شگفتہ حسن
’’وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ‘‘اس میں شفا ہے ہر اس بیماری کے لئے جو ان کے سینوں میں پائی جاتی ہے۔(سورہ یونس آیت ۵۷)
آپ نے دیکھا کہ اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کو کیا کہا گیا ہے؟اس آیت میں قرآن کریم کو ’’شفاء لما فی الصدور‘‘ کہا گیا ہے۔ ’’شفا‘‘اور ’’صدور‘‘سے کیا مراد ہے؟ شفا سے مراد تندرستی، بیماری سے صحت یاب ہونا، جسے علاج کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے۔ اور صدور، صدر کی جمع ہے جس کے معنی سینہ ہے اور سینے سے مراد باطن و قلب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’شفاء لما فی الصدور‘‘ کا تعلق انسان کے اعمال باطنہ یعنی دل کے ساتھ ہے۔ یعنی کلام الٰہی ہمارے روحانی و دلی امراض کی اصل دوا ہے۔ ہمارے سینوں کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں کی شفا ہے۔ ہمارے روح و قلب کے فساد کی اصلاح ہے۔ ہمارے نفس کی گندگی کی پاکیزگی ہے۔ پس اس آیت کریمہ میں یہی ذکر ہو رہا ہے کہ قرآن ’’شفاء لما فی الصدور‘‘ ہے یعنی قرآن اللہ کے فضل و کرم سے تمام قلبی و نفسیاتی، باطنی و روحانی غرض ہر قسم کی باطنی و دِلی بیماریوں کے لیے مکمل شفا ہے۔ جتنے بھی مہلک مرض قلب و باطن سے تعلق رکھتے ہیں اس میں ان تمام مرضوں کی شفا ہے۔ یعنی قرآن کریم کو ہمارے قلبی امراض کے لئے شفا قرار دیا گیا ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے اور اس کی آیات روح و قلب، ہدایت و رہنمائی اور رہبری انسان کی تسکین کے لئے مختص ہیں۔ یہی ہمارے دلوں کی بہار ہے۔ یہی دلوں کو تازگی بخشتا ہے۔ یہی دلوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ یہی وہ دوا ہے جو ہمارے نفس کی اصلاح کے لیے کافی ہے کیونکہ ہمارے دلوں میں جتنی بھی روحانی امراض ہیں ان کا کامیاب ٹریٹمنٹ بھی اس میں موجود ہے اور ان کی شفا بھی۔ یہی وہ قیمتی نسخہ ہے جو امراض قلب کا اصل علاج کرتا ہے اور ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ امراض قلب کون سے ہیں؟ پھیپھڑوں کی نالیوں کا بند ہونا، سانس گھٹنا، دل میں خون کا منجمد ہونا، پھیپھڑوں سے دل تک خون لے جانے والی رگوں میں بیک اَپ ہو جانا، سینے میں درد ہوناہے۔ جی نہیں! بلکہ وہ امراض جن کو قرآن جڑ سے اُکھاڑ پھینکتا ہے، وہ ہیں: کفر و شرک، ہلاکت و گمراہی، نفاق وحسد، بغض و عداوت، سحر و جادو، بخل و حرص، کینہ، ریا، تکبر، شہوت، جہالت، فاسد عقائد، مذموم اخلاق، خودپسندی، دنیا کی محبت ،غرض وہ سب امور جو ہمارے دلوں کو سیاہ کر دیتے ہیں۔ جن کی وجہ سے ہمارے دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن میں جو تعلیم ہے اس میں صرف اور صرف ہماری بہتری، ہدایت و رہنمائی، خیر و بھلائی اور کامیابی و رہبری کا ذکر ہے۔ اس تعلیم کی وجہ سے ہی ہمیں خصوصی امتیاز حاصل ہے۔ اس لئے یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہمارے لئے نازل ہونے والا ایک عظیم معجزہ ہے۔اس معجزہ سے ہمیں قلب کی ان مہلک امراض کو دور کرنے کے لئے مہنگی دواؤں اور ہسپتالوں کے پیچھے دوڑنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ اس کے ذریعے ہمارا قلب یقین کے بلند ترین درجہ پر پہنچ جاتا ہے۔ غلط عقائد و اعمال سے شفا نصیب ہوتی ہے۔ قلبی امراض کو شفا نصیب ہوتی ہے اور لباس عافیت کو زیب تن کردیتا ہے۔ اس کے ذریعے ہمارے دل میں روشنی داخل ہوتی ہے جس سے ہمارے دلوں میں گناہوں، غفلتوں اور خواہشوں کی پیروی سے جنم لینے والی تاریکیوں کو دور ہوجاتی ہیں۔ ہمارے دل نور ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ ہمارے دلوں سے جہالت، خواہشات اور شہوات کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اس کا واضح اثر ہمارے طرز عمل اور معیار زندگی پر پڑتا ہے۔ یہ کتاب ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ کس راہ پر چلنے میں ہماری نجات ہے۔ یہ اُن بیماریاں کے لئے شفا ہے جن میں ہم غیر محسوس طریقے سے مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہمارا باطن خواہ کتنا ہی سیاہ کیوں نہ ہو، یہ کتاب اسے بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ غرض اللہ نے کوئی ایسی روحانی بیماری نازل نہیں کی ہے جس کی شفا قرآن میں نازل نہ ہو۔ اس میں ہر روحانی بیماری کی اصل دوا فراہم کی گئی ہے اور جب اللہ کے حکم سے بیماری کی اصل دوا میسر ہو جاتی ہے تو وہ بیماری ایسے حیرت انگیز طور پر دور ہو جاتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔
بہرحال اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ قرآن متقیوں کے لیے کے لئے شفا ہے، لیکن یہ صرف اُن متقیوں کے لیے شفا ہے، جو اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ جو روزانہ باقاعدگی سے اس کو دل کی توجہ سے پڑھتے اور اس کے معنی و مطالب پر غور و فکر کرتے ہیں، جو اس کی تلاوت کے بغیر بے سکون رہتے ہیں، جو اس کی تعلیم پر عمل کر کے اپنی روحانی حالتوں کے معیار بلند کرتے ہیں، جو First Preference یعنی اولین ترجیح قرآن کو دیتے ہیں، جن کی priority list میں قرآن ہوتا ہے، خواہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، جن کو اس مقدس کتاب سے دلی لگاؤ ہوتا ہے، جو اس کے لئے ہر حال میں وقت نکالتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں۔ گویا یہ کتاب ہماری روحانی شفا کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ ہمارے دلوں کو روحانی بیماریوں سے پاک کرتی ہےتاکہ ہمارا روح صراط مستقیم کو پا سکے اور ہماری رہنمائی کر سکے۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن کی تلاوت اپنی مادی، روحانی اور نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے طور پر کریں۔ اس پر غوروفکر کریں۔ اس میں حقائق و معارف تلاش کریں۔ تبھی ہم روحانی بیماریوں سے نجات پائیں گے اور پھر ہمیں مہنگی مہنگی دواؤں کے پیچھے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جب تک ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو قرآن کے سانچے میں نہیں ڈھلے گے، اپنی تعلیمات، اعمال، احوال، اخلاق اور شب و روز کے معمولات ہدایت الٰہی و قرآنی کے مطابق نہیں بنائیں گے، اس کو اپنی رہنمائے زندگی تسلیم نہیں کریں گے، اس کو سمجھ کر اس کے ذریعے اپنی زندگی کو تبدیل نہیں کریں گے، تب تک ہم روحانی بیماریوں سے نجات نہیں پائیں گے۔ ہماری روح کے اندر وہ حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی جس کے ہم خواہش مند ہیں۔ اس لیے جتنا ٹائم ہم قرآن کو دیں گے، اتنا ہی یہ ہمیں بینیفٹ دے گا۔ ہم جتنی بار قرآن کا مطالعہ کریں گے اتنا ہی ہم اپنی زندگی میں کامیاب و کامران ہوں گے۔ اگر آپ اپنے روح کے اندر حقیقی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر آئیے قرآن کی طرف رجوع کرنے کا اس سے بہتر کوئی چانس نہیں۔ آج سے ہماری فرسٹ پریوریٹی (first priority) قرآن ہو۔ خواہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ہم روزانہ باقاعدگی سے اس کی تلاوت کریں گے۔ ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں، اس کے لئے ہر حال میں وقت نکالیں گے ۔اس سے فیض اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ کیونکہ یہی ہمارے دلوں کی بہار ہے۔
یہی نور ہے اسی سے ہمیں روشنی حاصل ہوگی۔ یہی دوا ہے اسی سے ہمیں شفا حاصل ہوگی۔
[email protected]