وادیٔ کشمیر میں جہاں ناجائز اور غیر قانونی دھندے،منشیات کا کاروبار ،نقلی ادویات کی فروخت ،ناجائز منافع خوری ،لوٹ کھسوٹ اور رشوت خوری کے رجحان میںکوئی کمی نہیں ہورہی ہے وہیں جرائم کی وارداتوں کے ارتکاب میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ظاہر ہے کہ بےروزگاری،معاشی بدحالی،مفلسی اور بھوک ایک ایسی لعنت ہے جو بہت سی ایسی خرابیوں کو جنم دیتی ہے،جن سے نہ صرف معاشرے میںاخلاقی اور ذہنی بیماریاں پھیل جاتی ہیں بلکہ چوری چکاری، نقب زنی ،لوٹ مار،عصمت فروشی اور قتل جیسے جرائم کا سلسلہ بھی فروغ پاتا ہے اور پھر ایسے ایسے واقعات منظرِ عام پر آتے رہتےہیں کہ انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔بغور جائزہ لیا جائے تو گذشتہ ایک ڈیڑھ دہائی کے دوران وادی ٔ کشمیر میں اسطرح کے بہت سارے ایسے المناک اور حیران کُن واقعات رونما ہوتے چلے آرہے ہیں جن سے محض انسان کے دِل ہی دہل نہیں جاتے بلکہ آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔اگرچہ زیادہ تر معاملوں میںملوث مجرموں کو پولیس کھوج لیتی ہے،انہیں پکڑتی بھی ہے ،اُن کے خلاف کاروائیاں بھی کرتی رہتی ہیں اوربعض اوقات مالِ مسروقہ بھی برآمد کرلیتی ہے،لیکن اس سب کچھ کے باوجود ان بُرائیوں،خرابیوں،ناجائز و غیر قانونی مجرمانہ کاروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے۔
جبکہ عوامی حلقوں کے بقول سرینگر شہراور دیگر اضلاع کے مختلف علاقوں میںایسے ایسے ناجائز ،نازیبا ،غیر اخلاقی اور غیرقانونی دھندے چلتے ہیں اور جن کی وجہ سےالمناک واقعات بھی رونما ہوتےرہتے ہیں ،جویا تو پولیس کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں یا پولیس کی نظروں میں لائے ہی نہیں جاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ان کاموں میں ملوث افراد آرام سے نکل جاتے ہیں اور بلا کسی خوف و کھٹکے اپنی کالے کام انجام دیتے رہتے ہیں۔نتیجتاًخرابیاں ، بُرائیاں،ناجائز دھندےاور جرائم فروغ پارہے ہیں،البتہ جب کبھی کوئی بڑا المناک واقعہ رونماہوجاتا ہے ،تب در پردہ حقائق سامنے آجاتے ہیں۔لوگ کیوں اور کن مصلحتوں کے تحت تب تک خاموش تماشائی بن جاتے ہیں ،جوبات سمجھ سے باہر ہے بلکہ ہمارے معاشرے کے لئے ایک بڑا المیہ ہے۔ایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ ایسے معاملات میں اُن لوگوں کے اولاد یا رشتہ دار بھی شامل ہوتے ہیں ،جن کا ان علاقوں میں معزز اور بااثر ہونے کے باوصف دبدبہ ہوتا ہے اورجن کی پہنچ اونچے ایوانوں میں بیٹھنے والے لوگوں اور متعلقہ سرکاری محکموں کے اعلیٰ افسروں تک ہوتی ہے،جس کے باعث ان علاقوں کے باشندگان اصل حقائق سے آنکھیں چُرا لیتے ہیںاور خاموشی میں ہی اپنی خیر سمجھتے ہیں۔
بے شک جرائم کی روک تھام کے لئے ذمے دار محکموں میں پولیس کا ادارہ ساری دُنیا میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے اور ہمارے یہاں بھی یہ محکمہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے، تاہم بعض اوقات اس حوالے سے ذمہ دار محکمہ کی صورت حال خاصی مختلف بھی نظر آتی ہے۔اگرچہ محکمے میں فرض شناس افسروں اور اہلکاروں کی موجودگی سے بھی ہرگزانکار نہیں کیا جاسکتا جو انسداد جرائم کی مہمات میں اپنی زندگیاں تک دائو پر لگادیتے ہیںاور مجرموں کے تعاقب میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔پھر بھی یہاں کی انتظامیہ کے تقریباً سبھی شعبوں میں بدعنوانیاںجڑ پکڑ چکی ہیں اور بغیر کسی خوف و کھٹکے لوٹ کھسوٹ اور غیر قانونی کاروائیاں انجام دی جارہی ہیں،جبکہ ہر محکمہ میں موجودکچھ ذمہ دار ملازمین،عام اہلکار اور افسر بھی اپنے پیش رَوئوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ذاتی مفادات کی آڑ میں بدعنوان اور جرائم پیشہ عناصر کی کالی کرتوتوں پر پردہ ڈال رہے ہیں۔جس کے نتیجے میں کشمیر کو جرائم اور غیر قانونی دھندوں سے صاف و پاک کرنے کی ٹھوس کوششیں نہیں ہورہی ہیں۔حالانکہ یہ طے ہےکہ کوئی بھی مجرم زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہ سکتا کیونکہ بُرے اعمال انسان کو بالآخر تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورت حال کو یکسر بدل دیا جائے تاکہ بہت جلد تمام قانون شکن لوگ اور جرائم پیشہ عناصر کے لئے تمام راہیں مسدود ہوجائیںاور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔