سیرت و کردار کی بلندی وپاکیزگی ،قول و فعل میں مطابقت و ہم آہنگی اور زندگی بھر کے لئے اعلیٰ اصولوں اور بلند اخلاقی و انسانی اقدار کو اپنا نصب العین اور شعار بنا لینا اور چٹان کی طرح مضبوطی و مستقل مزاجی سے ان پر قائم رہنا، یہ وہ انمول اوصاف ہیں جو ایک انسان کو دیگر عام لوگوں سے ممتاز کرتے اور اس کی شخصیت و خودی کو رفعت و بلندی عطا کر کے اسے دائمی زندگی بخشتے ہیں لیکن فی الوقت اس زوال پذیر اقدار کی دنیا میں ایسے افراد شاذ و نادر ہی چراغ لے کر ڈھونڈے ہی اگر دستیاب ہو جائیں تو وہ کسی معجزے سے کم نہ ہوں گے۔میں نے اپنی زندگی میں محض محدودچند لوگ ایسے دیکھے ہوں گے جن میں بیک وقت یہ تمام اوصاف موجود ہوں ۔ اور ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہماری کمزوریوںکے باوجود دنیا کا یہ نظام چل رہا ہے ۔ مولانا قاضی محمد عبد اللہ مرحوم کی شخصیت بھی ان مخصوص اور معدودے چند لوگوں میں سے ایک ہے ۔وہ خطۂ پیر پنچال کی ایک اہم علمی و ادبی اور تاریخی شخصیت گذری ہے ۔
مرحوم قاضی محمد عبد اللہ کی پیدائش راجوری قصبہ سے کوئی بارہ کیلو میٹر دور جانبِ مشرق کنڈی بدھل روڈ پر واقع موضع چڑھان میں مولانا حافظ عبد الکریم قریشی مرحوم اور اس خطہ کے ممتاز شخصیت و عالم ِدین مولانا محمد عثمان قریشی کے خاندان میں ۱۹۳۰ ء میںہوئی ۔ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں خاندان کے بزرگوں سے حاصل کی اور بعد ازاں ایشیا کی مشہور علمی دانش گاہ دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر علوم اسلامیہ میں باقاعدہ سندفراغت حاصل کی اور راجوری میں واپس آکر اپنے ہی گاؤں میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر کے دینی و تحریکی کام کی بنیاد ڈالی ۔ان کے ہم عصر ساتھیوں میں مولانا انور شاہ مرحوم ،مولانا فیض الحسن مرحوم استاذ دار العلوم دیوبند اور مینڈھر پونچھ کے مولانا نورالحسن خاکی مرحوم تھے ۔یہ سبھی لوگ اس خطہ کی کریم اور ممتاز شخصیات تھیں ۔انہوں نے اس خطہ میں ۱۹۴۷ ء کی جنگ اور تباہی کے بعد ایک نئے جذبے و عزم کے ساتھ احیائے دین کی تحریک کا ابھی آغاز ہی کیا تھا کہ اسی اثنا میں دوبارہ ۱۹۶۵ ء کی ہند و پاک جنگ کا آغاز ہو گیا اور خطۂ پیر پنچال کے کوہ و صحرا آزادی کے نعروں سے گونجنے لگے ۔مولانا محمد عبد اللہ جواں سال عالم ِدین ہونے کے ناطے اسلام اور آزادی کی اس تحریک میں بہ نفسِ نفیس کود پڑے اور لگ بھگ دو ماہ تک میدانِ کار زار میں سر گرم عمل رہے مگر بدنام زمانہ معاہدۂ تاشقند اور راجوری کے سقوط کے بعد دیگر ہزاروں حریت پسند گوریلاؤں کے ساتھ قاضی محمد عبد اللہ کا یہاں قیام نا ممکن ہو گیا ۔اس لئے ظلم و بر بریت سے بچنے کی نیت سے یہ سب لوگ ہجرت کر کے کنٹرول لائن کے اُس پار جانے پر مجبور ہو گئے ۔
قاضی محمد عبد اللہ کا خاندان ہجرت کے بعد کنٹرول لائن کے اُس پار میر پور میں قیام پذیر ہوا ۔جہاں سے وہ کچھ عرصہ بعد مزید حصول تعلیم کی خاطر سعودی عربی چلے گئے ۔وہاں اُم القریٰ یونیورسٹی مکۃ المکرمہ سے عربی ادب، قرآن و حد یث ا ور فقہ و جدید عصری مسائل پر مزید تخصص و عبور حاصل کر کے واپس میر پور آئے ۔ حکومت ’’آزاد کشمیر‘‘ کی عدلیہ میں بطور ضلع قاضی (سیشن جج)تقرر ہوا اور اسی منصبِ جلیلہ پر اپنے فرائض نہایت دیانتداری اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق انجام دیتے ہوئے دورانِ ملازمت ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے ۔
قاضی صاحب مرحوم اپنے علم ،سیرت و کردار ،تقویٰ و پرہیزگا ر ی اور اعلیٰ اصولوں کے باعث ایک عظیم اور قابل تعریف مر د جلیل تھے ۔دنیوی امور و معاملات میں وہ حد درجہ محتاط رہتے اور ابہام پیدا کرنے والی اشیاء و امور سے کوسوں دور رہتے تھے ۔ انہوںنے اپنے افراد خانہ کی تربیت و کردار سازی بھی اسی نہج پر کی تھی جس کی بناپر میر پور میں ان کا گھر ایک مثالی اسلامی گھر انہ مانا جاتا ۔اسلامی آداب و اقدار کا وہ کس قدر پاس و لحاظ کرتے تھے اس کا اندازہ ان کی گھریلو اور روز مرہ کی عوامی زندگی و معاملات سے ہوتا تھا ۔ان کے بڑے بیٹے کا نام عبد الرؤف ہے جو اس وقت میر پور میں ایک بڑے کارو باری ہیں اور اپنے والد مرحوم کے اصولوں اور نقوش قدم کے پیرو کار ہیں ۔ وہ مدینہ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ اور با صلاحیت عالم دین بھی ہیں مگر قاضی محمد عبد اللہ مرحوم نے اپنے بیٹے کو اپنی آخری زندگی میں وصیت کی تھی کہ نوکری کی خاطر سرکاری قضا کا عہدہ کبھی قبول نہ کرنا، ممکن ہے تم اس نازک ذمہ داری کے تقاضوں کو پورا نہ کر سکو جس کی وجہ سے میری روح کو تکلیف ہوگی ۔چنانچہ ان کی وفات کے بعد حکومت ’’آزاد کشمیر‘‘ نے ان کے بیٹے کو اس منصب پرکام کرنے کی پیش کش کی تھی مگر والد صاحب کی وصیت کے مطابق فرماں بردار بیٹے نے اس بڑے اور مراعات یافتہ عہدے کو ٹھکرا کر نجی کار و بار کو ترجیح دی ۔
مرحوم قاضی صاحب کے گھر کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ گھر میں عام افراد کو پورے ناموں سے پکارا جاتا تھا ۔آدھا نام لینا جو ویسے بھی شرعاً غلط ہے ،قاضی صاحب کو سخت ناگوار ہوتا تھا ۔مثلاً ان کے بڑے بیٹے کانام عبدالرؤف تھا ،اگر کوئی آدمی اسے رؤف کے نام سے پکارتا تو قاضی صاحب بہت کبیدۂ خاطر ہو کراپنے اضطراب اور ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے۔ایک دفعہ میں ان کے گھر میں اُن کے ساتھ کسی علمی موضوع پر گفتگو میں مصروف تھا کہ باہر طلباء کی معروف تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے کسی نوجوان نے گھنٹی بجائی اور آواز دی کہ رؤف صاحب کہاں ہیں ؟میں دیکھ رہا تھا کہ یہ آواز سنتے ہی قاضی صاحب کے چہرے پر ناگواری کے آثار چھا گئے اور مجھے حکم دیا کہ ان صاحب کو اندر بلالاؤ۔یہ نوجوان اندر آیا ،قاضی صاحب نے پہلے چائے سے اس کی تواضع کی اور بڑے مربیانہ انداز میں کہنے لگے بیٹے: میرے بیٹے کا نام عبد الرؤف ہے ۔کسی کا نام لیتے وقت اس کے معنیٰ و مفہوم پر غور کر لینا چاہئے ۔آدھا نام پکارنے سے مفہوم بھی غلط ہو جاتا ہے اور آدمی گناہ گار بھی ہو جاتا ہے ۔عام لوگ غیر دانستہ طور پر اس قسم کی غلطی کرتے ہیں جو شرعی طور پر بہت غلط ہے ۔وہ نوجوان چائے بھی پی رہا تھا اور سخت شرمندہ ہوکر آئندہ اس قسم کی غلطی نہ کرنے کا وعدہ بھی دے رہا تھا ۔میں سمجھتا ہوں کہ میری زندگی کا وہ بہت قیمتی اور یادگار لمحہ تھا جب میں نے مرحوم قاضی محمدعبد اللہ کی نصیحت سن کر زندگی بھر کے لئے اس پر عمل کرنے کا عہد کر لیا ۔اس لئے میں جب بھی کسی آدمی کا نام لیتے ہوئے جہاں پہلے اس کے نام کے معنیٰ و مفہوم پر غور کر کے اسے زبان سے ادا کرتا ہوں تو مجھے مرحوم قاضی صاحب بھی یاد آجاتے ہیں۔اللٰھم مغفرہ‘وارحمھہ۔چونکہ رسول ِ رحمت ﷺ کا ارشاد ہے کہ حکمت و دانائی مومن کی گمشدہ متاع ہے ،جہاں سے بھی وہ ملے مومن اس کے حاصل کرنے کا سب سے زیادہ حق دار ہے ۔
مرحوم قاضی محمد عبد اللہ اور میں میر پور کے سیکٹر F/1 میں رہتے تھے ۔وہاں سے ایک سیدھی عام شاہراہ میر پور کے چوک شہیداں اور عدالتوں کی جانب جاتی تھی ۔ قاضی صاحب مرحوم عدالت میں اس عام شاہراہ سے ہٹ کر اور مختلف سیکٹروں کے اندرونی راستوں سے ہوکر پیدل آتے جاتے تھے ۔یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا ۔موسم چاہے بارش یا دھوپ کا ہو تا ، اُن کے ہاتھ میں چھاتا لازماًہوتا ، جب کہ عام حالات میں ایک پتلی سی بید کی چھڑی ہوتی اور ان کا انتخاب کردہ یہ پیدل راستہ طویل بھی ہوتا تھا ۔اس لئے میں نے ایک دن اُن سے دریافت کیا کہ آپ رکشے پر یا اگر پیدل ہی جانا ہے تو عام سیدھی شاہراہ چھوڑ کر اندرونی ٹیڑھے میڑھے اور طویل راستوں سے پیدل عدالت میں کیوں جاتے ہیں ؟میرے استفسار پر انہوں نے نہایت سنجیدہ ہو کر اس فعل کی تین وجوہات گنائیںجنہیں سن کر میں حیران ہو گیا ۔وہ تین وجوہات یہ تھیں
۱۔میں ایک کثیر العیال شخص ہوں، آمدن کا اور کوئی ذریعہ نہیں ،اس لئے رکشے کی سواری کی استطاعت نہیں رکھتا اور اسے فضول خرچ سمجھتا ہوں ۔ ۲۔پیدل آتے جاتے جہاں کفایت شعاری ا ور بچت ہوتی ہے اس میں مفت میں ورزش بھی ہوجاتی ہے ۔ ۳۔انجان راستوں سے پیدل آتے جاتے ان لوگوں کے احسان سے بھی محفوظ رہتا ہوں جو مجھے عام شاہراہ پر پیدل چلتے دیکھ کر زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا کر عدالت یا گھر تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن دوسرے روز اسی احسان کے بدلے کسی عدالتی کیس میں سفارشی بن کر عدالت آجاتے ہیں اور ناروا مراعات کے متمنی ہوتے ہیں ۔ اس لئے غیر معروف راستوں سے پیدل آنا جانا میرے لئے کثیر فوائد کا حامل ہے اور ضمیر بھی مطمئن رہتا ہے ۔
افسوس کہ آج کے اس مادیت پسند دور میں معیارِ زندگی اونچا کر نے کے لئے عدلیہ سے وابستہ اکثر لوگوں کی حالت انتظامیہ کے باقی لوگوں سے کچھ بھی مختلف نہیں ۔ اس وجہ سے بھی عوام کے لئے حقوق و انصاف کا حصول ناممکن بن چکا ہے ۔ جس ملک اور معاشرہ میں عدلیہ سے وابستہ لوگ بھی کورپٹ اور بد عنوان ہوں اور عدالتوں میں حقوق و انصاف کا کا قتل منہ مانگے داموں بولی پر ہو ، اس ملک اور سماج میں انارکی و انتشار پیدا نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا ؟قاضی محمد عبد اللہ مرحوم اپنے پیشہ وارانہ فرائض اور ذمہ داریوں اور عدالتی امور میں حد درجہ محتاط رہتے اور پوری امانت و دیانت کا مظاہرہ کرتے تھے ۔وہ ہمیشہ دفتری اوقات سے دس پندرہ منٹ قبل ہی جاکر عدالت کی کرسی پر بیٹھ جاتے اور سب سے آخر میں اس روز کے تمام کاموں کا نپٹارہ کر کے اٹھتے۔وہ اپنی خداداد صلاحیتوں ،ذہانت ،تقویٰ و پرہیز گاری اور خلوص کے باعث ’’آزاد کشمیر‘‘ کی عدلیہ اور انتظامیہ سے وابستہ سبھی لوگوں میں قابل ِ احترام و قابل ِاعتماد مانے جاتھے ۔ افسوس کہ ۱۹۶۵ کی ہند پاک جنگ بھی خطۂ پیر پنچال کے لوگوں کے لئے بالخصوص محرومیوں،ناکامیوںاور تلخیوں سے عبارت ہے جس میں پاکستان کی اس وقت کی ناعاقبت قیادت نے محاذِ جنگ پر جیتی ہوئی بازی تاشقند میں میز پر بیٹھ کر ہاردی اور اس خطہ کے لوگ دوہرے عذاب اور جبر و تشدد کے آسان اور دستیاب شکار ہونے کے علاوہ علم و فضل کی دنیا سے جڑیں ایسی سینکڑوں تاریخی شخصیات سے محروم ہو گئے جو اپنے علم و دانائی کے باعث اس خطہ کے عوام کی تقدیر بدل سکتی تھیں ۔مولانا قاضی محمد عبد اللہ بھی ان ہی زندہ و جاوید ،نابغۂ روز گار اور یاد گارِ زمانہ افراد میں سے ایک قیمتی لعل و گُہر تھے ۔ بقول سوداؔ
وہ صورت الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
سودا
نوٹ:مضمون نگار چیئرمین ا لہُدیٰ ٹرسٹ راجوری ہیں
رابطہ نمبر 7006364495