یہ کہاں آگئے ہم ۔۔یہاں کے چاند جیسے چہروں پر تو گرہن لگا ہے ۔۔۔سب مایوس اور پریشان ۔۔کوئی خوش نہیں ہے ۔۔۔میں اس بزرگ آدمی سے دریافت کرتا ہوں جو اس پارک میں چٹائی پر بیٹھا ہوا ہے کہ ماجرا کیا ہے ؟ ۔۔پہلے گاڑی کو پارک کرتا ہوں ۔۔۔اب ٹھیک ہے ۔۔۔حامد نے اپنی شریک حیات اور بچوں سے کہا ۔۔۔وہ بھی حیران کن نظروں سے اُداس چہروں کو تک رہے تھے۔۔۔
حامد گاڑی سے اترا اور سڑک کے نزدیک پارک میں بیٹھے اُس بزرگ کے پاس چلا گیا اور سلام عرض کی ۔۔۔چاچا جان ۔۔۔السلام علیکم ۔۔۔
بزرگ نے جواب دیا ۔۔۔۔وعلیکم السلام بیٹا۔
حامد نے پوچھا ۔۔۔چاچا جان ۔۔۔اس شہر کے لوگوں کو کیا ہوا ہے ۔کسی کے چہرے پر مسکان نہیں ہے ۔۔۔ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں ماتم کدہ ہیں ۔۔
بزرگ نے نرم لہجے میں کہا: بیٹا ، ہمارے زمانے میں یہاں خوشحالی راج کرتی تھی لیکن اب بدحالی کا راج ہے۔ پہلے یہاں محبت اور شفقت کے پھول کھلا کرتے تھے لیکن اب صرف نفرت کے اندھیروں کے کانٹے اُگتے ہیں ۔ اس شہر کے پشتنی باشندوں کے مسکرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔۔رونے کے سو بہانے ہیں ۔۔
حامد نے سوال کرتے ہوئے پوچھا: لیکن کیوں ؟
بزرگ نے تعمل سے کام لے کر کہا : یہ جو ارد گرد آپ کو باغبان نظر آرہے ہیں ۔۔ان سب کی تمناؤں کے باغ یا تو اجڑ گئے ہیں یا اجڑنے والے ہیں۔۔۔ان کے سہارے کی لاٹھیاں ٹوٹ چکی ہیں ۔۔ ۔۔۔جن کے چمن اجڑ گئے ہیں وہ مایوس اور نا امید ہیں ۔۔اور جن کے چمن ابھی کھلے ہوئیے ہیں وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ کہیں ان کے چمن اجڑ نہ جائیں۔
یہ باغبان اپنے گلوں کو بڑے پیار اور دلار سے تیار کرتے ہیں۔لیکن یہ گل اچانک بغاوت پر اتر آتے ہیں اور مالی کو درد دیتے ہیں۔
آستینوں کے سانپ انہیں شراب کی ایک بوتل یا چند سکوں کے خاطر بیچ دیتے ہیں ۔وقت کے بے رحم سوداگر ان گلوں کا سر قلم کر کے اپنا کاروبار چلاتے ہیں
حامد نے پارک کے بیچ سے بہنے والی ندی کا رنگ لال ہوتے دیکھا تو دنگ رہ گیا ۔۔۔اسی حیرانگی کے عالم میں اس نے بزرگ آدمی کو انگلی کے اشارے سے اس ندی کی طرف متوجہ کیا اور پانی کے لال رنگ کی وجہ پوچھی ۔۔۔
بزرگ نے گہری سانس لے کر کہا ۔۔۔اس شہر میں بڑے بڑے زبح خانے بھی ہیں جہاں آدم خور قصائی ماؤں کے جگر چیر لیتے ہیں ۔یہ لال رنگ بھی کسی کے جگر کا ہوگا۔
حامد نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا ؟۔۔چاچا ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟
اس نے مسکرا کر کہا: بیٹا ، اس شہر کی ہوا قاتل ہے ۔۔۔
یہاں کا پہرے دار رضوان نہیں مالک ہے
یہاں غموں کے اونچے اونچے پہاڑ ہیں اور مسکراہٹ کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ۔۔
حامد نے پریشان ہو کر کہا ۔۔۔میرے ساتھ بھی تو ایک ماں ہے جس کی تمناؤں کا باغ کھلا ہوا ہے ۔۔۔میں تو جنت سمجھ کر آیا تھا ۔۔۔
اس نے قہقہ لگا کر کہا ۔۔۔ہا !ہا! ہا !
جنت ۔۔۔تو ابھی بھی نہیں سمجھا۔۔۔
یہاں کی ہوا قاتل ہے اور شبنم زہر ۔۔۔واپس جا۔۔۔ کہیں اور چلا جا ۔۔۔ یہاں تیرا باغ پھولنے پھلنے سے پہلے اجڑ جائے گا ۔۔۔
حامد گھبرا گیا اور گبھراہٹ میں کہنے لگا ۔۔
۔۔۔۔۔جی جی ۔۔آپ نے سچ کہا ۔۔۔۔میں یہاں نہیں رہ سکتا ۔۔۔میرے گُل ابھی کھلے نہیں ہیں ۔۔۔میں کہیں اور چلا جاتا ہوں ۔۔ہاں کہیں اور ۔۔۔جہاں ہوا قاتل نہ ہو ۔۔۔اور شبنم زہر نہ ہو ۔۔۔جہاں غموں کے پہاڑ نہ ہوں بلکہ مسکرانے کی وجہیں بہت ہوں ۔۔۔لیکن کیا دنیا میں کوئی ایسی جگہ ہے ۔۔۔جہاں مجھے مجرم نہ کہا جائے ۔۔۔۔جہاں میرا چمن برباد نہ ہو ۔۔۔۔نہیں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے ۔۔یہ قاتل ہوا تو ہر جگہ موجود ہے ۔میں کہیں نہیں جاسکتا ۔۔
حامد نے روتے ہوئے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائیے اور کہنے لگا۔۔۔میرے خدا ۔۔اس قاتل ہوا سے نجات دے ۔۔میرے بچوں کو آدم خور قصائیوں سے محفوظ رکھ۔۔
مجھے یہیں رہنا ہے اور چمن کی آبیاری کرنی ہے۔ پھر چاہیے ہوا قاتل ہو یا شبنم زہر ۔۔۔۔مجھے ہر حال میں جینا ہے ۔۔بس تو رحم فرما ۔۔اور نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کردے ۔۔دلوں کو شفقت کی فصل سے شاداب کردے ۔۔
حامد نے آنسوں پونچھے اور پارک سے نکل کر گاڑی کے پاس پہنچ کر بچوں کے معصوم چہروں پر نظر ڈالی ۔وہ بھی ہکا بکا ہو کر ابو کے ردعمل کو بھانپ رہے تھے ۔بیوی بھی شش و پنج میں مبتلا تھی ۔ حامد نے سیٹ پر بیٹھ کر آہ بھر لی اور بیوی سے انگریزی میں کہا۔۔۔۔بی ریڑی ٹو فیس چلینجز۔۔۔
���
قصبہ کھُل، کولگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9906598163