مجاہد عالم ندوی
بہت سے معاشروں میں اطفال کشی کا رواج ہے۔ چوتھی صدی عیسوی تک رومیوں میں بھی اس کا رواج تھا ، وہ عورت کو مرد کی لونڈی کا مقام دیتے تھے۔ یونانی عورت کو ایک جنس شمار کرتے تھے، جسے خریدا اور بیچا جا سکتا تھا۔ عیسائی معاشرے کا رجحان اس طرف تھا کہ عورت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے کا باعث ہوئی ، وہی حقیقی شیطان ہے، امن کی دشمن ، سارے جھگڑوں کی جڑ ،جس سے انسان کو الگ رہنا چاہیے۔ فرانس میں چھٹی صدی عیسوی کے اواخر میں ایک اجتماع یہ طے کرنے کے لیے منعقد کیا گیا کہ کیا عورت کو صحیح معنی میں انسان قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔
ہندوستان میں قرون وسطیٰ میں میں ایک رواج یہ تھا کہ بیوہ کو شوہر کے مرنے پر اس کی چتا پر بیٹھا کر زندہ جلا دیا جاتا تھا ، یہ رواج کم و بیش بیسویں صدی تک چلتا رہا ( در اصل یہ مکمل طور پر بند تو کبھی نہیں ہوا، صرف برطانوی قانون کا خوف مانع رہا۔ لیکن بیسویں صدی کے آخری حصے میں ایک بار پھر نہ صرف اس کی حمایت میں آوازیں اٹھیںبلکہ ایک جوان بیوہ عورت کو بر سر عام زبردستی زندہ جلا دیا گیا ،( مضمون نگار )
جو خوش قسمت بیوہ عورتیں اس قتلِ عمد سے بچ جاتیں، انہیں دوسری شادی نہ کرنے دی جاتی ، وہ منحوس سمجھی جاتیں اور الگ تھلگ بدحال زندگی گزارنے پر مجبور ہوتیں۔ عورتیں گھروں میں اپنے باپ بھائیوں ، بعد میں شوہروں اور اس کے گھر کے دوسرے افراد کی داسیوں ( لونڈیوں ) کی طرح زندگی گزارتیں ، وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا ، چین میں دو ہزار برس سے زائد عرصہ تک عورتیں بیوہ ہونے پر اپنے بیٹوں کے تابع ہو کر رہتیں۔ عورتوں کے پیروں کو لوہے کے شکنجوں میں جکڑنے کا بھی رواج تھا ، جو بیسویں صدی
کی ابتدا تک جاری رہا ۔
اسلام سے پہلے عورت کی پوزیشن عرب میں :
قبل اسلام کے عرب میں عورت کی پوزیشن شرم ناک حد تک پست تھی ، انہیں وراثت سے محروم رکھا جاتا ۔ یہ چلن عام تھا کہ باپ کے مرنے پر سب سے بڑا بیٹا اس کے مال و اسباب کے ساتھ اس کی بیواؤں پر شوہر کی طرح قابض ہو جاتا ، کھانے پینے کے معاملے میں عورت کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ، بعض کھانے مردوں کے لیے مخصوص تھے ، لڑکیاں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دی جاتی تھیں ، انہیں ہر طرح کا بوجھ تصور کیا جاتا ، کیونکہ نہ وہ ان کی لوٹ مار اور قتل و غارت میں معاون ہو سکتی تھیں ، نہ دشمن کے حملے کے وقت خود اپنے دفاع کے قابل۔ ہر دس باپوں میں سے ایک ضرور لڑکیوں کے قتل کا مجرم ہوتا ، اس نوعیت کے کئی واقعات نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اسلام لانے کے بعد سنائے ، اگر ہم اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں اور اسلام میں عورت کی پوزیشن پر غور کریں تو یہ بات بخوبی واضح ہوجائے گی کہ اسلام نے عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلائی ، اس کو عزت کا مقام عطا کیا اور ہر طرح اس کا تحفظ کیا ، اس نے عورت کی پوزیشن کو کئی طریقوں سے بہتر بنایا ۔
قرآن عورت کے کردار کا تعین کرتا ہے:
اسلام نے عورت کو تحفظ فراہم کیا ، اس نے نا پسندیدہ نوزائیدہ لڑکیوں کے قتل کو حرام قرار دے کر ایک شرم ناک قدیم بدوی رواج کو ختم کر دیا۔ اس نے ساتویں صدی میں عورت کو وراثت پانے کا حق عطا کیا ، یورپ کی عورت کو خود اپنے مال اور املاک پر قانونی حق حاصل کرنے کے لیے انیسویں صدی تک انتظار کرنا پڑا۔ جب کہ ایک مسلمان مطلقہ عورت کو اپنا مہر جہیز ( اور شوہر سے ملا ہوا سارا مال ) اپنے پاس رکھنے کا حق ہے ، اس کو شوہر سے نان و نفقہ پانے کا حق ہے اور اسے نکاح ثانی کی پوری آزادی ہے۔ مرد سے ناچاقی اور اس کے ساتھ گزارا نہ ہونے کی صورت میں عورت مرد سے طلاق حاصل کر سکتی ہے ، عورت کی اپنی خواہش پر حاصل کرنے کو اصطلاحاً خُلع کہا جاتا ہے اور یہ فیصلہ پورے غور کر کے اسلامی عدالت کرتی ہے ۔ حدیث میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی بیوی جمیلہ ؓ کے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنے شوہر سے علیحدگی کے لیے درخواست کی ، اُس خاتون کا عذر یہ تھا کہ اپنے شوہر کے اعلیٰ کردار اور حسن سلوک کے باوجود ان کے ساتھ رہنا انہیں اتنا ہی ناگوار تھا جتنا کہ اسلام لانے کے بعد کفر کی طرف پلٹنا ۔ اس پر اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر ثابت بن قیس ؓ کا شادی کے وقت تحفتاً دیا ہوا باغ واپس کر دے ، اور اس قرارداد کے بعد آپؐ نے ان کے درمیان تفریق کا حکم صادر کر دیا ۔
اسلام عورت کو بڑی عزت کا مقام دیتا ہے ، قرآن مردوں اور عورتوں کو ان کی ذاتی اور بنیادی اقدار کے نقطۂ نظر سے مساوی قرار دیتا ہے ، لیکن ان کے کاموں کے دائرے مختلف ہیں، اگرچہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں ( ایک دوسرے کے بغیر ناقص رہتے ہیں ) عورت اللّٰہ تعالیٰ کی مخلوقات میں اس کا شاہکار ہے ، عورت وہ مخلوق ہے جس کے نازک ہاتھوں میں دنیا کا مستقبل دے دیا گیا ہے ۔
عورت کی عظمت کی بنیاد وہی ہے جو مرد کی ہے۔ دونوں یکساں بری راہ پر پڑ سکتے ہیں اور صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی بھی دونوں میں یکساں صلاحیت ہے ۔ دونوں کی قدر و قیمت یکساں ہے۔ لیکن اپنے کردار کے سلسلے میں بعض صفات میں مختلف ہیں ، ترقی کا راستہ دونوں کیلئے یکساں کھلا ہوا ہے اور کامیابی حاصل کرنے پر دونوں کے اجر اور انعام میں بھی کوئی فرق نہیں۔ بعض پہلوؤں سے مرد عورتوں پر فوقیت رکھتے ہیں ، جبکہ بعض دوسرے پہلوؤں سے عورتیں مردوں پر فائق ہیں ۔ اسلام کے پانچوں ستونوں ، عقیدہ ( ایمان
) صلوٰۃ ، زکوٰۃ ، صوم اور حج ، عورتوں کے لیے بھی اتنی اہمیت رکھتے ہیں جتنی مردوں کے لئے اور اس لحاظ سے دونوں میں کوئی امتیاز نہیں ہے ۔
کون برتر ہے ، مرد یا عورت :
یہ بحث لاحاصل اور لغو ہے کہ مرد اور عورت میں سے کون افضل ہے ؟ در حقیقت عورت مرد جیسی نہیں ہے۔ اسلام نے مرد اور عورت کو زندگی میں مختلف کردار تفویض کیے ہیں ، سائنس بھی اس پر متفق ہے کہ مرد اور عورت میں کئی جسمانی فرق ہیں۔ عورت حیاتیاتی طور پر مرد سے مختلف ہے، کیونکہ دونوں جنسوں کو معاشرے میں الگ الگ کردار ادا کرنے ہیں ۔ عورت کا مقام روایتی طور پر مرد سے مختلف ہے۔ مسلمان معاشرے میں خاندان کی کفالت مرد کے ذمہ داری ہے ، یہ اس کا فریضہ ہے۔ عورت اپنے گھر کی دیکھ ریکھ کی ذمہ دار ہے ، اپنے خاندان کی زندگی کو خوشگوار اور پرمسرت بنانا اس کا کام ہے ۔
رابطہ 8429816993
[email protected]