قرآن کریم وہ کتاب ہے جس سے کبھی بھی ہم بے نیازنہیں ہوسکتے۔ ابتدائے اسلام ہی سے اس کی افہام وتفہیم اوراس میں غوروفکر کا ایک طویل سلسلہ قائم ہے۔ ہرفرد اورہرگروہ نے اپنے ظرف اوراپنی صلاحیتوں کے مطابق اس صحیفہ ربانی کوسمجھنے کی کوشش کی۔ قرآن فہمی سے بے اعتنائی اورغفلت سنگین قسم کاجرم ہے۔ قرآن کوجب تک خاص اس کی اپنی روح اوراپنے مفہوم کے ساتھ نہ سمجھاجائے،حق وانصاف پرقائم رہناحددرجہ مشکل ہے۔ قرآن، علم ، تفقّہ، تعقّل، تذکراورتدبر وتفکر پرزوردیتاہے اورہم نے ان سب کی راہیں مسدودکردیں۔فکری وعلمی ارتقاء پرروک لگادی۔
حق کاسب سے بڑاحق یہ ہے کہ اسے سمجھاجائے اوراس کی روشنی میں اپنے فکروعمل کامحاسبہ کیاجائے۔ قرآن فہمی کی راہ میں مختلف قسم کی رکاوٹیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے پوراپورافائدہ اٹھاناآسان نہیں رہا۔ تفسیری روایات واقوال قرآن کی تفہیم وتفسیر میں بجائے معاون ہونے کے بالعموم ہمیں قرآن کے اصل مطالب ومقاصد سے دورکردیتے ہیں۔ (قرآنی مباحث از مولانامحمدفاروق خان۔ص۱۹)
تفسیرکے قطعی اصول چاربتائے جاتے ہیں۔ بطوراصول ان کوالگ الگ بیان کیاجاتاہے لیکن قرآن کی تفسیرکرتے ہوئے ایک ساتھ استعمال ہوں گے ۔پہلااصول یہ ہے کہ تفسیرکااول ماخذاس زبان کوبنایاجائے جس زبان میں قرآن مجیدنازل ہواہے۔ اس سے عام عربی زبان مرادنہیں ہے جوفی الوقت عام طورپرلکھی اوربولی جاتی ہے بلکہ امراء القیس،لبید،زہیر،عمروبن کلثوم اورحارث بن حلذہ اورعرب کے خطبائے جاہلیت کے کلام کی طرف رجوع کرناپڑے گا۔جس کی طرف حضرت عمرؓنے بھی ایک دفعہ" علیکْم باالدّیوان"کہہ کراشارہ کیاتھا۔ دریافت کرنے پرامیرالمومنین ؓ نے فرمایا ’"الشّعِرْ الجاھلیۃ "یعنی قرآن کی تفہیم کے لئے دورجہالت کے کلام (اشعار) سے مددلو۔اس کلام کی اتنی مہارت پہنچائے کہ اس کے اسالیب ومحاورات کواچھی طرح سمجھ سکیں، اس کے حسن وقبح کومعین کرسکیں، اس کی تلمیحات واشارات سے محظوظ ہوسکیں۔
قرآن مجیدکوسمجھنے میں دوسری چیزجس کااہتمام ناگزیزہے اورصحیح تاویل کے تعین میں ایک فیصلہ کن عامل ہے،وہ کلام کانظم ہے۔ نظم کامطلب یہ ہے کہ ہرسورہ کاایک خاص عمود یاموضوع ہوتاہے۔ سورہ کے باربارمطالعہ سے جب سورہ کاعمودواضح ہوجاتاہے اورسورہ کی آیات کاتعلق بھی اس عمودکے سامنے آجاتاہے تو پوری سورۃ متفرق آیات کاایک مجموعہ ہونے کے بجائے ایک نہایت حسین وحدت بن جاتی ہے۔قرآن کااعجاز اس کے معارف اورحکم ہی پرقائم نہیں ہے بلکہ اپنے ادبی محاسن کے لحاظ سے بھی اسے وہ اعجاز حاصل ہے جوکسی کلام کومیسر نہیں۔ قرآن ایک مربوط ومنظم کلام ہے۔ اس کے نظم کلام میں غوروفکر اورتدبربندے کے لئے ایک بڑی سعادت کی بات ہے۔ قرآن کے منظم ومربوط کلام ہونے سے انکارخوداپنی کوتاہی فکروفہم اورکم ظرفی کی بات ہوگی۔( قرآنی مباحث۔ص۱۴)
قرآن مجید کوسمجھنے کے لئے اس نظم کوسمجھنا اولین چیز ہے۔سورہ کی قدروقیمت ،حکمت اورمتفرق آیات کی صحیح تاویل تبھی متعین ہوتی ہے۔لیکن یہ چیز نہایت مشکل ہے، اس وجہ سے مفسرین نے اس کی طرف بہت کم توجہ کی ہے۔قرآن مجید میں نظم کادعویٰ کرنے والے اہل علم صرف موجودہ زمانہ میں ظہور میں نہیں آئے ہیں بلکہ سلف میں بھی کچھ علماء نے اس کادعویٰ کیاہے اوربعض نے نظم قرآن پرکتابیں بھی لکھی ہیں۔چنانچہ غلام سیوطیؒ ’ الاتقان ‘ میں رقمطرازہیں:’’علامہ ابوجعفر بن زبیرشیخ ابوحیان نے نظم قرآن پرایک خاص کتاب لکھی اوراس کانام ’البرہان فی مناسبۃ ترتیب سورالقرآن ‘‘ رکھا اورہمارے ہم عصروں میں سے شیخ برہان الدین بقاعی کی تفسیر’’نظم الدّررفی تناسب الآی والسّور‘ بھی اسی اصول پرلکھی گئی ہے‘‘۔ (ص۶۷۹)
علامہ سیوطیؒ ،امام رازی ؒ اورعلامہ مخدوم مہائمیؒوغیرہ نے اپنی کوشش کی حدتک آیات قرآن کانظم بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ثابت ہواکہ قرآن مجید میں نظم قرآن کے قائل صرف مولاناحمیدالدین فراہیؒیاان کے تلامذہ ہی نہیں ہیں بلکہ ان سے قبل دوسرے علماء نے بھی اس چیز کومحسوس کیاہے اوراس کی شہادت دی ہے۔
تفسیرکاتیسراقطعی اصول یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر خودقرآن سے کی جائے۔ تفسیرقرآن کاموزون ترین طریقہ یہی ہے۔ چنانچہ ہمیں قرآن میں جب کہیں عام مطلق یامجمل آیت ملتی ہے تودوسری جگہ اس کی تخصیص یاتفصیل مرکوزہوتی ہے۔ کوئی بات صرف دعویٰ کی شکل میں آتی ہے، کہیں دلیل کے ساتھ۔ ایک ہی بات کے اتنے گوناگوں پہلووں سے آنے کاسب سے بڑافائدہ یہ ہے کہ ایک بات اگرایک جگہ سمجھ میں نہ آئی،تودوسری یاتیسری جگہ سمجھ میں آجاتی ہے اوراگرایک جگہ اس کاپہلوواضح ہونے سے رہ گیا ہوتودوسری جگہ کسی اورسیاق میں وہ ضرورواضح ہوجاتا ہے۔اس وجہ سے قرآن کی تفسیر کاسب سے معتبرماخذخودقرآن شریف ہے۔ قرآن مجید کاہرحصہ یکساں طورپرقطعی ہے،اس وجہ سے اس پرکسی بڑے سے بڑے منکرکوبھی حرف رکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔
تفسیرکاچوتھاقطعی ماخذ سنت متواترہ ومشہورہ ہے۔جہاں تک قرآن مجیدکی اصطلاحات کاتعلق ہے مثلاًزکوٰۃ، صلوٰۃ،صوم، حج، عمرہ، قربانی، مسجدحرام،صفا،مروہ، طواف وغیرہ ، ان سب کی تفسیرسنت متواترہ کی روشنی میں ہی کرنی چاہیے۔قرآن مجید وشریعت مطہرہ کی اصطلاحات کے معنی بیان کرنے کاحق آنحضرت ؐ کے سواکسی اورکوحاصل نہیں ہے۔آنحضرت ؐ نے ان اصطلاحات کایہ مطلب بیان کیاہے،اس چیز کی ضمانت یہ ہے کہ ان ساری اصطلاحات کاحقیقی مفہوم بالکل عملی شکل میں سنت متواترہ کے اندرمحفوظ کردیاگیاہے اور سنت متواترہ بالکل انہی قطعی ذرائع سے ثابت ہے جن ذرائع سے خود قرآن مجیدثابت ہے۔امت کے جس تواترنے قرآن مجید کوہم تک منتقل کیاہے، اسی تواترنے دین کے تمام اصطلاحات کاعملی مفہوم بھی ہم تک منتقل کیاہے،اس لئے اگرقرآن مجیدکاماننا ہم پر واجب ہے توان ساری اصطلاحات کی اس شکل کوماننابھی واجب ہے جوسلف سے خلف تک منتقل ہوئی ہے۔نمازپنجگانہ اسی قطعیت کے ساتھ جانتے اورمانتے ہیں جس قطعیت کے ساتھ قرآن مجیدکوجانتے اورمانتے ہیں۔رہی آمین بالجہریاآمین بِاالسّر تویہ بات اختلافی ہوسکتی ہے اوراس طرح کے اختلاف جزئی کی ہمارے دین میںکوئی اہمیت نہیں ہے۔ان میں سے جس شخص کادل جس پہلوپر مطمئن ہواس کواختیارکرے اورایک دوسرے کی تردیدومخالفت کے درپے نہ ہو۔ البتہ جوباتیں سنت متواترہ سے ثابت ومعلوم ہیں، ان کی مخالفت کرناخود قرآن کی مخالفت کرناہے۔(مبادی تدبرقرآن۔ص۸۰۲)
٭ شان نزول:۔ شان نزول کے حوالے سے فی الوقت دوبڑے مکاتب فکرعلم تفسیر میں ملتے ہیں۔ایک گروہ ہرآیت کے ذیل میں کوئی نہ کوئی واقعہ بطورشان نزول کے بیان کرتاہے۔یہاںتک کہ بعض آیات کے تحت متعدد واقعات ہوتے ہیں اور ان میں بسااوقات باہم دگراختلاف بلکہ کھلاہواتضادملتاہے اورعموماً یہ واقعات ایسے تعجب انگیزاورآیت کے سیاق وسباق سے اس قدر بے تعلق ہوتے ہیں کہ طبیعت ان کوقبول کرنے سے جھجکتی ہے۔اس کے باوجوداس گروہ کے نزدیک شان نزول کی بڑی اہمیت ہے۔ امام واحدیکاقول ڈاکٹر صبحی صالح اپنی کتاب میں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "جب تک کسی آیت کاواقعہ متعلقہ اوراس کا سبب نزول معلوم نہ ہواس آیت کی تفسیر معلوم نہیں ہوسکتی۔" (علوم القرآن از صبحی صالح۔ص۴۸۱)
مزکورہ گروہ اسباب نزول کوعلم تفسیر کے لئے ایک لازمی شرط کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔علامہ زرکشیؒ فرماتے ہیں کہ اسباب نزول جاننے کاپہلافائدہ یہ ہے کہ اس سے احکام کی حکمتیں معلوم ہوتی ہیں اورپتہ چلتاہے کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ نے کن حالات میں اورکیوں نازل فرمایا۔ان کے نزدیک آیت کے صحیح مفہوم تک پہنچنے کے لئے سبب نزول کاعلم ضروری ہے۔
دوسرا گروہ شان نزول کی اس تعبیر کوقرآن مجید میں نظم وتسلسل کی تلاش میں سدِ راہ قراردیتاہے۔کیونکہ نظم کلام کے تسلسل کوچاہتاہے اورہرآیت کوکسی خاص واقعہ سے متعلق تصورکرنا نظم وتسلسل کے بالکل منافی ہے۔ امام رازیؒ بھی اپنی تفسیر میں ایک جگہ شان نزول کی اس تعبیر پرسوالیہ نشان قائم کرتے ہیں۔ اس گروہ کے نزدیک تفسیرکے لئے صحیح اصول یہ ہے کہ روایات سے پہلے نفس آیت کے الفاظ ،سیاق وسباق اورماقبل ومابعد مضمون پرتدبرکرنا چاہیے۔ اگرالفاظ اپنے مفہوم کوپوری وضاحت کے ساتھ اداکررہے ہیں، آیت کی صحیح تاویل ، بغیر کسی خارجی مددکے بالکل بے نقاب ہوگئی ہے۔ نظم،عمود اورحسن تاویل کے جملہ شرائط پوری طرح اداہوگئے ہیں،توکچھ ضروری نہیں ہے کہ ایسے واقعات کو آیات پرچسپاں کئے جائیں،جوان کے نظم وسیاق کودرہم برہم اورحسن تاویل کومجروح کرنے والے ہوں۔البتہ اگرشان نزول آیت کی واضح اورصحیح تاویل کی تائیدکررہاہے تووہ مزید اطمینان اورشرح صدرکاباعث ہوگااوراس کونظراندازکرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
علامہ سیوطیؒ اس حوالے سے رقمطرازہیں:’’زرکشیؒ نے "برہان "میں لکھاہے کہ صحابہؓ وتابعینؓ کایہ طریقہ عام ہے کہ ان میں سے جب کوئی شخص یہ کہتاہے کہ ’یہ آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی‘‘تواس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اس بات کابھی حکم موجودہے۔یہ مطلب نہیں ہوتاکہ یہ بات بعینہ اس کے نزول کاسبب ہے۔ گویایہ اس آیت سے اس معاملہ پرایک استدلال ہوتاہے نہ کہ نقل واقع۔‘‘(الاتقان۔ص۱۰۱)
حضرت شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی کی تحقیق بھی شان نزول کے حوالے سے یہی ہے۔"الفوزالکبیر"میں اس قسم کے شبہات کاانہوں نے تفصیلی جواب دیاہے۔تفسیر اورشان نزول کی کتابوں میں بعض اوقات ایک آیت کاسبب نزول کوئی ایساواقعہ بیان ہوتاہے جس کازمانہ اورآیت کے نزول کازمانہ کسی طرح ایک نہیں ہوسکتا۔کبھی ایساہوتاہے کہ سورۃتومدنی ہوتی ہے اورشان نزول جوبیان کیاجاتاہے وہ مکی زندگی سے متعلق ہوتاہے۔بعض شان نزول ایسے ملتے ہیں جن کے زمانہ وقوع اوران سے متعلق آیت کے نزول کے زمانوں میں مدتوں کافرق ہے۔ ایسے مواقع پراگرکسی طالب علم کویہ بات معلوم نہ ہوکہ صحابہ کرامؓ اورتابعین عظام کے نزدیک شان نزول کاحقیقی مفہوم کیاہے،تو اس کومطالعہ میں سخت زحمتیں پیش آتی ہیں اورکبھی کبھی توشک وانکارکی حالتوں سے کشمکش کرنی پڑتی ہے۔
قرآنی آیات کاربطہ وتعلق اس کے فقرات وکلمات اورمشاہدوصْوَر کااقتران واتصال ایک عظیم علم ہے ‘جس میں قرآن کریم کے لطائف وعجائبات مضمرہیں۔ قرآن کے اکثراحکام وشرائع کی تفسیر اس علم کی روشنی میں کی جاتی ہے۔امام ابوبکر نیسابوریؒ حافظ حدیث وعظیم شافعی فقیہ،علماء بغداد کی اس لئے مذمت کیاکرتے تھے کہ وہ ربط آیات کے فن سے بے بہرہ ہیں۔ جب ان کوکوئی آیت یاسورہ پڑھ کرسنائی جاتی تووہ اکثر دریافت کرتے’’اس آیت کودوسری آیت کے پہلومیں کس لئے رکھاگیاہے؟اورفلاں سورہ کو فلاں کے بعد کس لیے لایاگیاہے؟‘‘ (علوم القرآن۔ص۱۷۰)