عید الاضحی کی آمد میمون میں اب چند ہی دن باقی ہیں ،خاک و خون میں ڈوبا عالم ِاسلام اگرچہ زخموں سے کراہ رہا ہے لیکن سالانہ گردش کے ساتھ عید قربان کی آمد ملت اسلامیہ کے تن ِمضمحل میں نئی جان پھونک دیتی ہے اور اُس مردِ جلیل و جمیل۔۔۔ ابولانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔۔۔کی یاد اس مناسبت سے کچھ تازہ ہوجاتی ہے جس کی راہِ حق میں قربانیوں کے چرچے تا قیام قیامت ہوتے رہیں گے ۔عراق کے شہر اُرؔ میں ایک بُت گر و بُت ساز اوربُت پرست وبُت فروش کے گھر میں پیدا ہونے والے ابراہیم ؑ نے سن ِشعور میں آفتاب و ماہتاب، نجوم و کواکب اور دیگر ہزاروں معبودانِ باطل کے آگے سجدہ ریز ہونے والے معاشرے اوراصنام پرست سماجی نظام کے خلاف توحید کی جوت جگاتے ہوئے یکہ و تنہا علم ِبغاوت بلند کیا تو آپ ؑ کا خاندان ، اقرباء و اغرہ ،معاشرہ و سماج، غرض ساری دنیا آپ ؑ کے درپے ٔ آزار ہو گئی ۔ آپ ؑ نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے توحید کا پھیریرا لہرایا اور شان ِ بے نیازی سے ظلم و ستم کا ہر وار سینہ تانے سہا مگرنورِ توحید گھٹاٹوپ اندھیرے میںپھیلانے سے دم بھر کے لئے بھی اپنے مبارک قدم روکے نہ مبارک زبان بندکی ۔ تبلیغ ِ حق کا یہ کام گویا وقت کے ظالم ترین چیل کوؤں گِد ھوں کو اپنے اوپر پل پڑنے کی دعوت دینے کے برابر تھا مگر آپ ؑ کی پیغمبرانہ سیرت کا اُ جالا کم ہوا نہ قدم مبارک لرزیدہ ہوئے ۔ آپ ؑ کا باپ بتوں کو چھوڑ کر اللہ کے دامنِ تو حید میں آ باد ہونے کے توحیدی مشن پر برہم اوربر افروختہ ہوا ،تو اُسے سمجھانے کے لئے آپ ؑ نے کتنا حکیمانہ اور داعیانہ اسلوب ِ کلام اختیار کیا ،ادب و احترام کے تمام پہلوؤں کو ملحوظِ نگاہ رکھ کے اس کی نصیحت وفہمائش کی لیکن باپ کے دل کا زنگ تھا کہ کافور ہی نہ ہوا ۔ آپ ؑ دُکھ اور افسوس کے باوجود پُر وقار طریقے پر اپنے بُت پرست باپ سے اعراض کر گئے ۔معاشرہ آپؑ کے خلاف سر اپا آگ بگولہ ہوا ،کڑوے کسیلے جملے کسے،پھبتیاں دیں ،طعنوں کی برسات کی ،دل آزاریاں کیں ،طنز و استہزا ء کے تیرو نشتر چلائے لیکن اللہ کی محبت میں مست و محو اولوالعزم پیغمبر ؑ کسی کی گالی اور دشنام سے قطعی حوصلہ ہار نہ بیٹھا اور لومتہ لائم کی پرواہ کئے بغیرہر گلی کوچے یہی صدائے حق دیتے رہے کہ میں نے یکسوئی کے ساتھ ہر مخلوق سے منہ موڑ کر زمین و آسمان کے خالق و مالک کی جانب اپنا رُخ کردیا ہے اور اس رُخ (توحید) کی سمت ساری دنیا ایک ہوکر بھی تبدیل نہیں کرسکتی۔ چشم ِفلک نے دیکھ لیا کہ آپ ؑ کے اعلانِ حق اور تبلیغ وحدانیت سے نمرودی اقتدا رکی جبین پر بھی بل بھی پڑگئے مگر آپ ؑ کی جانب سے توحید کی نغمہ سرائی میں کوئی بالشت برابرفرق واقع نہ ہوا ، حتیٰ کہ نار ِنمرود میں جھونک دئے جانے کا ہوش رُبا حکم نامہ ایوانِ اقتدار سے صادر ہوا ، پھر بھی آپ ؑ نے خندہ پیشانی سے اس سزا ئے سخت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ پورے وقار واطمینان کے ساتھ دھکتی آگ میں جھلس جانا گوارا کیا لیکن دعوتِ تو حید سے منہ موڑنا تسلیم نہ کیا ۔ اللہ کا یہ بر گزیدہ پیغمبرتوحید باری کا پرچم پورے قد کے ساتھ بلند کرتے ہوئے اورنماردکی خدائی اور آقائیت کو نکارتے ہوئے آگ میں کود بھی گئے مگر کفر اور شرک کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔
اللہ کی شان ِکریمی دیکھئے کہ آتش ِنمرود اپنی تمام جان لیواخاصیتیں یکسر کھوگئی اور اللہ کے اذن سے یہ خلیل اللہ ؑ کو کوئی گزند پہنچاننے کے بجائے آ پ ؑ کے لئے گل وگلزار ہوگئی کہ آں جناب ؑ اوسان خطا کر نے والی آگ کی لپٹوں سے پوری تعظیم و تکریم اور آرام وراحت کے ساتھ صحیح و سالم نکلے ۔دنیا حیرت زدہ تو ہوئی لیکن زنگ آلودہ دلوں کو ہدایت کے لئے کھلنا مقدرنہ تھا اس لئے یہ معجزہ نمائی دیکھ کربھی آپ ؑکے خلاف آمادۂ پیکار ہی رہے۔ حضرت ابراہیم ؑ’’میری نماز ،میری قربانی ،میرا جینا مرنا صرف اللہ کے لئے‘‘ کا اعلان شرکیہ فضا میں فرما چکے تھے، مگر تادیر کوششوں کے باوجود جب غرق وطن ِمالوف کی زمین کو تبلیغ ِحق کے لئے بنجر پا یا، تو توحید کی دعوت اوروں تک پہنچاننے کے لئے وطن سے بلاتامل ہجرت کر گئے تاکہ اسلام کا جھنڈا وہاں گاڑ دیں ۔ فلسطین ،مصر ،شام ،اردن کی خاک چھانی ، ہر جگہ لا الہ الااللہ کا نعرہ مستانۂ ہی آپ ؑ کا اوڑھنا بچھونا بنا رہا ۔عمر رسیدگی کے ایام میں خالق ِکا ئنات نے حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسا حسین و جمیل بیٹاعطا کیا ۔ وہ جوان ہوا تو بزرگ باپ کی اب تک کی بیش بہا قربانیوں اور آزمائشوں کا نکتہ ٔ عروج آگیا۔ اللہ جل شانہ نے اپنے عظیم المر تبت پیغمبر کی شانِ علویت اور کاملاً فنا فی اللہ ہونے کا جلوہ عالم ِ انسانیت کو دکھانے کے لئے آپ ؑسے کہا کہ اپنے لاڈلے فرزند ارجمند ۔۔۔ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ؑ ۔۔۔ کو میری خوشنودی میں قربان کر دکھا ؤ۔ اس حکم ِخداوندی سے پہاڑوں کے دل پسیج گئے ہوں گے ، شجر و حجر کانپ اُٹھے ہوں گے، عرش وفرش مغموم ہوا ہوگالیکن صبر و ایثار کے اس پیکر نے اپنے فرمان بردار لاڈلے کو اللہ کاحکم سنایا تو نہ زبان حق بیان میں لکنت تھی نہ چشمان مبارک میں آنسو ، اللہ کے حکم پر دل مبارک مطمئن وشاداں تھا۔بیٹا بھی اسی پیغمبرانہ تربیت کا پروردہ تھا ، بلا کسی ہچکچاہٹ کے اللہ کے حضور اپنے وجودِ مسعود کو خوشی خوشی پیش کر گیا ۔ عظیم باپ نے عظیم بیٹے کے حلقوم پر چھری رکھ لی اور کہا میراہی ہے کیامولا! یہ تیری ہی امانت ہے، تجھے ہی لوٹارہاہوں۔ بوڑھے باپ کا حکم ِخداوندی کی تعمیل میں لبیک اور سعادت مند بیٹے کی اطاعت ِکلی کی یہ لافانی مثال اب تک دنیا ئے دوں کی نگاہوں سے گزری ہی نہ تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ نبض ِ کائنات رُک گئی ہے ، حجر و شجر اور جن وملائکہ حیران وششدر ہیں۔خالقِ کائنات کو یہ اندازِ محبت واطاعت شعاری اس قدر بھایا کہ آپ ؑ کو اپنے مقدس ہاتھ روکنے کا حکم دیا ،سند ِکامرانی عطا ہوئی، عالم ِانسانیت کی امامت تفویض ہوئی اور ایک جانور کی قربانی کا ارشاد ہوا۔
قربانی کا یہی سلسلہ ساڑھے پانچ ہزار برس سے ملت براہیمؑ میں متواتر چل رہا ہے ۔ اللہ کے حضو ر ہر چیز قربان کر نے کی اس دائے دلبرانہ میں نبی ٔ رحمت صلی ا للہ علیہ وسلم نے نئی جان ڈال دی ۔اب یہ مسنون عمل پورے تسلسل کے ساتھ امت اسلامیہ میں چودہ سوسال سے جاری وساری ہے ۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانیوں کے بارے میں جب سوال کیا گیا توجواب ملا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے ۔جواب مختصر ہے مگر اپنے اندر جامعیت کی وسعتیں لئے ۔ عید قربان کے موقع پر جانوروں کی یہ قربانیاں دراصل اس امر پر دلالت کر تی ہیں کہ ہم جی جان سے اللہ پر قربان ہیں اورجانور کے حلقوم پر چھری رکھ کر ہم گویا اعلان کر تے ہیں کہ ہم قربانی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مقدس دین پر اُسی کے بتلائے اصولوں کے تحت ہمہ وقت عمل پیرا ہیں اوراپنی ذات سے لے کر دنیا تک پر توحید کا رنگ جمانے اور اسے فروغ دینے میں ہر قسم کی قربانی و ایثار کے لئے تیار ہیں ۔ پس قربانیوں کا یہ پسندیدہ عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ عمل تقویٰ سے لبریز ہو ،اس میں للٰہیت ہو، دکھاوے ، نمود و نمائش یا ریاء کا معمولی سا شائبہ بھی نہ ہو ۔ریا کاری اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے ، چونکہ ریا کا مقصد ہی دوسرے کو خوش کرنا یا اُس کی نگاہوں میں اپنے کو پارسا یا پسندیدہ بنا ناہوتا ہے، اس لئے قرآن و سنت نے اسے شرک کے زمرے میں شامل کیا ہے۔زبان رسالت مآب ؐ سے نکلے مقدس الفاظ میں ریا ایسا ہی ہے جیسے سیا ہ را ت میں سیاہ چٹان پر ایک سیاہ چیونٹی رینگ رہی ہو ۔ظاہر ہے یہ دِکھے گی نہیں، اسی طرح ریا بھی اندر ہی اندر انسانی عبادات و خلوص کے محل کودھڑام سے گرا دیتا ہے اور کسی ریاکار کو اس کاپتہ بھی نہیں چلتا ۔ عید الاضحیٰ کے موقع پرقربانیاں جی جان سے دی جائیں ، ایک یا ایک سے زائد جانور کی جتنی چاہے دے دیں لیکن للٰہیت مقصود ہو،سگے سمبندھیوں کی خوشی ملحوظِ نگاہ نہ ہو ،معاشرہ میں ناک اونچی دکھانا مطلوب نہ ہو۔ یہ خیال کہ زید نے دو قربانیاںدیںتو بکر بھی اس نیت سے زیادہ جانوروں کی قربانیاںدے کہ اس سے میری امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کا زیادہ اظہار ہو گا تو سمجھ لیجئے کہ قربانی اکارت گئی کیونکہ یہ للہ نہیں بلکہ للناس(یعنی لوگوں کے لئے) ہو کے رہ گئی۔ یہاں یہ حدیث بھی مدنظر رہے کہ میزبان رسول ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے سوال کیا گیا کہ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں قربانیوں کا کیا حال تھا ؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ عہد نبوی ﷺ میں ایک آدمی بکری اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی دیتا تھا، گوشت کھاتا اور کبھی اوروں کو کھلاتا ، یہاں تک کہ فخر و مباہات شروع ہوگیا، جیسے تم دیکھ رہے ہو[صحیح ابن ماجہ:2583 ]۔سیدنا ایوب انصاری ؓ نے عہد نبویؐ کے حوالے سے گفتگو فرمائی ہے ،لیکن آج کوئی ایک سے زائد قربانیاں دے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ حجۃ الوداع کے دن آپ ﷺ نے از خود 63؍عدد اونٹ اور باقی حضرت علیؓ سے ذبح کرواکر سو کا ہندسہ پورا فرمایا ۔ اس لئے ایک سے زیادہ قربانیوں پر کوئی روک ٹوک نہیں لیکن بالفرض ا س سے اگر فخر و مباحات ، نمود و نمائش، اقرباء کی تحسین مقصودہو یا بڑا آدمی کہلانے کا شوق پوراکرناہو تو پھر قربانی کرنے کا یہ خیال اسلامی تعلیمات وشریعت کے منافی ہوگا۔ ایک سے زیادہ قربانیاں دُرست لیکن کیا سال بھر نفلی صدقات کرنے پر بھی کمر بستہ رہئے؟ خود سے پوچھئے کیا میں نے اپنے اموال کی پوری زکوٰۃ ادا کی؟ اس کا حساب کتاب بھی کرنا ہوگا۔
یہا ں اب ایک نیا سلسلہ یہ چل پڑا ہے کہ قربانی کے جانوروں کے ساتھ سیلفیاں لی جارہی ہیں اور ان تصاویر کو وائرل کیا جاتاہے ۔کہاںوہ سن ِ رسیدہ خدا کے پیغمبر ؑ کااپنے لاڈلے کو راہِ حق میں قربان کرنے پر آمادگی اور لاثانی ایثار اوراس عمل کی قبولیت کے لئے اللہ کے حضور نم دیدگی اور کہاں آج کل اس عظیم عمل کو بھی تماشا بنانے کی کج ادائیاں ؟؟؟نہ دلوں میں کوئی اثر ،نہ فلسفۂ قربانی کے فہم سے وجود کے روں رواںپر کوئی کپکپاہٹ، نہ حصولِ تقویٰ کے لئے سنجیدگی نہ شریعت اسلامی اپنانے کا شوق۔اللہ بچائے، ہم خود ہی فیصلہ کریں کہیں ہم بھی جانے انجانے مرض ِریا میں مبتلا تو نہیں ؟اگر خدانخواستہ ایسا ہے تو پھر ہمیں توبہ و اصلاح کی فوری ضرورت ہے ۔خالقِ کائنات نے تو خود فرمایا کہ جانور کا گوشت اور خون تومیرے یہاں نہیں پہنچتا، مجھے صرف بندوں کا تقویٰ مقصود ہے ۔۔۔یعنی کیا دل کی دنیا راہ ِحق میں ہر قربانی دینے کے لئے آمادہ ہے ؟ کیا’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘ کا تصور قلوب واذہان میںجاگزیں ہوا ہے ؟ دل کا بدلنا ہی تو مقصود اصلی ہے ۔زبان رسالت مآبؐکے یہ الفاظ بار بار سنتے اور پڑھتے ہیں کہ تمہارے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، یہ صحیح و سالم ہے تو سارا وجود صحیح و سالم ہے ،یہ بگڑ گیا تو وجود بگڑکے رہ گیا ۔
حضرت عمر ؓ نے دیکھا کہ ایک شخص گردن جھکائے بیٹھا ہے، گویا یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ’’میں بڑاپارسا ہوں‘‘۔سیدنا عمر ؓ نے فرمایا :اے ٹیڑھی گردن وا لے!اپنی گردن کو سیدھا کرلے کہ خشوع و خضوع کا مقام دل ہے نہ کہ گردن۔حضرت ابو امامہ ؓ نے ایک شخص کو مسجد میں بحالت ِسجدہ روئے اور گڑ گڑاتے ہوئے دیکھ لیاتو فرمایا:اے نیک بخت !یہ جو کچھ تو لوگوں کے سامنے مسجد میں کررہا ہے ،اگر اپنے گھر میں کرلیتا تو تیرا جواب ہی نہ تھا (یعنی تو انمول بن جاتا )۔ کسی شخص نے حضرت سید بن مسیب ؓ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور ثواب حاصل کرنے کے لئے اور لوگوں سے اپنے لئے تعریفیں وصول کرنے، صدقہ و خیرات کرنے والے شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ ؓ نے فرمایا:کہ اسے جو کچھ کرنا ہے صرف اللہ کے لئے کرے ،یہ اللہ اور مخلوق دونوں کو یک جا کرنا کیسا ؟سیدنا علی ؓ نے ریا کار کی تین نشانیاں بیان فرمائیں:(۱) تنہائی میں سست ہوتا ہے (۲)لوگوں کو دیکھ کر خواہ مخواہ مسکراتا اور خوش ہوتا ہے (۳) اپنی تعریف سن کر زیادہ عمل کرتا ہے اور بُرائی سن کر کم عمل کرتا ہے ۔قربانیوں کے حوالے سے ایک تکلیف دہ امر یہ بھی ہے کہ بہت سارے لوگ قربانیاں کرنے کے بعد جانوروں کا فضلہ او راوجڑی وغیرہ بیچ چوراہوں ، دوراہوں ، گلیوں کوچوں ،سٹرکوں یہاں تک کہ ہمسایوں کے دروازوں کے عین سامنے ڈال دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ یہ کس قدر غیر سنجیدگی کا اظہار ہے اور قربانی کے تصور سے یہ فعل کس درجہ متصادم ہے ؟اس انہونے طرز عمل سے ماحولیاتی کثافت بڑھ جاتی ہے جو انسانیت کے لئے بہت تکلیف دہ بات ہے ۔ نیز ہمسایوں کو خواہ مخواہ اذیت دینا شریعت میں ایک سنگین جرم ہے۔ اس لئے قربانی کے موقع پر ان عادات ِ قبیحہ سے پرہیز کیجئے اور قربانی کے جانوروں کے غیر ضروری مواد کو ہر حال میں کسی محفوظ مقام پر ٹھکانے لگاکر اپنی قربانی کی خود قدر کیجئے۔
معزز قارئین ! اللہ تبارک تعالیٰ کو تمام عبادات میں اخلاص مطلوب ہے ،اعمال میںتھوڑی بہت بھی من مانی یاریا کاری گھس جائے تو ان کا اجر وثواب بلا شبہ زائل ہوکر رہ جاتاہے۔آج جب ہمیں پھر ایک بار اللہ کی بارگاہ میں جانور کی قربانیاں دینے کا زریںموقع فراہم ہورہا ہے،آیئے ہم اس مسنون عمل کی رَگ رَگ میں اخلاص، خدا ترسی ، سنجیدگی ، متانت ، نیک نیتی اور شریعت کی پابندی کی شرینی بھردیں ۔ ہمارا مقصد وحیدتقویٰ کا حصول ہو اور راہِ حق میں ہمہ وقت مستعد رہنے کا عزم بالجزم ہو۔ ہم سب یہ بات بھی اپنی گرہ میں باندھ لیں کہ قربانی کے جانوروں کو مہندی لگانا ،پھر اُن کے سامنے اسبند جلانا ،مبارک سلامت کی صدائیں بلند کرنا ،یہ سب ہمارے اپنے بنائے ہوئے اسالیب ہیں جن کی کوئی شرعی سند نہیں۔ اسی طرح قربانی دیتے وقت مختلف پوز بنا کر تصویریں بنانا اور پھر انہیں وائرل کرنا ہماری کج فہمی کی دلیل اور روحِ دین سے نابلد ہونے کا کھلا اظہار ہے ۔آیئے آج ہم قربانی کا فلسفہ اپنی روح میں پیوست کر کے اس باب میں شریعت اسلامی کا پابند رہنے کا نیا عہد کریں اور عملاً اس بات کا اعلان کریں’’ میری نماز ، میری قربانی ،میرا جینا مرنا ،بس اللہ کے لئے ہے ‘‘۔ایسا کرنے میں ہم کامیاب ہوئے تو زندگی کی ہر کامیابی ہماری دہلیز پر ڈیرہ ڈالے گی ۔اختتام اس دعا کے ساتھ کہ اے اللہ! ہمیں ہر جھوٹ،شرک اور رِیا سے محفوظ و مامون رکھ ۔آمین
94190803076