کٹھوعہ کے رسانہ گائوں کی 8سالہ آصفہ کی عصمت ریزی اور قتل میں ملو ث ایس پی او کوبچانے کیلئے ترنگا لہرا کر ریلی نکالنا ایک شرمناک حرکت ہے اور اس سے یہ صاف ہوگیاہے کہ جموں خطہ میں ایک مخصوص مکتب فکر، بھلے ہی وہ چھوٹا ہو، فرقہ پرستی کی تمام حدود کو پھاند کراخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیاہے ۔ریلی کی صورت میں یہ ایسی حمایت ہے جس کی مہذب دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس ریلی کے بعد ریاست بھر میں سنجید فکر اور صحیح سوچ رکھنے والے حلقےسکتے میں آگئے ہیں اور ماسوائے بھاجپا کے ہر ایک سیاسی جماعت نے کُھل کر اس اقدام کی مذمت کی ہے، حتیٰ کہ اقتدار میں اسکی حلیف جماعت پی ڈی پی بھی دن کےا ُجالے کو راست کے اندھیروں کی نذر کرنے والی اس سیاست کےخلاف کھل کر سامنے آئی ہے۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی اس پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ بہت خوفزدہ ہوئی ہیںاورگرفتار شدہ شخص کے معاملے میں قانون کے تحت کارروائی ہوگی ۔واضح رہے کہ ماہ جنوری کے اوائل میں پیش آئے دل دہلانے والے آصفہ بانو کی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کے کلیدی ملزم ایک سپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) کی رہائی کے حق میں ہیرا نگر کے سینکڑوں لوگوں ،جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی،نے گگوال سے سب ضلع مجسٹریٹ ہیرا نگر کے دفتر تک احتجاجی مارچ نکالا۔ جس میںشرکاء نے اپنے ہاتھوں میں ترنگے اٹھا رکھے تھے ۔ لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ پولیس بدترین جرائم کی حمایت میں نکالے گئے اس جلوس کو منتشر کرتی،اس کی نفری احتجاجیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکرجلوس کے آگے چلتی رہی ۔یہ احتجاجی مارچ ہندو ایکتا منچ نامی تنظیم کے بینر تلے منظم کیا گیاتھا اورملزم ایس پی او کے حق میں احتجاجی مارچ کی قیادت مبینہ طور پر ایک بی جے پی لیڈر کررہا تھا۔بھاجپا کا رول اس واقعہ میں روز اول سے ہی منافقانہ اورمتعصبانہ رہاہے، حالانکہ حالیہ بجٹ اجلاس میں اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں ممبران کی طرف سے کئی مرتبہ شدید احتجاج کئے گئے اور ہر ایک سیاسی جماعت کی طرف سے اس پر کڑی سے کڑی کارروائی کا مطالبہ سامنے آیاتاہم بھاجپا نے اس انسانیت سوز واقعہ پر خاموشی ہی اختیار کئے رکھی اور ایسا تاثر دیاجیسے اس جماعت کیلئے یہ واقعہ کوئی معنی ہی نہیں رکھتا ۔ جموں میں مسلم طبقہ کو نشانہ بنانے کے واقعات پہلے بھی رونما ہوتے رہے ہیںجس پر بھاجپا اوراس کی ہم خیال جماعتوں کا خاموش رہنا سمجھ میں آتاہے لیکن 8سالہ بچی کی عصمت ریزی اور قتل موجود ہ دور کا ایک گھنائونا جرم ہے جس نے سبھی کے دل دہلاکر رکھ دیئے ہیں اور اس پر خاموشی نہ صرف افسوسناک بلکہ اخلاقی قدروں کی پامالی کی بدترتن مثال ہے۔آصفہ کے قتل کے واقعہ سے چند ہی روز قبل پاکستان کے شہر قصور میں بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہواتھا جہاں 8سالہ زینب کی عصمت دری کرکے اس کا قتل کیاگیا جس پر گزشتہ روز اس ملک کی عدلیہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم عمران علی کو 4بار سزائے موت سنائی ۔اس واقعہ کےخلاف بھارت بھر میں بھاجپا اور اسکی حامی جماعتوں کی جانب سے سخت واویلا کیا گیا، لیکن جب یہاں ایسا ہی واقعہ پیش آیا تو انکی زبانوں پر مہر لگ گئی۔ یہ بدقسمتی کی انتہا ہےکہ بھائی چارے کی آماجگاہ تصور کی جانے والی ریاست جموں و کشمیر کوکس سمت میں لے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں کہ جہاں ایک معصوم بچی کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے اسکوچھڑانے کیلئے ریلیاں نکالی جارہی ہیں ۔پہلے تو ایسے واقعات رونما ہونا ہی انسانیت سوز اور اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے اور پھر ان کی مخالفت کے بجائے کھلے عام قومی پرچم لیکر حمایت کرنا مہذب دنیا کیلئے شرمندگی کا باعث ہے ۔ اس شرمناک ریلی پر جموں کے باشعور عوام کو چپ نہیں بیٹھناچاہئے بلکہ اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے ،نہیںتو اسے مجرموں کی حوصلہ افزائی کے مترادف سمجھاجائے گا ۔انسانی و اخلاقی اقدار کا تقاضہ یہ ہے کہ جموں کے لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ریلی کے شرکاء کو یہ پیغام دیاجائے کہ مظالم چاہے کسی بھی مذہب کے ماننے والے پر کیوں نہ ہوں ، ظالم کو اپنے کئے کی سزاملنی چاہئے ۔ اگر وہ اس مرحلے پر بھی خاموش رہے تو یہ اس ریاست کے معاشرے کیلئے خطرناک اشارہ ہوگا اور اس سے یہ سمجھاجائے گاکہ مسلم دشمنی میں شر پسند عناصربغیر کسی خوف و خطر کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور سماج کے ایک بڑے طبقہ کوانہوںنے یرغمال بنالیاہے ۔ ساتھ ہی ریاستی حکومت کو بھی اس معاملے میں سخت کارروائی کرنی چاہئے اورکم از کم قاتل کے حق میں نکلی ریلی کے شانہ بشانہ چلنے والے پولیس اہلکاروں کو یہ بتایاجائے کہ ان کا کیا کام اور کیا ذمہ داری ہے ۔