قیصر محمود
عید الا ضحی کا تہوار مذہبی سے زیادہ سماجی و روایتی صورتِ حال اختیار کر تا جا رہا ہے ۔ ہم قربانی کے اصل فلسفے اور تعلیم کو بھولتے جا رہے ہیں ، جس کی وجہ سے اس میں خود نمائی ، بڑائی ، تکبر و دکھاوا، نمود و نمائش ، لوٹ کھسوٹ اور دھوکہ دہی کا عنصر شامل ہو گیا ہے ۔
یہ ہمارے معاشرتی زندگی کی ایک تلخ سچائی بن گئی ہے کہ اب زیادہ تر قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت کے بٹنے تک نمائش ہی نمائش ہو تی ہے ۔ قربانی کا تو فلسفہ ہی الگ ہے ۔اپنے ربّ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری اور پسندیدہ چیز بغیر کسی لالچ کےکسی مجبور اور بے کس انسان کو سونپ دینے کوہی قربانی کہتے ہیں ۔جبکہ آج بڑے لوگوں کے گھروں میں قربانیاں نہیں جا نوروں کے حصے بخرے ہو تے ہیں ، جانور کی گر دن پر چھُری پھیری، بکرے کے چار پانچ حصے کئے اور یہ ران تو بیٹی کے سسرال جا ئے گی ، یہ ران خواجہ صاحب کے گھر جا ئے گی یہ حصہ ملک صاحب کے لئے مخصوص ہے اورباقی اپنے لئےفرج میں رکھ لی۔اس طرح بکر ا تو بٹ گیا ذاتوں پاتوں میں اور بس یہ ہے قربانی۔
آج کل تو قربانی بھی فیشن کی صورت اختیار کر گئی ہے کہ جس طرح لوگ اپنے ہم سائے کے ساتھ دیگر چیزوں میں بھی مقابلے کی فضا قائم رکھتے ہیں جیسے گاڑیوں کے برانڈ کا مقابلہ ہو تا ہے ، اسی طرح قربانی کے جانوروں کا بھی گویا مقابلہ ہو تا نظر آتا ہے ۔ بیل اور بکرے کی سجاوٹ دیکھ کر تو کہیں کہیں ان کے مقابلہ حسن کا بھی گمان ہو تا ہے ۔ بہت سے لوگ تو صرف دکھاوے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مہنگا جانور خریدتے ہیں،تاکہ لوگ ان کے ذوق کی داد دیں ۔ قربانی کی آڑ میں ایسے لوگوں کا مقصد صرف عزیز و اقارب، دوستوں ، محلے داروں میں صرف اپنی دولت کی نمائش کر نا ہو تا ہے ۔اب زیادہ تر لوگوں کے نزدیک قربانی کا مقصد محض ’’ دکھاوا‘‘ رہ گیا ہے۔ زیادہ تر لوگ قربانی کے جانور اس وقت خریدتے ہیں ،جب عید قرباں میں دو ایک دن باقی رہ جا تے ہیں ۔ ادھر تقریباً دو تین دہائی سے کچھ ادارے اور تنظیمیں وجود میں آ گئیں ہیں جو بقر عید کے موقع پر حصے والی قربانی کرواتی ہیں ۔ ۲ ہزار یا ۳ ہزار کی رقم فلا ں ادارہ اور فلا ں تنظیم کو دیں اور اپنے حصے کی گوشت لے لیں ۔ قربانی دینے والوں کو تول کر گوشت نہیں دیا جا تا جبکہ حکم ہے کہ حصہ تول کر یعنی وزن کر کے لگایا جا ئے ۔ اسی طرح حکم ہے کہ جس کے نام سے قربانی ہو ،وہ خود اپنے ہاتھوں سے جانور ذبح کرے، اگر نہیں کر سکتا تو کم از کم ذبح کر نے والے کے پاس کھڑا رہے۔ لیکن یہاں تو قربانی کر نے والے ذبح کر تے وقت جانور کے پاس کھڑے کیا ہو نگے ، انہوں نے تو جانور کی شکل تک نہیں دیکھی کہ وہ دُبلی ہے یا موٹی ، بیمار ہے یا کمزور ، عیب دار ہے یا بے عیب ، جانور سے نہ کوئی محبت نہ کوئی لگائو ۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ جانور کی نہیں بلکہ اپنے پیسے کی قربانی دیتے ہیں ۔ بہت سے لوگ تو ایسے بھی ہیں جو کبھی نماز نہیں پڑھتے، روزہ رکھنے میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں ، صاحبِ استطاعت ہو تے ہو ئے بھی حج پر نہیں جا تے ، صاحبِ نصاب ہوکر بھی آدھی سے زائد زکوٰۃ کی رقم خود کھا جا تے ہیں ، پڑوسیوں کا خیال نہیں کر تے ، حاجت مندوں کی حاجت پوری نہیں کر تے ، لیکن عید قرباں کے موقع پر لمبی چوڑی جانور لا کر لوگوں کو دکھا تے ہیں کہ دیکھو آج ہم اللہ کی راہ میں قربانی دینے کیلئے ہزاروں روپئے کا جانور لایا ہوں ۔ ماضی میں بڑے بزرگ لوگ ایسا نہیں کر تے تھے بلکہ وہ پورا سال جانوروں کو پالتے تھے ، جوں جوں عید قرباں قریب آتی اُن پر خاص تو جہ دی جا تی ، عید سے قبل رات کو بکروں کو مہندی لگائی جا تی ، انہیں سجایا جا تا تھا ، پورا سال خدمت کر نے کے بعد جب وہ اچھے خاصے موٹے تازے ہو جا تے تھے انہیں عید قرباں کے موقع پر قربان کر دیتے تھے کیونکہ یہ عید قرباں ہمیں ہر قسم کی قربانی کا درس دیتی ہے ۔
اس جدید دور میں ہم سنت ابراہیمی ؑ توپوری کر لیتے ہیںلیکن اس بات کو بھول جا تے ہیں کہ قربانی کس طرح کر نی چاہئے ۔ اگر قربانی کر تے وقت ہمارا مقصد محض اللہ کی خوش نودی اور اجر و ثواب کا حصول ہے تو اس کا صلہ ملے گا ۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی دولت کی نمائش اور دوسروں کی غرض سے قربانی دیتا ہے تو اس کا کچھ صلہ نہ ملے گا ۔ کیونکہ ہمارے مذہب اسلام کی تاریخ تو شروع سے ہی قربانیوں سے مزین ہے ، کبھی حضرت ابراہیم ؑ کی اپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلانے کی قربانی تو کبھی کربلا کے میدان میں اسلام کے لئے سر کٹانے کی قربانی ۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمیں نہ تو مذہب کا لحاظ رہا اور نہ ہی خوف خدا۔ آج ہمسائے تو دور ایک ہی گھر میں رہنے والے ایک دوسرے کی ضرورتوں سے آگاہ نہیں ہو تے ، ایسے میں کیا توقع کریں کہ قربانی کا گوشت پوری ایمانداری سے رشتہ داروں ، اہل و عیال ، ہم سائیوں میں برابر تقسیم ہو گا ۔
اسلام اپنے ماننے والوں سے جس بے غرضی کا مطالبہ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے کسی بھی عمل کے بدلے کسی سے امید نہ لگائے ، یا وہ کام اس لئے نہ کر ے کہ اس سے کوئی د نیوی فائدہ ہو بلکہ اس کا ہر کام انسان نہیں بلکہ ربّ کی رضا کے لئے ہو نا چاہئے ۔ اسلام کے تصور بے غرض کی پہلی تو خصوصیت ہے کہ انسان اپنے نیک عمل کے ذریعے اپنے رب کا قرب حاصل کر نے کی کوشش کر تا ہے ۔ اسلام کہتا ہے کہ اگر رب کا قرب چاہتے ہو تو بھوکوں کو کھانا کھلائو ، بے ستروں کی ستر پوشی کرو ، لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرو ، خیر خواہی کرو ، لوگوں کی فلاح کے لئے کام کرو ، نرم خوئی ، میانہ روی و عاجزی اختیار کرو ، لوگوں میں صلح کرائو، انسانوں کے آپسی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرو ، غریب بچیوں کی شادی کے لئے انتظامات کر و، یتیموں کی کفالت کرو ، بیوائوں کی خبر گیری کرو، کسی کی حق تلفی نہ کرو ، کسی کو جسمانی و ذہنی اذیت نہ پہنچائو ، کسی کی عزت سے نہ کھیلو، عیب جوئی نہ کرو ،الغرض یہ اور ان جیسے دیگر کام جہاں رب کی رضا کا باعث بن رہے ہو تے ہیں وہیں معاشرے کی بہتری کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ۔ یہ تمام خیر کام اللہ کے خلیل سیدنا ابراھیم ؑ نے کئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے خیر کے تمام کاموں کو انسانوں کے لئے سنت بنا دیا ۔
قربانی کا مقصد بے غرضی ہے ،جس طرح انسان قربانی کر کے کسی انسان سے کوئی بدلہ یا معاوضہ نہیں چاہنا بلکہ اس قربانی کا گوشت انسانوں میں بخوشی تقسیم کر نا ہے ، اسی طرح انسان کے دیگر تمام اعمال بھی اسی فارمولے کے مطابق ہو، پھر دیکھیں کہ ربّ کیسے راضی ہو تا ہے ۔ ربّ کی پیدا کر دہ مخلوق کو راضی کر لو، ربّ خود بخود راضی ہو جا ئے گا ۔ لیکن ہمیں تو اہل مغرب میں ہر بُرائی نظر آتی ہے لیکن اہل مغرب کے حقوق العباد کی وہ پاسداری نظر نہیں آتی جو اسلام نے بتائی ہے ۔ اہل مغرب بے شک مسلمان نہ سہی لیکن ان لوگوں نے حقوق العباد کو بنیاد بنا یا اور ایک ہم ہیں کو ہم نے ان کی عادتوں کو اپنا یا ضرور لیکن صرف ضرورتوں کے لئے ۔ خدارا یہ زندگی چند روزہ ہے اپنے آپ سے باہر نکلیں ، قربانی ضرور کریں لیکن نمائش کے لئے نہیں ، گوشت کے حصول کے لئے نہیں صرف اور صرف خالصتاً اپنے ربّ کی رضاکے لئے کریں ۔
(رابطہ۔6291697668)