مفتی نذیر احمد صوفی القاسمی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے مدینہ پاک ہجرت فرمائی تو آپؐ نے مدینہ پاک کے اندر ہر سال قربانی فرمائی، اس طرح سے اس کا وجوب ثابت ہوا یعنی قربانی کرنا واجب ہے، اس لئے کہ آپؐ نے جس چیز کو بھی مواظبت کے ساتھ فرمایا، شریعت کی نظر میں اس سے وجوب ثابت ہوتاہے۔ لہٰذا قربانی کرنا شریعت کی نظر میں واجب ہے۔
قربانی کی بہت سی فضیلتیں ہیں۔ حدیث پاک میںہے کہ زید بن ارقم ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا، یہ قربانی تمہارے باپ حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا ہمارے لئےاس میں کیا ثواب ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا، ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے اور اون کے متعلق بھی فرمایا کہ اس کے ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔( الحدیث) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالی کو پسند اور محبوب نہیں ہے اور قربانی کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتاہے، وہ گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو جاتا ہے۔( الحدیث )۔اسی طرح قربانی کے نہ کرنے پر آپؐ نے وعید فرمائی ہے۔ چنانچہ آپؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص صاحبِ وسعت ہو، جس شخص پر قربانی واجب ہو اور وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔( الحدیث)۔قربانی ہر اس مسلمان عاقل بالغ مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال موجود ہو۔
چند صورتوں میں قربانی کرنا واجب ہے: اگر کسی شخص نے قربانی کی منت مانی ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے۔اگر کسی شخص نے مرنے سے پہلے قربانی کی وصیت کی ہو اور اتنا مال چھوڑا ہو کہ اس کی تہائی مال سے قربانی کی جا سکے تو اس کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ جس شخص پر زکوۃ واجب ہے، اس شخص پر قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہے ۔البتہ زکوٰۃ اور قربانی میں فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ کے مال پر سال کا گزر جانا لازمی اور ضروری ہےجبکہ قربانی کے لیے مال پر سال کا گزرنا لازمی اور ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص قربانی کے ایام میں ہی صاحب نصاب بن جاتا ہے تو اس پر قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا واجب ہے اور نہ کرنے کی صورت میں گنہگار ہوگا
بکری،بکرا، بھیڑ، دنبہ، گائے ،بیل ،بھینس، بھینسا ،اونٹ، اونٹنی کی قربانی درست ہے، ان کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی درست نہیں ہے ۔بکری، بکرا، بھیڑ ، دُنبہ ان جانوروں کا ایک سال کا ہونا لازمی اور ضروری ہے، البتہ بھیڑ یا دُنبہ اگر چھ مہینے سے زائد کا ہو اور اتنا موٹا تازہ ہو کہ اگر پورے سال والے بھیڑ ،دنبوں کے درمیان چھوڑا جائے تو فرق معلوم نہ ہو تو اس کی قربانی کرنا درست ہے۔ گائے، بیل، بھینس ، بھینسا ان جانوروں کا دو سال کا ہونا یا دو سال سے زیادہ کا ہونا لازمی اور ضروری ہے ورنہ قربانی درست نہ ہوگی۔ اونٹ اور اونٹنی کا پانچ سال کا ہونا یا اس سے زائد کا ہونا لازمی اور ضروری ہے، ورنہ قربانی درست نہ ہوگی۔
جو جانور اندھا ہو یا کانا ہو یا اس کی ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زائد جاتی رہی ہو یا ایک کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو، اُس کی قربانی کرنا درست نہیں ہے ۔
جو جانور اتنا لنگڑا ہو کہ صرف تین پاؤں سے چلتا ہوں ،چوتھا پاؤں زمین پر رکھتا ہی نہیں یا رکھتا توہے مگر اس سے چل نہیں سکتا تو اُس کی قربانی درست نہیں ہے اور اگر چلنے میں چوتھے پاؤں کا سہارا لیتا ہے مگر لنگڑا کر چلتاہے تو اس کی قربانی درست ہے ۔اگر جانور اتنا دُبلا ہو کہ اس کی ہڈیوں میں گودا تک نہ رہا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔ جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا زیادہ دانت جھڑ گئے ہوں، اُس کی قربانی درست نہیں ہے ۔جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں، اس کی قربانی کرنا درست نہیں ہے۔ جس جانور کے پیدائشی طور پر سینگ نہ ہو، اس کی قربانی درست ہے اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گئے تو اگر صرف اوپر سے خول اُترا ہے اندر کا گودا باقی ہے تو قربانی درست ہے اور اگر جڑ ہی سے نکل گئی ہو تو اس کی قربانی کرنا درست نہیں ہے۔ خصی جانور کی قربانی کرنا جائز بلکہ افضل ہے ۔
بقرہ عید کی یعنی ذی الحجہ کی10 تاریخ سے لے کر 12 تاریخ کی شام تک قربانی کا وقت ہے۔ ان دنوں میں جب چاہے قربانی کر سکتا ہے، لیکن پہلا دن افضل ہے، پھر 11 تاریخ پھر 12 تاریخ ۔ قربانی کا گوشت اگر کئی آدمیوں کے درمیان مشترک ہو تو اس کو اٹکل سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے بلکہ خوب احتیاط سے تول کر برابر حصہ کرنا درست ہے۔ ہاں اگر کسی کے حصے میں سر اور پاؤں لگا دیے جائیں تو اس کے وزن کے حصے میں کمی جائز ہے۔ قربانی کا گوشت خود کھائے، دوست احباب میں تقسیم کرے، غریب مسکینوں کو دے۔ بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کریں ایک حصہ اپنے لئے،ایک حصہ دوست احباب اقارب کے لئے اور ایک حصہ ضرورت مند ناداروں میں تقسیم کرے ۔الغرض کم از کم تہائی حصہ خیرات کردے ۔قربانی کی کھال اپنے استعمال کے لیے رکھ سکتاہے، کسی کو ہدیہ بھی کر سکتا ہے لیکن اگر اس کو بیچ دیا تو اس کے پیسے نہ خود استعمال کر سکتا ہے نہ کسی مالدار کو دینا جائز ہے بلکہ کسی غریب پر صدقہ کر دینا واجب ہے۔ قربانی کے دنوں میں جانور قربان کرنا ہی واجب ہے، صدقہ کر دینے سے یہ واجب ادا نہ ہوگا بلکہ ہمیشہ گنہگار رہے گا، کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے جیسے نماز پڑھنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی، زکوۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا، ایسے ہی صدقہ خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی بلکہ صاحب استطاعت پر قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا ہی واجب ہے۔
بعض لوگ یہ کوتاہی کرتے ہیں کہ طاقت نہ ہونے کی باوجود شرم کی وجہ سے قربانی کرتے ہیں کہ لوگ یہ کہیں گے کہ انہوں نے قربانی نہیں کی محض دکھاوے کے لئے قربانی کرنا درست نہیںہے ۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گھر میں ایک قربانی کا ہو جانا کافی ہے، اس لئے لوگ ایسا کرتے ہیں کہ ایک سال اپنی طرف سے قربانی کر لی۔ ایک سال بیوی کی طرف سے کر دی، ایک سال لڑکے کی طرف سے، ایک سال لڑکی کی طرف سے قربانی کی، ایک سال مرحوم والد کی طرف سے، ایک سال مرحومہ والدہ کی طرف سے۔ یاد رکھنا چاہے کہ گھر کے جتنے افراد پر قربانی واجب ہے ان میں سے ہر ایک کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ مثلاً میاں بیوی اگر دونوں صاحب نصاب ہوں تو دونوں کی طرف سے دو قربانیاں لازم ہیں۔ اسی طرح اگر باپ بیٹا دونوں صاحب نصاب ہوں تو ہر ایک کی طرف سے الگ الگ قربانی واجب ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی عمر بھر میں ایک دفعہ کر لینا کافی ہے، یہ خیال بالکل غلط ہے بلکہ جس طرح زکوۃ اور صدقہ فطر ہر سال واجب ہوتاہے، اسی طرح ہر صاحب نصاب پر بھی قربانی ہر سال واجب ہے۔جس شخص پر قربانی واجب ہو ،اس کو اپنی طرف سے قربانی کرنا لازم اور ضروری ہے۔ اگر گنجائش ہو تو مرحومین کی طرف سے بھی قربانی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر خود صاحب نصاب نہیںہے، اس پر قربانی واجب نہیں ہے تو اس کو اختیارہے چاہے اپنی طرف سے کرے یا مرحوم والد یا والدہ یا دیگر مرحومین کی طرف سے کریں تو اس کو اختیار ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو ان چیزوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
[email protected]