سرینگر// قانون حبس (habeas corpus) کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات کی عمل آوری میں تاخیر کے سبب طویل عرصے سے مقید افراد کے معاملات کا نپٹارا موررہ وقت کے اندر ممکن نہیں ہوپارہا ہے جس پر قانونی ماہرین تشویش کااظہار کررہے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ کی اس ضمن میں مخصوص ہدایات پر عمل درآمد کیا جاتا تو سیفٹی ایکٹ جیسے قوانین کے تحت نظر بند افراد کے خلاد دائر کیس کا نپٹارا محض15روز میں ممکن ہوپاتا ۔ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اگست 2016سے اب تک عدالت عالیہ میں سیفٹی ایکٹ سے جڑے تقریبا200معاملات زیر سماعت ہیں ۔ان معاملات میں ایسے بھی افراد کے کیس زیر کارروائی ہیں جن پر عائد سیفٹی ایکٹ عدالت عالیہ کی جانب سے کالعدم قرار دئے جانے کے فورا بعد ان پر دوسرا پی ایس اے نافذ کیا گیا ۔ان معاملات میں حالیہ ایام کے دوران قیدیوں کی طرف سے کیسوں کی پیروی کررہے معروف قانون دان اور بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم نے بار بار یہ معاملہ عدالت عالیہ کے سامنے اٹھایا ۔کشمیرعظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایڈوکیٹ میاں قیوم نے کہاکہ 2005میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک رولنگ آئی تھی جس کی رو سے عدالتوں پر لازم تھا کہ وہ کیسوں کے نپٹارے کیلئے وقت کا تعین کریں اور اس حوالے سے قوانین حبس کے تحت آنے والے معاملات کو15روز کے اندر ہی نپٹانے کی ہدایت دی گئی تھی ۔انہوں نے کہاکہ اس بارے میں سابق چیف جسٹس جسٹس بارین گوش کے سامنے درخواست پیش کی جنہوں نے اس معاملے میں Statury Rulesکو منظوری دی جس کی رو سے قانون حبس کے تحت زیر سماعت معاملات کو15روز کے اندر ہی نپٹایا جانا لازمی ہے ۔قانون حبس کے تحت گرفتار فرد کی جانب سے عدالت عالیہ سے رجوع کئے جاتے ہی عدالت عالیہ سرکار کو 48گھنٹوں کے اندر ہی عذرات پیش کرنے کی نوٹس اجرا کی جاتی جبکہ حسب ضرورت ایک ہفتے کا اضافی وقت دیا جاتا جس کے دوران عرضی گذار بھی جوابی عذرات پیش کرسکتا ہے۔ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم کے مطابق آج تک اس سٹیٹری رول پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوسکا ہے حتیٰ کہ سابق چیف جسٹس جسٹس کلیف اللہ کے سامنے بھی انہوں نے 2011کے دوران یہ معاملہ اٹھایا تھا ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ عدالت عالیہ اس معاملے میں جلد ہی فیصلہ لیں گے تاکہ غیر قانونی طور سیفٹی ایکٹ کے اطلاق سے متاثر ہوئے افراد کو راحت مل سکے ۔یہ بات قابل ذکر ہے ایجی ٹیشن2016کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ بڑھ گیا ہے جبکہ سیفٹی ایکٹ کے تحت مقید افراد روزانہ عدالت عالیہ سے رجوع کررہے ہیں ۔قانونی ذرائع نے بتاےا کہ ایک ہفتے کے اندر 20سے زائد افراد پر عائد سیفٹی ایکٹ کالعدم قرار دئے گئے تاہم ان میں سے بیشتر پر سر نو اس ایکٹ کا اطلاق عمل میں لایا گیا جبکہ دیگر قیدی تھانوں یا جے آئی سی مراکز میں بند ہیں ۔سیفٹی ایکٹ کے تحت مقید افراد کی طرف سے کیسوں کی پیروی کررہے ایڈوکیٹ ناصر قادری کا کہنا ہے کہ یہ ایک روایت ہی بن چکی ہے کہ عدالت عالیہ کی طرف سے پی ایس اے کالعدم قرار دئے جانے کے باوجود بھی انہیں رہا نہیں کیا جاتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ایک ہفتے کے دوران عدالت عالیہ میں 20سے زائد کیسوں کا نپٹارا عمل میں لایا گیا اور لگ بھگ 20قیدیوں کی رہائی کے احکامات صادر ہیوئے لیکن زمینی سطح پر ان احکامات کی سو فیصد عمل آوری نہیں ہورہی ہے جو تشویش کا امر ہے ۔