سبدر شبیر
آج پھر وہی گلی تھی، وہی مسجد، وہی عید کی تکبیرات کی صدائیں، وہی سفید چادروں میں لپٹے بدن… مگر کچھ بدلا تھا۔ کچھ ایسا جو لفظوں میں نہیں آتا۔ شاید وقت کے ساتھ جذبے بھی پرانے ہو جاتے ہیں۔
مریم نے آج بھی اپنے دونوں بیٹوں کے لیے سفید کُرتا اور شلوار نکالے، اُن کے چہرے دھوئے، بال سنوارے، اور باپ کی طرح ٹوپی پہننے پر اصرار کیا۔
“ماما! کیا ابو بھی آج بکرے کی قربانی کرتے تھے؟”
یہ سوال چھوٹے بیٹے سفیان کا تھا، جس نے کبھی اپنے باپ کو زندہ نہیں دیکھا، صرف تصویروں میں۔
مریم نے نظریں چرا لیں۔
“ہاں بیٹا، وہ سب سے پہلے چھری پکڑتے تھے، مگر اُن کا دل سب سے آخر میں پگھلتا تھا۔”
سفیان کے چہرے پر معصوم حیرت تھی۔
“تو کیا قربانی کرنا آسان ہوتا ہے؟”
مریم کے لبوں پر ایک ہلکی سی لرزش آئی۔ اُس نے دل میں بہت سی قربانیاں دی تھیں ـ خاموش، ان دیکھی، ان سنی۔
“نہیں بیٹا، جو اصل قربانی ہوتی ہے، وہ ہمیشہ مشکل ہوتی ہے۔”
عید کی نماز ختم ہوئی تو سب لوگ قربانی کے جانوروں کے ساتھ مسجد سے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ گلی کے ہر کونے میں بکرے، دنبے، بیل، اور اُن کی رسی تھامے خوش چہروں والے لوگ۔ قصائیوں کی آوازیں، بچوں کی تالیاں، اور گوشت کے تقسیم کے وعدے۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔
مگر مریم کے گھر کے سامنے جو بکرا بندھا تھا، اُس کی آنکھیں عجیب سی تھیں۔ جیسے وہ سب کچھ سمجھ رہا ہو۔ وہ بولا نہیں، ممیایا بھی نہیں۔ بس خاموش رہا۔ حتیٰ کہ جب چھری تیز کی جا رہی تھی، تب بھی۔
سفیان اور حذیفہ اُسے سہلاتے رہے۔ حذیفہ نے دھیرے سے کہا، “امی! بکرا ڈر نہیں رہا، کیا یہ بہادر ہے؟”
مریم نے جواب نہ دیا۔ وہ جانتی تھی، آج کا دن اُس کے لیے کوئی رسم نہ تھا۔ یہ ایک وعدہ تھا، جو اُس نے چار سال پہلے کیا تھا۔
چار سال پہلے عیدالاضحیٰ کے دن ہی اُس کے شوہر کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ بیماری لا علاج تھی اور اپنی آخری حد کو چھو رہی تھی ۔ اُس نے شوہر کا ہاتھ تھامے کہا تھا
“کچھ تو مانگئے اللہ سے آج کے دن… یہ دن حضرت ابراہیمؑ کے صبر کی یاد ہے۔”
شوہر نے کمزور سی آواز میں کہا تھا:
“میں اللہ سے یہ قربانی مانگتا ہوں کہ اگر میری جان کے بدلے تمہاری اور بچوں کی زندگی آسان ہو جائے، تو میں راضی ہوں۔”
اور شام ہوتے ہوتے، اُس کی قربانی قبول ہو گئی۔
آج عید تھی۔ مگر مریم کے لئے صرف بچوں کی خوشی، اُن کی معصوم خواہشات اور اُن کے ابو کی وہ آخری دعا تھی۔ قصائی آیا، بکرا باندھا گیا۔ سفیان نے آنکھیں بند کر لیں۔ حذیفہ نے ابو کی پرانی گھڑی پہنی ہوئی تھی، جو آج بھی صحیح وقت پر چلتی تھی، جیسے ابو کا لمس ابھی باقی ہو۔
قصائی نے ہاتھ بڑھایا، مگر مریم نے اُسے روک دیا۔
“ایک منٹ۔”
وہ بچوں کے ساتھ بیٹھ گئی اور بکرے کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔
“اللہ کی راہ میں، اُن سب کی یاد میں جو چلے گئے، اُن سب کے لئے جو ابھی جی رہے ہیں اور اُن بچوں کے لیے جنہیں کل ہم نے قربانی کے نام پر یتیم کر دیا۔یہ جان تمہارے حضور، ربّ العالمین۔”
بکرا اب بھی خاموش تھا۔ اُس کی آنکھیں بند تھیں، جیسے اُس نے سب کچھ سُن لیا ہو۔
چھری چلی، خون بہا اور سفیان کی آنکھوں میں ایک سوال تیرنے لگا:
“امی! کیا قربانی صرف جانور کی ہوتی ہے؟”
مریم نے اُسے سینے سے لگایا:
“نہیں بیٹا۔ اصل قربانی وہ ہوتی ہے جو دل سے دی جائے۔ جب تم اپنی انا، اپنی خواہش، اپنا غصّہ…۔۔۔۔۔۔
اور کبھی کبھی اپنا پیار بھی اللہ کے حوالے کر دو۔”
سفیان چپ رہا۔ حذیفہ نے گوشت کی تقسیم شروع کی اور مریم نے وہ گوشت سب سے پہلے اُس بیوہ عورت کے گھر بھجوایا، جو پچھلے مہینے اپنی بیٹی کے علاج کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا چکی تھی۔
شام ڈھلی۔ گلیاں خاموش ہونے لگیں۔ قصائی چلے گئے۔ جانور ذبح ہو چکے تھے، مگر ایک قربانی باقی تھی۔
مریم نے بیڈ کے نیچے سے ایک پرانا تھیلا نکالا۔ اُس میں شوہر کا بوسیدہ کوٹ تھا، کچھ خطوط، اور ایک ڈائری۔
اُس نے بچوں کو سلا کر ڈائری کھولی ۔ آخری صفحے پر لکھا تھا:
“اگر میری زندگی تمہارے لئے بوجھ بن جائے، تو میں راضی ہوں کہ اللہ مجھے اپنے پاس بلا لے۔ لیکن اگر کبھی میری یاد تمہیں ہنسنے سے روکے، تو سمجھ لینا کہ میری قربانی مکمل نہ ہوئی۔ تب ہنسنا، جینا اور بچوں کے ساتھ عید منانا میری حقیقی کامیابی ہوگی۔”
مریم نے ڈائری بند کی، اور آنسو پونچھے۔
وہ آنگن میں آئی۔ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر گوشت بھونا، ہنسی مذاق کیا اور پہلی بار چار سال میں خود بھی ایک نوالہ کھایا۔
عید کی رات تھی۔ چاند آسمان پر چمک رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو
“قربانی مکمل ہوئی۔”
���
اوٹو اہربل کولگام ، کشمیر
[email protected]