گزشتہ کئی ہفتوں سے شمالی بھارت میں بارشو ں سے پیداہوئی صورتحال نے تباہی مچادی ہے ۔جموں کشمیرمیں بھی کئی ہفتوں سے متواترکئی کئی روزباشیں ہوتی ہیں۔وادی میں بھی حالیہ ایام میں بارشوں نے معمولات زندگی کومفلوج بناکررکھدیااور بہت سے علاقوں میں ندی نالوں میں طغیانی آنے سے ان علاقوں میں پانی مکانوں،سکولوں اور بازاروں میں داخل ہوا۔دریائے جہلم نے بھی ایک دوبارخطرناک رُخ اختیار کیااوراگربارشیں بروقت رُک نہ جاتی ،توصورتحال ستمبر2014جیسی بھی ہوسکتی تھی،لیکن خداکاشکر ہے کہ بارشیں رک گئیں اور دریائے جہلم میں پانی کی سطح بھی نیچے آگئی۔ان حالات نے ایکبارپھرجموں کشمیر میں آفات سماوی سے نمٹنے کیلئے مناسب ڈھانچے کی ضرورت کواُجاگر کیا۔اگرچہ یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام آفات سماوی کو روکا جاسکے لیکن اُن سے ہونے والے نقصان کو ضرورکم کیاجاسکتا ہے۔تاہم ریاست کی متواترحکومتوں کے ردعملی رویہ نے یہ ظاہرکیا ہے کہ جموںوکشمیرقدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کیلئے معقول طریقے سے تیارہی نہیں ہے۔اگرچہ حکومت نے کچھ عرصہ قبل جموں کشمیرکیلئے آفات سماوی سے نمٹنے کیلئے ڈرافٹ پالیسی کو منظوری دیدی۔دیگرباتوں کے علاوہ ڈرافٹ پالیسی میں آفات سماوی سے بچاؤ،ان کا مقابلہ کرنے اور اس کی تیاری ،مختلف محکموں کے درمیان تال میل اورقدرتی تباہیوں کا تدارک کرنے کے دیگرپہلوؤں پر مفصل بات کی گئی ہے۔اس میں تباہی سے قبل اورمابعد مختلف امور پربھی بحث کی گئی ہے۔پالیسی میں رقومات کی فراہمی اورڈھانچے کی تیاری پربھی غورکیاگیا ہے۔کاغذی طوریہ پالیسی قابل تعریف ہی ہے،لیکن ماضی کے تجربات کومدنظررکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔کسی بھی ناگہانی آفت کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں تمام متعلقہ اداروں کے درمیان بھرپورتال میل ہو۔جموں کشمیرمیںجہاںکسی بھی وقت بھونچال،زمین کھسکنے ،برفانی طوفان یابادل پھٹنے جیسے واقعات پیش آسکتے ہیں ،میں آفات سماوی کی پیشن گوئی ،ان کا تدارک اور مقابلہ پیشہ ورانہ طور کرنے کی ضرورت ہے۔تباہی سے متاثرآبادی کی بازآبادکاری،امداد اوربچاؤکارروائیوں کیلئے ایک غلطیوں سے مبرانظام کاموجودہونا بھی لازمی ہے۔کم سے کم انتظامیہ سال کے بارہ مہینے کسی بھی ناگہانی آفت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہونی چاہیے۔اس کیلئے متعلقہ اداروں کوہرسطح پرتیاری کی حالت میں متحرک رکھنااور ان کی استعدادبڑھانے کے ساتھ ساتھ لازمی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی بھی سعی ہونی چاہیے۔اکثرقدرتی آفات کے حوادث کے دوران بجلی،پانی اور ٹیلی کمیونی کیشن کے ذرائع ٹھپ ہوجاتے ہیں۔اس کا تدارک بہتر طورتب ہی ہوسکتا ہے جب ایسی سہولیات اور ان کیلئے درکار دیگر ڈھانچوںکو اس طور تعمیرکیاجائے کہ ان پر ایسی آفات کا کم ہی اثر ہو۔ قدرتی آفات کے دوران جانی اور مالی نقصان کوکم سے کم کرنے کیلئے حکام کو جدید سائنسی تحقیقات سے استفادہ کرنا چاہیے۔یوٹی انتظامیہ کیلئے لازمی ہے کہ وہ تساہل پسندی کو ترک کرکے عملہ اور مشینری کو کسی بھی قدرتی یا انسانی حادثے کا مقابلہ کرنے کیلئے تیاری کی حالت میں رکھے۔نیشنل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ ایکٹ2005کی رو سے قدرتی آفات کاقبل ہی پتہ لگانے اورصحیح پیش گوئی کرنے کیلئے درکارنظام کو نصب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔قدرتی تباہیوں کامقابلہ کرنے کیلئے آفات سماوی سے نمٹنے کے منصوبوں کوغیرمرکوزکیا جائے اورعوام میں بیداری لانے کیلئے انہیں اس تعلق سے بھرپورآگاہی دلانے کی مہم شروع کرنا وقت کی ضرورت ہے۔آفات سماوی کامقابلہ کرنے کیلئے اورایک چیزلازمی ہے وہ ہے انتظامی عزم اور عوامی تعاون جس کے بغیر کسی بھی مصیبت کا مردانہ وار مقابلہ ناممکن ہے۔
سوشل میڈیا رحمت بھی اور زحمت بھی !
قدرتی آفات کاتدارک
