جموں//آج ریاستی قانون ساز کونسل کے مزید 4 اراکین کے عہدہ کی معیاد ختم ہو گئی ، اس کے ساتھ ہی قانون سازیہ کے ایوان بالا کے اراکین کی تعداد 30رہ گئی ۔ آج جن4 کونسل ممبران کی 6سالہ معیاد ختم ہوئی ان میں سے2کا تعلق نیشنل کانفرنس اور دیگر دو کا تعلق کانگریس سے۔ کانگریس کے غلام نبی مونگا اور شام لال بھگت جب کہ نیشنل کانفرنس کے علی محمد ڈار اور شہناز گنائی 2013میں پنچایت کوٹہ سے ایوان بالا کیلئے منتخب ہو ئے تھے۔بلدیاتی اداروں کے کوٹہ کی2نشستیں مسلسل 2008اور 2011سے خالی پڑی ہوئی ہیں۔ایک نشست 2008میں پی ڈی پی لیڈر نظام الدین بٹ کے ایوان زیریں کیلئے منتخب ہونے کے بعد کونسل سے مستعفی ہونے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی تو بلدیاتی کوٹہ سے کانگریس کے ارویند سنگھ مکی نے بطور ایم ایل سی اپنی معیاد 2011میں پوری کر لی تھی اور بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی میں یہ دونوں نشستیں تب سے مسلسل خالی ہیں۔ ایوان بالا میں اب نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اراکین کی تعداد چار/ چار رہ گئی ہے جب کہ پی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے گیارہ/گیارہ اراکین ہیں۔ آئندہ مارچ تک مزید 8کونسل ممبران کے عہدہ کی معیاد پوری ہو رہی ہے جس کے نتیجہ میں 36رکنی ایوان بالا کی تعداد دو تہائی سے بھی کم رہ جائے گی ۔ اگلی سہ ماہی میں جن اراکین قانون ساز کونسل کی معیاد ختم ہو رہی ہے ان میں پی ڈی پی کے نعیم اختر، یشپال شرما اور فردوس ٹاک، کانگریس کے محمد مظفر پرے، رانی بلوریہ اور نریش گپتا، نیشنل کانفرنس کے شوکت حسین گنائی اور بی جے پی کے صوفی یوسف شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ نعیم اختر، محمد مظفر پرے، شوکت حسین گنائی، رانی بلوریہ اور نریش گپتا 2013میں پورے 6برس کیلئے منتخب ہوئے تھے جب کہ فردوس ٹاک اور صوفی یوسف 2015میں اور نیشنل کانفرنس کے دیویندر سنگھ رانا کے 2014اسمبلی انتخابات میں بطور ایم ایل اے منتخب ہونے کے بعد کونسل سے مستعفی ہونے کی وجہ سے خالی ہوئی نشستیں کیلئے چنے گئے تھے۔ دریں اثناء قانون ساز کونسل چیئرمین حاجی عنایت علی ، کونسل سیکرٹریٹ کے اعلیٰ افسران اور عملے نے کونسل کے چار ممبران کو اُن کی معیاد مکمل ہونے پر گرمجوشی کے ساتھ الوداعیہ دیا ۔ اس موقعہ پر ایک پُر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں غلام نبی مونگا ، شام لال بھگت،ڈاکٹر شہناز گنائی اور علی محمد ڈار کو الوداعیہ دیا گیا ۔ اس موقعہ پر دیگر ممبران جن میں سیف الدین بٹ ، قیصر جمشید لون ، شوکت احمد گنائی ، فردوس احمد ٹاک اور محمد خورشید عالم موجود تھے ، نے بھی تقاریر کیں ۔