مقصوداحمدضیائی
جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ جموں و کشمیر کسی تعارف کا محتاج نہیں ،یہ ادارہ حضرت اقدس مولانا غلام قادر صاحب زیدہ مجدہ کی زیر سرپرستی نصف صدی سے زائد عرصہ سے علمی دینی دعوتی اور فلاحی خدمات کے لیے معروف و مشہور ہے، اس مرکز علم و عرفاں میں اہل علم کی تشریف آوری کا سلسلہ رہتا ہے اور اساتذہ و طلبہ کو استفادہ کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ 29 اکتوبر 2025ء کی شام مولانا عدنان ندوی صاحب جامعہ میں تشریف فرما ہوئے ،بعد مغرب جامعہ کی ’’علی میاں لائبریری‘‘ میں اساتذہ جامعہ کے مابین اہم مجلس منعقد ہوئی۔ حضرت مولانا عدنان ندوی جیدالاستعداد ، وسیع النظر، باتوفیق عالم دین ہیں گزشتہ سے پیوستہ سال شوال المکرم کے دوسرے عشرے میں عاجز کا وادئ کشمیر کا سفر ہوا تو کشمیر کی معروف دانشگاہوں میں حاضری کے علاوہ جن اساطین علم سے استفادہ کا ارادہ تھا، ان میں مولانا عدنان ندوی بھی تھے۔ بدقسمتی سے ندوی صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی جس کا مجھے قلق تھا ،دو سال بعد آپ کی ہمارے یہاں جامعہ میں تشریف آوری پر قلبی خوشی ہوئی۔ اساتذہ کے مابین گھنٹہ بھر کے بیان میں ندوی صاحب نے وقت کی قدر و قیمت علماء سلف کے تحصیل علم، مشغولیت ، تدریسی و تصنیفی انہماک ان کی شب بیداری، سحرخیزی، جاں سوزی اور افادہ و استفادہ کے حیرت انگیز و سبق آموز واقعات کثیرالتصانیف و نابغہ روزگار شخصیات کے معمولات اور وقت کو کار آمد بنانے کے طریقے مؤثر اور دلنشیں انداز میں بیان فرمائے، نیز وقت کی ناقدری کے نقصانات کو بھی ذکر کیا۔ اب جب کہ یہ سطور زیب قرطاس ہو رہی ہیں موصوف کے بعض بعض کلمات اور مخلصانہ اندازِ بیان یاد آتے ہیں جو حاضرین کے قلب کی گہرائیوں میں پیوست ہوتے جاتے تھے۔ دوران گفتگو علمائے سلف کے ذوق علم اور شوق قلم کے تعلق سے آپ کی پرخلوص باتوں کی وجہ سے سامعین اول تا آخر ہمہ تن گوش رہے۔ اس کیفیت پر مجھے یاد آیا کہ آج سے لگ بھگ تیس سال قبل احاطہ جامعہ میں ایک اجلاس عام منعقد ہوا تھا جس میں حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب کا بعد ظہر خطاب ہوا تھا، اس وقت نعمانی صاحب کی داڑھی کے بال بھی سیاہ تھی اخلاق نبوی پر اس قدر مؤثر بیان فرمایا تھا کہ سامعین کے اصرار پر انتظامیہ کو بعد مغرب کی نشست بھی نعمانی صاحب کو دینی پڑی۔ چناں چہ طے شدہ پروگرام کے تحت بعد عشاء مرکزی جامع مسجد بگیالاں میں مولانا عدنان صاحب کا بیان طلبہ میں ہونا تھا جو بعد فجر پر مؤخر کر دیا گیا، نماز فجر مولانا عدنان صاحب کی اقتداء میں ادا کی اور پھر مولانا کا طلبہ میں گھنٹہ بھر بیان ہوا دل والی باتوں کی بہتات رہی مجموعی طور پر حضرات اکابر کی علمی و عملی زندگی اور کارہائے نمایاں کو ذکر کیا، جنہیں اساتذہ و طلبہ نے انہماک کے ساتھ سماعت کیا۔ بطور خاص مفکر اسلام سید ابوالحسن علی میاں ندوی سے وابستگی ان کے علمی و عملی کارناموں کو ولولے کے ساتھ ذکر کیا۔ علی میاں ندوی کی تصانیف میں سے ’’ماذاخسرالعالم بانحطاط المسلمین‘‘،’’پاجاسراغ زندگی‘‘ کاروانِ زندگی اور کچھ عربی کتب اور مولانا عبداللّٰہ عباس ندوی کی ’’میرکارواں‘‘ جیسی کتب کا تذکرہ اس شان سے کیا کہ دل باغ باغ ہوگیا۔ چونکہ علی میاں ندوی کی کتب کو میں نے ولولے سے پڑھا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی مجھ سے کوئی مطالعہ کتب کے بارے میں دریافت کرتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ حضرتِ تھانویؒ ،مولانا منظور نعمانی صاحب ،قاری محمد طیب صاحب، شیخ محمد زکریا کاندھلوی صاحب، علی میاں ندوی صاحب، حضرت پیر ذوالفقاراحمد صاحب کی کتابیں پی جانے کے قابل ہیں۔ قاری صدیق احمد باندوی صاحب کا تذکرہ بھی آیا سچ یہ ہے کہ ’’افادات صدیق ‘‘تو مجھ سے کبھی جدا نہیں ہوئی غرضیکہ مولانا عدنان ندوی صاحب آئے اور ہمیں بھولا ہوا سبق یاد دلا گئے۔ مولانا کی کتاب دوستی اور اکابر سے عاشقانہ تعلق سے انکار چمکتے سورج کی برستی شعاوں کو خیط اسود کہنے کےمترادف ہے۔
آخری بات : آج ہمیں اعتراف ہے کہ مطالعہ ہم سے رخت سفر باندھ رہا ہے افادہ و استفادہ کا شوق چر مرا رہا ہے، پڑھنے پڑھانے کی روایتیں دم توڑ رہی ہیں ،دینی کتب کی جگہ فحش لٹریچر لیتا جا رہا ہے، نتیجتاًفاسد افکار اور منفی سوچ نئی نسل کا مقدر بن رہی ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ارباب مدارس مولانا عدنان ندوی صاحب جیسے کتاب دوست اور بہترین صاحب علم  و زبان اہل نظر کو اپنے مدارس میں دعوت دیں اساتذہ و طلبہ کے مابین علمی مجالس ہوں، مولانا کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کی پشت پر مطالعہ کی ضمانت اور جو کچھ باور کراتے ہیں اس کے یمین و یسار میں دلیل کی روشنی ہوتی ہے اب میں اس مقام پر پہنچا ہوں کہ جہاں یہ تذکرہ ختم کیا جا سکتا ہے اس شعر پر یہ راہروقلم رخصت ہوا چاہتا ہے کہ
   زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
   ہمیں چل دئیے داستاں کہتے کہتے
 
								 
			 
		 
		 
		 
		 
		 
		 
		