نام کتاب: ’’لمحات کے ساتھ‘‘
مصنف: قاسم سجادؔ
سنِ اشاعت: 2017ء
صفحات: 120
قیمت: 100/-روپے
شاعر، ادیب، و صحافی قاسم سجادؔ کی کتاب’’لمحات کے ساتھ‘‘ ہمارے سامنے ہے۔ کتاب میں مصنف نے اپنی ذاتی یادوں کے ساتھ 1960ء سے لے کر آج تک ارضِ کشمیر پر رونماہوئے کئی اہم تاریخی واقعات کے علاوہ کچھ بھولی بِسری تلخ و شیریں یادیں بھی قلم بند کیں ہیں۔ مصنف کی عمرِ رفتہ کے دوران پیش آئے حالات و واقعات پر مبنی اس ڈائری میں جہاں قارئین کو جماعت اسلامی اور الفتح نامی تنظیموں سے انکی وابستگی اور باغی کے طور قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے نوجوان قاسم سجادؔ نظر آتا ہے وہیں اُن کے دلوں میں قصبہ اسلام آباد کے سٹیڈیم میں ہفتہ بھر بغیر قیام پذیر رہے مشہور و معروف سائیکل کرتب باز افسر خان اور صاحبان کشف و کرامات سلطان صاحب بدسگامی اور قادر صاحب کائوسہ جیسے قلندروں کی مشامِ جاں کو معطر کرنے والی یادیں بھی تازہ ہوتی ہیں۔
اس ڈائری میں ضلع اسلام آباد کے ماضی سے جڑے تاریخی واقعات مثلاً سید جلال الدین کی شبینہ درسگاہ، مدہوش صاحب کی صحبتیں، شراب کیخلاف ہمہ گیر تحریک، افسر خان کا تماشا، اقبال ناتھ کا آندولن، دینداروں کیخلاف چرسیوں کا دعویٰ، مولوی محمد سعید مسعودی کی اسلام آباد میں تقریر، ہیجڑوں کی کانفرنس، شوریدہ صاحب کا اُردو کالج، بُک آف نالج کا ہنگامہ، سولہ کلو چاول کی تحریک، کلدیپ نیئر اسلام آباد میں، اسلامک ریلیف ٹرسٹ کا ظہور، پرنٹنگ پریس میں دھماکہ، آہنگر غیر ریاست میں دفن، اننت ناگ کا تاریخی مالی اسکینڈل، چمن لال کانٹرو کا مدرسہ، جارج فرنانڈیز ڈاک بنگلہ کھنہ بل میں، وومنز کالج اننت ناگ نذرِ آتش، دبدبہ سیٹھا کاس وغیرہ وہ جھلکیاں ہیں جن کو پڑھ کر صاف عیاں ہوتا ہے کہ اس ڈائری کو لکھتے وقت مصنف کو یہ کھٹکا لگا رہا ہے کہ کہیں ہم اپنے ماضی کے ورثے کو بھول نہ جائیں، کہیں ہماری نئی پود ڈسکو ڈانس اور پاپ میوزک وغیرہ میں اس قدر کھو نہ جائے کہ اُسے اسلام آباد کی تاریخ سے جُڑی شخصیات یاد ہی نہ رہیں۔
مزید’’لمحات کے ساتھ‘‘چلتے ہوئے ہمیں نظر آتا ہے کہ 1960ء سے لیکر آج تک ارضِ کشمیر پر زمانے نے کیا کیا رُخ بدلے، کیسی کیسی کروٹیں لیں۔ یوں زمانہ کے اس مطالعہ سے ہماری نئی پیڑی کو عصرِ حاضر کے موجودہ حالات کو سمجھنے اور صحیح نتیجوں تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔ الغرض الفتح کا قیام، بیگ پارتھا سارتھی بات چیت، بیگ صاحب کا ضمنی چنائو، 1966کا عام چنائو، 4؍اپریل کا طوفان، اعظم انقلابی کی اسلامک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، کامریڈ وانی کی طاقت، بیگ کا نیشنل کانفرنس سے اخراج، جماعت اسلامی کا پارلیمانی چنائو، مرار جی ڈیسائی کشمیر میں، جب ’’شہاب ‘‘آیا، عوامی نیشنل کانفرنس کا قیام، 1987ء کے چنائو اور دھاندلیاں، ہاشم قریشی نے جہاز اغوا کیا تھا، کشمیر پریس زیرِ عتاب، پیارے لال ہنڈو کا سیکولرازم، کہانی انگریز سیاحوں کے اغوا کی، پنڈتوں کی مائیگریشن، قاضی نثار کی ہلاکت، چھٹی سنگھ پورہ کا قتلِ عام، چرار شریف میں آگ، سانحہ شوپیاں وغیرہ ۔اس ڈائری کے 56؍وہ عنوانات ہیں جن سے یہ تاریخی اہمیت کی حامل بن جاتی ہے۔
ڈائری کے ہر باب کے موضوع کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس کے بارے میں استادِ مکرم پروفیسر غلام محمد شادؔ (جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے راقم ناشاد ہے) یوں رقمطراز ہیں:
’’لمحات کے ساتھ‘‘ نام کی اس ڈائری کے مطالعے میں جب قاری کی تجسسِ فکر بھی شامل ہوگی تو اس کا اختصار خود وضاحت میں تبدیل ہوتا جائیگا۔ یہی اس کا حُسن ہے‘‘۔
غرض مصنف نے اسے لکھتے وقت اپنا ادبی دبدبہ جمانے کا اہتمام نہیں کیا ہے، بس سیدھے سادے انداز میں تاریخی واقعات کو گھا گا گھر میں ساگر بھر کر پیش کیا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے لفظوں کے آئینوں میں ماضی کے دریچے کھُل جاتے ہیں اور ہمیں قدم قدم پر فتنے ہی فتنے نظر آتے ہیں اور یہی فتنے نیا رنگ و روپ لئے آج بھی ہماری کشمیر نامی زُلیخا کیلئے باعث عذاب بنے ہوئے ہیں اور ہند و پاک، چین وغیرہ درجنوں عاشقانِ کشمیر اس کی متاعِ جان و ایمان پر شب خون مارنے میں مشغولِ عمل ہیں۔
اس ڈائری کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس کے مصنف کشمیر کے حالات و واقعات پر ہمہ وقت سوچتے اور قلم گھِستے رہتے ہیں۔ ایسا کرنے کیلئے خونِ دل جلانے اور ذہن پگھلانے کی مشقت کرنی پڑتی ہے جو اب مصنف کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔
’’لمحات کے ساتھ‘‘سفر کرتے ہوئے قارئین کو سجادؔ صاحب کی شناسائی، دوستی اور رفاقت کا وسیع دائرہ بھی نظر آتا ہے جس میں ادب، صحافت، سیاست وغیرہ سے تعلق رکھنے والے صاحبانِ علم و فن کا ایک بڑا جھرمٹ دکھائی دیتا ہے۔ اس جھرمٹ میں سے اگر کوئی صاحبِ قلم سجادؔ صاحب کی اس مختصر تاریخی نوعیت کی ڈائری کا انگریزی ترجمہ کرے تو وسیع سطح پر اس کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
باقی تمام قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس کتاب سے متعلق اپنی آراء سے نوازیں۔ اس ضمن میں قارئین اخبار’’شہاب‘‘ کے ساتھ اپنی قلمی وابستگیوں کا اظہار کریں۔ جی ہاں! وہی اخبار’’شہاب‘‘ جس کے رنگوں میں قاسم سجادؔ صاحب نے اپنی تجربہ پسندی، باغیانہ ادا اور شاعرانہ شعور کو زندہ رکھا ہے۔