آقائے نامدار ،خیر البشر ،پیغمبر جن و انس اور رسولِ بحرو بَر صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ٔ رشدو ہدایت کے دوران ایک خاتون سے چوری کی خطا سرزد ہوئی ،چونکہ وہ عرب کے ایک معزز اور نامدار قبیلے سے تعلق رکھتی تھی،اس لئے قبیلے کے بزرگوں نے سوچا کہ اگر خاتون کو اسلامی شریعت کے مطابق قرار واقعی سزا ملتی ہے اور ہاتھ کٹنے پر تاسف تو ہر ایک کو ہوگا مگر قبیلے کی رسوائی ہوجائے گی اور ساکھ و عزت مٹی میں مل جائے گی سو الگ۔اس لئے قبیلے کے بزرگوں نے باہمی مشورہ کرکے حضور ؐ کے بے حد قریب ایک صحابی ؓ سے رابطہ قائم کیا۔حضرت زید بن حارثؓ کو حضور اکرم ؐ اپنے بچے کی طرح عزیز رکھتے تھے اور اُن سے بے حد اُنس و الفت بھی رکھتے تھے۔
صحابی حضرت زیدؓ حضور دو عالم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصوروار خاتون کے لئے درگزر کرنے کی سفارش کی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت خشم گیں ہوئے اور زیدؓ سے سخت لہجہ میں فرمایا کہ میں تمہیں عزیز رکھتا ہوں اور تم سے محبت کرتا ہوں مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم اللہ کے کلام اور حکم میں تبدیلی کے مدعی بن کر گناہ اور سزاکے طلب گار ہو ۔خبردار ! آئندہ اس طرح کی کوئی بات میری دانست میں نہیں آنے پائے اور یہ بات یاد رکھو اگر میری دختر فاطمہ ؓ سے بھی ایسا قصور سرزد ہوجائے تو واللہ محمد ؐ اس کو سزا اپنے ہاتھ سے دیں گے اور اس میں ذرا بھر بھی دیر نہیں کریں گے ۔
عدل و انصاف کے ڈانڈے اسی طرح پورے ہوتے ہیں اور جب یکساں کو ڈ و شرعی قانون ہر کہہ و مہہ پر اعلیٰ و ادنیٰ اور ہر امیر و غریب پر یکسان طریقے سے نافذ ہو تو سماجی اور ملکی انصاف کا سنتولن برقرار رہتا ہے۔اگر قانون نافذ کرنے میں ذرا سی بھی اونچ نیچ ہوگئی تو ملکی نظام بگڑ کر لاقانونیت اور ’’مائٹ از رائٹ‘‘(Might is right)کا قانون اُس کی جگہ لے کر اندھیر نگری مچ جاتی ہے اور جلد ہی ایک ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ حکومت سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے اور ملک میں انارکی اور استحصال شروع ہوجاتا ہے ۔
آپ کے مشاہدے میںیہ بات ضرور ہوگی کہ سعودی عرب میں کرائم ریٹ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں اسلامی یا قرآنی قانون کی حکمرانی ہے جس کا اطلاق سب پر یکسان رہتا ہے۔ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ساری دنیا یہ س کر ششدر اور حیراں رہ گئی ۔۔۔نہ صرف یہ بلکہ تعریف و تو صیف کے کلمات سے رطب اللسان ہوگئی۔۔۔۔ جب سعودی حکومت نے شاہی خاندان کے ایک شہزادے کا عوام کے روبرو سر تن سے جدا کردیا ۔اگر شاہی خاندان کو مدنظر رکھ کر قاضی القضاہ (چیف جسٹس)سے قانون کو صحیح صحیح طریقے (In word and spirit)سے ذرا سی بھی چوک ہوجاتی تو دنیا بھر کی انگلیاں مسلم ریاست کی جانب تنقید و تضحیک میں کھڑی ہوجاتیں ۔حالانکہ شاہی خاندان یا حکومت ِوقت کے کانوں پر اس مخالفت سے جُوں تک نہ رینگتی مگر اغیار کے لئے ساڑھے چودہ سو سالہ مساوات و انصاف کے علم کے جھکنے سے ایک اچھوتا موضوع ہاتھ آجاتا اور جو اسلام دشمن طاقتیں خاص طور پر یہود و نصاریٰ ،بودھ و ہنود پہلے ہی سے اسلامی تشخص ،بھائی چارہ ،بندگی و سادگی ،شرافت و قوتِ برداشت ،مہمان نوازی ،ایثار و قربانی ،صبر و قناعت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی ہر ممکن و غیر ممکن کوشش و ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں ،ان کے تو وارے نیارے ہوجاتے اور ہندوستان کی متعصب اور مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا نفرت رکھنے والی جماعتوں کو سلمان ؔرشدی ،تسلیمہ نسرین ؔ،اور طارق ؔفتح جیسے مزید خباچتوںکو اپنا سرکار ی مہمان بنانے اور اُن پر وارے نیارے ہونے اور مسلمانوں کے ساتھ زیادہ استحصال (Exploitation)کرنے کے مواقع ہاتھ آجاتے مگر اُن کے چہرے بلا شبہ کالے پڑگئے۔
گردشِ تقدیر نے ہم کو جس ملک کا وقتی طور پر سبجیکٹ بنادیا ہے سوال اٹھتا ہے کہ اس میں ستھر کروڑ سے زیادہ لوگ بشمول مسلمان ،دلت اور قبائل کیوں ایک ناآسودہ اور غیر اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں ؟یہ سہمے اور ڈرے ہیں اور روز کنواں کھود کر پانی پینے کے عادی ہوچکے ہیں ،اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں قانون کی سب کے لئے یکساں طور پر عمل آوری نہیں ہورہی ہے ۔ہندو ؔکے لئے ایک نظرہے اور دوسرے درجے کے شہریوں کے لئے دوسرے ڈانڈے ہیں۔۔۔۔دامنیؔ کا ریپ ہوا ،بڑی گھناونی ،اوچھی اور انسانیت سوز حرکت تھی،سارا بھارت بشمول مسلمان ،دلت احتجاج میں اُمڈ پڑا ۔دہلی کے پہاڑ گنج علاقے میں ایک بدیشی لڑکی کی آبرو باختگی ہوئی ،اُن مجرموں میں ایک نابالغ لڑکا بھی تھا مگر جج نے اُس کاعمر اور بلوغیت کو نہیں اُس کے جرم کو دیکھا ،سب کو سزائیں ہوئیں ۔اس کے برعکس ایک روزہ دار مسلمان لڑکی کی بھی دن دھاڑے چلتی ٹرین میں عصمت دری کی گئی ،احتجاج تو کجا کسی نے ہمدردی میں بھی دو بول نہ کہے۔یہ جان کر حیرانگی ہوجاتی ہے کہ ممبئی میں ڈاکٹروں ،انجینئروں اور دیگر پڑھے لکھے مسلمان نوجوانوں کی ایک کھیپ کو دس سال تک جرم بے گناہی میں جیل میں رکھ کر اُن کا کیرئیر تباہ کردیا گیا ،آخر کیوں ؟ کس جرم میں ،کیا مسلمان ہونا ہی بذات خود جرم ہے!!!
سابقہ ایام کی دل شکن باتیں چھوڑیئے، سن 2017میں ہی کتنے مسلمان نوجوانوں بلکہ ادھیڑ عمر کے لوگوں کو پیٹ پیٹ کر بلا قصور کے قتل کیا گیا ۔آخر کیوں؟انہوں نے کونسی خطا کی تھی؟عید کا سامان لے کر گھر جارہے جنیدؔ کا کیا قصور تھا ؟کیا یہ کہ اس کے سر پر سفید ٹوپی تھی۔مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف ہزار ہا زیادتیاں ، عصمت دری ،لوٹ،آگ زنی ،قتل ،مال و اسباب کے اتلاف کے جرم میں سزا آج تک کیا کسی ہندوؔ ؔکو دی گئی ؟سابقہ ستھر برس میں مسلمانوں کو مٹانے کے لئے چالیس ہزار دنگے کرائے گئے ۔ممبئی میں سنہ 2003ء میں خود پولیس نے جرائم میں حصہ لیا (سری کرشنا رپورٹ)۔آج تک بتایئے کس کو کیا سزا ملی؟ہاں سزا ملی تو صرف مسلمان کو ،دلت کو ،آدھی واسی کو اور وہ بھی جرم بے گناہی ہی میں۔اس کے برعکس افضل ؔگورو کو ملک دشمن ثابت کرکے پھانسی دی گئی اور پرائم منسٹر آنجہانی راجیو گاندھی کے قاتل جنگل میں منگل منا رہے ہیں ۔اقبالی مجرم سادھوؔی بھجن کیرتن معمول کے مطابق کررہی ہے اور کرنل پروہتؔ صاحب اپنے فوجی یونٹ میں ’’چیرس‘‘کررہے ہیں۔
اس طر ح سے جب قانون کا استحصال ہوتا ہے، تو پھر ملک کا نظام زیادہ دیر تک نہیں چلتا ۔بزرگ دانشوروں کی پیش گوئی ہے کہ ہندو ستان کو خود ہندؔو ہی لے ڈوبے گا اور ٹکڑے ٹکڑے کردے گا ۔ایسا لگتا ہے کہ وہ وقت قریب تر آگیا ہے ۔دنیا کی تاریخ خود ایک منہ بولتی تصویر ہے ۔کتنی قومیں ،کتنی تہذیبیں ،کتنے راجے مہاراجے ، کتنی سلطنتیںدنیا پر چھاکر معدوم ہوگئیں؟؟؟عدل و انصاف اور رعایا پرور بادشاہ تاریخ کے اوراق پر زندہ رہے اور آگے بھی رہیں گے ۔اس کے برعکس پاپیوں کی داستان تک بھی باقی نہ رہی داستانوں میں۔یہی قانون ِ قدرت ہے ،یہی اسلوب فطرت ہے ؎
منصف کے فیصلے کو بتائو میں کیا کہوں
وہ قتل عام کرکے بھی قاتل نہیں رہا
فرمانؔچودھری
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995