رسانہ عصمت ریزی اور قتل کیس پرجس طرح سے پورے ملک اور خاص طور پر جموں کے لوگوں نے شرپسندانہ عزائم کوناکام بنانے کیلئے ہوش مندی کامظاہرہ کیا وہ قابل ستائش ہے اور اس سے یہ ظاہرہوگیاہے کہ فرقہ پرستی سے کہیں زیادہ بھائی چارے کی بنیادیں مضبوط ہیں ۔کمسن بکروال بچی کی عصمت دری اور قتل کے ملزمان کے حق میں مہم چلانے والے شرپسند عناصر اس قدر مضبوط ہوتے جارہے تھے کہ انہوںنے رسانہ گائوںسے شروع ہونے والی اس مہم کو آہستہ آہستہ جموں کے کئی اضلاع تک پھیلادیا اور درندہ صفت عناصر کے حق میں ہڑتالوں کی کالیں دے کر ساری دنیا کو حیران کردیاتاہم اس کے بعد جس طرح سے جموں کی تجارتی انجمنوں، خاص کر جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور سول سوسائٹی نے اپنے متوازن، معتدل اور انسانیت پسندانہ ردعمل کا اظہار کرکے فرقہ پرست عناصر کی شرپسندانہ مہم کا نہ صرف شکار ہونے سے انکار کردیا بلکہ اُنکی کھلم کھلا مخالفت کرکے آئین و قانون کے احترام اور فرقہ وارانہ بھائی چارے کے خلاف ہونے والی سازش کو ناکام بنانے میں اہم رول ادا کیا، حالانکہ اُس وقت ابھی مالک کے اندر اس کیس کے حوالے سے رائے عامہ نہیں بنی ہوئی تھی۔ اب جبکہ ملکی اور عالمی سطح پر ردعمل کی ایک لہر بنی ہوئی ہے تو ان عناصر کو نہ صرف اپنا موقف ہی تبدیل کرناپڑا بلکہ وہ وقتی طور پر پشت بہ دیوار بھی ہوگئے ۔امن و بھائی چارے کی حامی قوتوں کے دبائو میں آنے اور اس معاملے کا سپریم کورٹ کی طرف سے از خود نوٹس لینے پر ہڑتال میں پیش پیش رہنے والوں نے یہ کہہ کر سی بی آئی انکوائری مانگ سے دستبرداری کرلی کہ اب چونکہ یہ معاملہ عدالت میں آگیا ہے اور انہیں عدالتی نظام پر بھروسہ ہے اس لئے یہ مانگ نہیں رکھی جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہناہے کہ ہڑتال انہوںنے روہنگیا مہاجرین کو جموں بدر کرنے کے خلاف کی تھی لیکن انہی سے کیا یہ سوال کیاجاسکتاہے کہ اگرعدالتی احترام میں انہوںنے رسانہ کیس پرسی بی آئی تحقیقات کی مانگ کا موقف تبدیل کرلیاتو پھر روہنگیا مسئلہ پر کیسے واویلا مچایاجاسکتاہے جبکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی ریاستی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے زیر سماعت ہے ۔خیر موقف میں تبدیلی کے پیچھے وجہ جو بھی ہے لیکن ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ جموں کا امن پسند حلقہ جسے پچھلے کئی عرصہ سے شرپسندوں نے یرغمال بنائے رکھاتھا ،نے تفریق اور فرقہ پرستی کی کوششوں کو وقتی طور پربری طرح سے ناکام بنادیاہے لیکن ہمیں اس خوش فہمی میں بھی نہیں رہناچاہئے کہ فرقہ پرست طاقتیں آئندہ فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی ہر گز کوششیں نہیں کریںگی بلکہ ماضی کے تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ یہ طاقتیں ذرا سا موقعہ ملنے کی تاک میں رہتی ہیںاس لئے ان سے ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔امن و بھائی چارے کے لحاظ سے جموں کو ایک حساس خطہ تصور کیاجاتارہا ہے اور اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف جس طرح سے مہم آگے بڑھائی جارہی تھی ، وہ پوری ریاست کے حالات کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی تھی تاہم اس مرحلے پر جموں چیمبر ، مذہب و ملت سے بالاتر ہوکر یونیورسٹی و کالج طلباء ، امن پسند ہندو ، سکھ اور مسلم تنظیموں کا سامنے آکر ہڑتال اور بند کی مخالفت کرنا قابل ستائش اقدام ہے ۔ خاص طور پر جموں چیمبر کی دور اندیشی کی تعریف کی جانی چاہئے جس نے بند کال کو پہلے دن ہی یہ بھانپتے ہوئے مسترد کردیا کہ اس ساری مہم کے پس پردہ سیاسی عزائم اور مقاصد کار فرمائ ہیں۔ اگرچہ ہڑتال کرانے والوں نے جموں شہر اور مضافات میں تاجروں پر زور زبردستیاں کرکے صورتحال کو انگیخت کرنے کی کوشش کی تھی مگر تجارتی برادری نے صبر سے کام لے کر انکے عزائم کامیاب نہیں ہونے دیئے۔اس کے لئے جموں چیمبر اور سول سوسائٹی کے دیگر حلقے تعریف و توثیق کے مستحق ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھائی چارے کی روایات کو مزید مضبوط بنایاجائے اور اس کیلئے سماج کے سبھی حلقوں کو میدان میں آناہوگا ۔جس طرح سے سبھی نے رسانہ معاملے میں فرقہ پرستی کو ناکامی سے دوچار کیا اسی طرح سے ہر مسئلے پر دانش مندی کامظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔