآمد آسان بن جائے گاکیونکہ پھر کوٹھداروں کے پاس نرخ بڑھانے کا کوئی بہانہ نہیں رہے گا۔