قدیم ابلیسیت جدید جاہلیت!

Kashmir Uzma News Desk
19 Min Read
دنیا کے ہر مکتبِ فکر کے میں یہ ایک ٹھوس اصول مانا جاتا ہے کہ انسانی زندگی دراصل فکرو عمل کا مجموعہ ہے۔ فکروعمل کے اختلاطی پرو سس کے اندر یہ فکر ہی کا کارنامہ ہے جو انسان کو عمل پر اُبھارتا ہے۔ اب یہ کیوںکر اور کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ انسانی فکر کو اس کے اندرون کے معاملے یا عقیدے تک محدود کیا جائے۔ یہ بذاتِ خود ایک غیر فطری اور فکروعمل کے درمیان ایک تضاد بھری صورت حال کا نام ہے جو کہ پھر انسان کے اندر سے باہر رونما ہو کر ایک وسیع و عریض بگاڑکا باعث بنتی ہے۔
 سنجیدہ اور صالح انسان کی روح، اس کا عقیدہ اور فکر بذاتِ خود صداقت ہے، خواہ وہ انسان کوئی بھی ہو،کسی بھی خطہ کا رہنے والا ہو، کسی بھی مذہب کا پیروکار ہویا کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو ۔اکی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کا سماج ، گردونواح اور حالات و واقعات اس کو قطعی طور صدق بینی سے غافل نہیں کرتے اگر چہ وہ دنیا کے متفرق نظاموں سے مغلوب بھی ہو، ان متفرق نظاموں نے اس سے سوچنے کا موقع ہی نہ دیا ہو ۔ اس کے دماغ کو وقت کے نظام نے روٹی، کپڑا اور مکانـ جیسے بنیادی مقاصد کے حصول کی کشمکش میں چوبیسوں گھنٹے مست ومحو کردیا ہو۔ والدین، ہمسایہ، رشتہ دار، دوست، دوسروں کے حقوق، امن چین، مقصد ِزندگی۔۔۔۔ ان جیسے اہم موضوعات کو وہ اس طرح فراموش کرتا گیا ہو، جیسے کہ ان کا اس کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اگر کسی چیز کا تعلق اس کی زندگی سے رہا تو وہ بس مادی حوائج اور ضروریاتِ زندگی ہوا، یہ مادہ کونسا ہو، کہاں سے آیا ہو اور کس طرح کا ہو، اس کی اسے کوئی پرواہ نہیں۔ اس طرح سے انسان اپنی وِجدانی فطرت سے بہت دور نکل کر ایک ایسے دلدل میں پھنس جاتا ہے جہاں نہ اس کو خود کی کوئی فکر رہتی نہ ہی دوسروں کی۔
یہ کسی قدیم انسان کے حالات کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے زمانے کے حالات کی عکاسی ہے جہاں انسان کے پاس علم بھی ہے اور عقیدہ بھی، سائنس بھی اور عقل بھی ہے لیکن افسوس ان ذرائع علم و آگہی کے باوجود انسان نفس پرستی کا اتنا شکار ہو گیا کہ خود کے نفس کو ہی اپنا نوالہ بنایا، شہوت رانی اتنی غالب ہوئی کہ اپنے اخلاق حدود تک کوبھی نہ پہچان سکا، مادہ پرستی کا اتنا گرویدہ ہو گیا کہ اپنے سگے بھائی کے خون کا پیاسا ہو گیا، اقتدار کی ہوس کا ایسا دیوانہ بنایا کہ انسانی زندگیوں کو بھی نہیں بخشا۔الغرض مختصراً جاہلیت کا شکار ہوگیا۔ یہ جاہلیت آج سے چودہ سو سال پہلے بھی تھی اور آج بھی اپنے ایک منفرد انداز میں موجود ہے، جس کو محمد قطب ؒنے ’’جدید جاہلیت ‘‘کے نام سے موسوم کیا ہے۔
عا لمِ حوادث میں انسان فی الواقع بہت آگے نکل گیا، کیوںکہ جدید جاہلیت کے ساتھ جدید مشینیں، جدید ٹیکنا لوجی اور جدید سازوسامان کا آنا ضروری تھا، جس کے سبب انسان نے اپنے آپ کو خدا کا ہمسر جیسا اعلیٰ وارفع تصور کیا۔ خدا بیزاری تو اُــس کے اندر اُس وقت سے موجوہی تھی ، جب وہ سماج اور وقت کے قانون سے مغلوب ہو گیا تھا، لیکن اب اُس نے خود کو ایک روشن خیال اور صریح آزاد انسان کے طور پردنیا کے سامنے پیش کیا، جہاں نہ اسکے لئے کوئی قانون ہے نہ ہی کوئی ضابطہ، اگر کسی قانون کا پاسدار وہ رہابھی، تو وہ بس نفسانی خواہشات تھیں۔فکروعمل کے اِس قسم کے استنبات سے اتنا بگاڑ رونما ہوا کہ انسا ن نے خود کو ہی اللہ ب جتلاکراناربکم الاعلیٰ کا اعلان کردیا(نعوذُ  باللہ)۔
اس ساری تمہید سے جو بات اظہر من ا لشمس ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے انسان کے ساتھ اور نظام کے ساتھ بگاڑ کا جو بنیادی وجہ قرار پایا، وہ وہ شرک کی بیماری ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے انسان اپنے خالقِ حقیقی کے بھیجے ہوئے امن و قانون کے لائحہ عمل سے اتنا دور ہوگیا اور بدامنی و فساد فی ا لارض میں اتنا مدغم ہوگیااور اس طرح ہو گیا کہ بدامنی اور فساد کو ہی امن و چین قرار پایا۔ ایک اور حقیقت اس دوران عیاں ہوتی ہے کہ انسان سمجھ بیٹھا کہ اُس کی زندگی بے مقصد ہے، اگر کچھ مقصد یت ہے بھی، تو وہ بس روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول میں مخفی ہے۔ اپنے آپ کو بے مقصد سمجھ کر انسان ایک ایسے بے لگام گھوڑے کی مانند ہوگیا، جس کا نہ کوئی والی وارث ہے اور نہ کوئی منزل وخواب۔
انسان کو اپنے مقصدوجود کا ادراک حاصل کرنے کے لئے اس کے خالق نے انتظام تو اُس کے وجودہی میں کرلیا تھا، مشاہدات و کتاب ا للہ سے تو اُس کو کسی بھی اڑچن سے نجات دلائی تھی، لیکن انسان غافل و خودغرض نکلا۔ اِن سارے حوادث و واقعات کی بھی ایک علمی تاریخ رہی۔ ہوا یوں کہ انسان اپنے اندر کے ایک جزوی عنصرکو کلی حیثیت دینے لگا۔ مثال کے طور پرمادہ ایک جزوی عنصر تھا، اس کو وہ کلی سمجھنے لگا یا، اِسی طرح جنس ایک وقتی فعل تھا، اس کو بھی وہ زندگی کے تمام معاملات میں غالب تصور کرتا گیا۔ ان چیزوں کو عملانے کی خاطر انسان جاہلیت کی دوڈ میں اتنا آگے نکل گیاکہ اپنی  بادشاہت کا سکہ جامنے کے لئے ظالمانہ قوا نین وضع کئے، محصولاتی دفاتر قائم کئے، مسلح اہلکار تعینات کئے، بربریت سے بھری پالیسیاں مرتب کیں، اس پر ستم بالائے ستم کہ اپنے اس گھناؤنے عمل کو خود ساختہ علم کا لبادہ پہنایا۔ ان ہی گمراہ عالم و فاضل ہستیوں میں کارل مارکس، چارلس ڈارون اور سگمنڈ فرائیڈ جیسے انسان دنیا نے دیکھے، جنہو ں نے اپنے خود ساختہ علم سے جدید جاہلیت کو دوام بخشا۔
نجاست کے ڈھیرپرصاف و پاک پانی کا چھڑکائو کرنے سے نجاست کی حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، ا س کے بر خلاف جب تک نہ نجاست پر اتنا پانی بہا لیا جائے کہ نجاست کا نام و نشان تک نہ رہ جائے اوراُس جگہ پر صاف و شفاف پانی، بغیر کسی ملا وٹ کے رواں دواں ہوجائے، تب جا کے پانی قابل استعمال ہو جائے گا۔جدید جاہلیت کا معاملہ بھی کچھ اسی قسم کی نجاست وپلیدی کا ہے۔ جدید جاہلیت کے حامل لوگ اپنی جاہلیت (نجاست) کو چھپانے کے لئے ظاہری طور پر اگر چہ اُس ڈھیر پر جاہلیت کے بدلے نام نہاد علم(پانی) ہی بہا لیں، لیکن اُس چشمے سے نکلتا پانی کا ہر قطرہ بذاتِ خود اور قطعی طور پر استعمال کے لائق نہیں ہو گا۔ اس سارے معاملے کے دوران اگر جدید جاہلیت کے پیروکار کتنا ہی زور آزمائی کریںکہ ظلم کو حق کے نام سے منسوب کیا جائے، باطل کو سچائی کے طور پر پیش کیا جائے یا گمراہی کو ہدایت کا لبادہ پہنایا جائے، تب بھی حقیقت آفتاب و مہتاب کی طرح عیاں رہ جاتی ہے۔ ہاں اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ تھوڑے سے وقت کیلئے وہ(جدید جاہلیت کے پیروکار) اپنے تمام ذرائع غلبہ اور وسائل کار ِجیسے نشر و اشاعت کے ادارے، چالبازیاں، جھوٹے پروپیگنڈے،  حرب وضرب کے مہلک آلات وغیرہ بروئے کار لا کر حق کو باطل سے خلط ملط کر سکتے ہیں، لیکن اس سب کے بعد بھی حق سب کے سامنے اُسی خالص انداز میں خود کو پیش کرتا ہے، جیسے کسی باندھ سے پانی اُبل اُبل کراُچھلتا ہے۔
موجودہ دور کا انسان اس بات کا قائل ہے کہ وہ دنیا کا متمدن ترین انسان ہے، اُ سے آزادی حاصل ہے، اُس کی نفسیات پرکسی کا کنٹرول نہیں ہے اور تو اور وہ انتہا درجہ کا مہذب آدمی ہے لیکن وہ اِس بات کو اپنے کم علمی کی بنیاد پر کہہ رہا ہے، اُس سے کیا پتہ کہ اُس کے سامنے دنیا کی طرف سے مختلف تصورات کو کون سا لبادہ پہنایا جا رہا ہے،اُ سے کیا پتہ کہ آج کا جمہوری وپارلیمانی نظام اپنے پرانے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا عکسِ آئینہ ہے۔ چوںکہ اُس کی آنکھوں پرمختلف اوقات میں مختلف قسم کی رنگین عینکیں ڈالی جاتی ہیں، وہ اپنی حقیقی بصارت کھو بیٹھتاہے اور وہ وہی کچھ دیکھنے لگتا ہے جو اُس پر مسلط جمبورے اور باطل کے آلہ کار ( یعنی اُس کے نفس کو کنٹرول کرنے والے)اُس کو دکھانا چاہتے ہیں۔
انسانی زندگی میں فرد اور معاشرے کے درمیان صحیح تناصب کو برقرار رکھنا، ایک اہم سوال ہے۔ دونوں میں کس کو زیادہ اہمیت دینی ہے کس کو کم، یا ان دونوں کے بیچ آیاکوئی اور ہی راہ نکالنی مطلوب ہے؟ اس بات کو بھی ایک المیہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک متوسط یا درمیانی راہ نکالنے کے بجائے انسان افراط و تفریط کا شکار ہو گیا ہے ۔ نتیجتاً پورے معاشرے کے نظام کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے۔ پہلے معاشرے کو اتنی اہمیت دی کہ فرد ہی گم ہو گیا۔ اُس کے بعد اب فرد کو اتنی قوت و طاقت بخشی کہ فرد خود کا ہی اِلہٰ بن گیا۔انہی حالات کے بیچ اخلاقیات کا بگاڑ رونما ہوا، جس کی پہلی قسط کے طور مغرب اخلاق باختگی سے کچھ زیادہ ہی اثر انداز ہوگیا۔ یہ جو حال اُبھرتے ہوئے مغرب پر چھا گیا، بتدریج ہوا، اور اس طرح ہوا کہ اہل ِمغرب کو پتہ تک بھی نہیں چلا کہ وہ کن پستیوں میں جاگرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید جاہلیت کا شکار یا سگ گزیدہ انسان کبھی اپنی جاہلیت کو لے کر شرمندہ نہیں ہوتا بلکہ بڑی ڈھٹائی سے ا سے ترقی کا زینہ جتلاتاہے ۔
یہاں پر ایک اہم نقطہ ذہن میں راسخ کرنے کے لائق ہے کہ علم جیسی انمول چیز یا نعمت ِ الیٰہہ کی تعبیر بھی انہی جاہلی خطوط پر ہونے لگی ہے۔ مثال کے طور پر سائنس کو لے لیجئے، اسی سائنس کی بدولت آبادیوں کی آبادیاں تہہ و بالا کر دی گئیں اور اب بھی کی جارہی ہیں، ہیروشیما اور ناگاساکی جس کی بد ترین مثالیں ہیںلیکن یہ ایک مذموم سوچ ہو گی اگر اس وسیع تر بربادی کے لئے غلط کار انسان کو چھوڑ کرسائنس کو براہ راست موردِالزام ٹھہرا لیا جائے۔ ہاتھ اللہ کی نعمت ہے، یہ تو اِنسانی خواہشات پر منحصر ہے کہ اس ہاتھ سے کسی کا حق غضب کیا جائے یا کسی غریب کی دستگیری کی جائے۔ چوںکہ سا ئنس کی با گ ڈور جدید جاہلیت کے ہاتھ لگ گئی، اس لئے اب سائنس کی نعمتوں پر انسانی خود غرضی کی زحمتیں غالب ہوں تواس سے بھی کسی خیرکی ا ُمید نہیں کی جاسکتی۔
 سوال یہ ہے کہ اس سارے بگاڑ کا آخر علاج کیا ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو انسان کو اپنے حقیقی نصب العین کی طرف رجوع کرا سکتی ہے؟ آخر اس بگڑے ہوئے انسان اور غلط کار معاشرے کا علاج ومعالجہ کس جڑی بوٹی میں چھپا ہے؟ ان سارے سوالات کا صرف اور صرف ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے اسلام، کیوںکہ بس یہی ایک وہ متوازن نظامِ زندگی ہے، جسے خودکائنات کے خالق وپالنہاراللہ نے انسان کی فلاح و بہبود کے کے لیے نازل کیا۔ اس لئے کہ بس وہی ایک ذات اقدس تو ہے جو اپنی تخلیق(کائنات) کے سارے کل پرزوں سے پوری طرح واقف ہے۔ اور تو اور اس دین حق کا تصور اور حقیقت بذاتِ خود انسان کے وجود کے اندر بھی پوشیدہ ہے، جس کے بعد کائنات پوری کی پوری اِس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ انسانی زندگی کی فلاح و کامیابی اسلام ہی کے عقلی، آفاقی و انسانی نظام میں مضمر ہے۔ ا سے بدون کوئی فکری نظام ، کوئی ازم یا نظریہ انسانیت کا مداوا نہین ہوسکتا۔ آج تک جتنے ازم بھی آزمائے گئے انہوں نے انسانی مسائل کا منصفانہ حل پیش نہ کیا ،صرف جدید جاہلیت کا بت خانہ ابلیسی خوابوں سے سجایا۔اسلام کے آئینے میں اب انسانیت کو سارے مسائل کاایک مکمل حل مل گیا، ایک روحانی طاقت مل گئی، ایک واضح طریقہ کار مل گیا، یا یوں کہیے کہ ایک خودکار مشینری مل گئی جو اسے سر بلندی کے مقام ِاولیٰ پر فائز کرے گی لیکن یہ مشینری حاصل کرنے کے بعد اس کو بروئے کار لانا از بس ضروری ہے، تب ہی توجاہلیت کے پرخچے اُڑسکتے ہیں، صالحیت کا غلبہ ہوسکتا ہے ،انصاف کا دور دورہ ہوسکتا ہے ۔البتہ اس کے لئے  اہل ترین اور صالح ترین افراد ِکار کی ضرورت ہے، چاق و چوبند افراد، مخلص و ہمہ تن افراد، جو ایمانداری سے اپنے کام سے کام رکھتے ہوں اور جو اپنے عہد ِالہیٰ کو جانکی مانند عزیز رکھتے ہوں۔ اس مشینری کو بروئے کار لانے کی جستجو میں ہر طرح کے تیرو تند طوفان جھیلنے پڑیں گے،  حق کی مدافعت کرنی پڑے گی، جیل کی سلاخوں سے محبت کرنی پڑے گی، کچرے اور کو ڑے کو اپنا مسکن بنانا پڑے گا ،مخالفتیں برداشت کرناہوں گی ، جسمانی اور نفسیاتی اذیتوں کو اپنا خندہ پیشانی سے نظرانداز کرنا پڑے گا، اس لئے کہ مخا لف سمت سے ایک کثیر تعداد جاہلیت کے دلدادوں کی ہے جن کی غلط سوچ ، گناہ گارانہ تربیت ، ذاتی خباثت جدید جاہلیت کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کے ہر جانثار کے سینے کو تیرونشتر سے وار کر یں گے اور ضرور کریں گے۔ اپنی جاہلیت، ظلم، خود ساختہ علم دانی، اور نا جائزمنافع پر کاری ضرب لگتے ہوئے جدید جاہلیت کے پرستار اپنے نظریہ کے بچاؤ میں ہر طرح کے شیطانی حربے ،ابلیسی ہتھیار اور فرعونی ونمرودی ہتھگنڈے استعمال کریں گے۔ اسی گھمسان میںحق و باطل کی کشمکش بپا ہوگی، جدید وقدیم جاہلیت بے موت مرے گی اور حق کا آفتاب ومہتاب اُفقِ عالم کے سورج کی طرح طلوع ہو گا، جو اپنی روشنی سے ملک و قوم بلکہ سارے جہان کو روشن کرے گا۔ان سطور میں بیان کیا گیا خاکہ مومن کے واسطے ایک بڑے پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے کے مترادف ہے، جس کے لئے تدریجی سفر ناگزیر ہے، ہوا میں چھلانگیں مارنا ، یاجذبات کے بہکاوے میں آنا۔اس سفر کی منزل کھوٹی کرتاہے۔ اسی اونچی پہاڑ ی چوٹی کوخارزاروں کے درمیان ننگے پاؤں عبور کر لیناعبادتِ الہی کا وہ درجہ ہے جس پر وہ راہ ِ حق کے مسافر کواپنی رضامندی سایہ عاطفت مہیا کرتا ہے۔ کارکنانِ حق کو پہاڑی راستے کا پورا ادراک ہونا ضروری ہے، اس کے لیے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کو بنیادی سطح پر اکھٹا کرنا ہوگا، جیسے کہ سب سے پہلے اپنی نجی زندگی میں صالحیت کا انقلاب لانا، نماز اور فرائض کی پابندی ،  اپنے اخلاق و اطوار سے دوسروں کی بے ریا خدمت کر نا، اپنے آپ کو علم وعرفان سے پو ری یکسوئی کے ساتھ لیس کرنا اور اپنے شوق اور آرزؤںاُس ذاتِ بے ہمتا کے سایہ کے نیچے لانا، جس کی رضا اول وآخرمقصودِ مومن ہے۔ اگر یہ سب ہوا تو انشاء اللہ وہ دن دور نہیں ہے، جب صنعا سے حضر موت تک کا سفر پھر ایک بار ایک عورت اکیلے کرے گی اور اُسے اپنے خالق کے سوا کسی کا خوف نہیں ہو گا۔ اور جب قدیم جاہلیت کا بشمول جدید جاہلیت فنا کے گھاٹ اترے تو دنیائے انسانیت کوپھر ڈر کس بات کا؟۔
 رابطہ :متعلم کشمیر یونیورسٹی ،فون نمبر9622939998
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *