جموں و کشمیر کے عوام سالہا سال سے جس درد و کرب اور ظلم و ستم کی تاریکی میں زندگی گذار رہے ہیں، اُس کے نتیجہ میں وہ اب رسی کو بھی سانپ سمجھ کر محتاط رہتے ہیں،کیونکہ انہیں ہر طرف سے ڈسا جارہا ہے۔گذشتہ بیس پچیس برسوں کے دوران اُنہیں وہ قائد ین بھی دیکھنے پڑے ،جنہوں نے محاذرائے شماری کے جھنڈے تلے بائیس سا لہ تحریک مزاحمت کو آوارہ گردی قرار دے کر قوم کی شکست کو فتح سے تعبیر کیا،جس پرقوم نے بھی جشن منایا اور قیادت نے سبز رومال دکھاکر آگے اپنی کرسی کے لئے بے جا اوربہت سا سُرخ لہو بہا یا ۔ ہم اس وقت تاریخ کو کھنگالنے سے دامن بچا کر صرف گزشتہ سال چھ سات مہینوں کی بات کریں کہ ہمارے ساتھ کیا کیا ہو ا۔ اس دوران یہاں کوئی بولی نہیں بلکہ صرف گولی ہی گولی چلی ۔زخموں پر مرہم کرانے ، قوم کو با عزت امن دلانے اور خود حکمرانی کے خواب دکھانے والے تو خود زعفرانی انقلاب کے کٹھ پتلیاں بن کر ارض کشمیر کوگرم گرم لہو سے لالہ زار کرتے رہے ۔ چنانچہ برہان وانی کی حیات ابدی کے بعد پیدا شدہ صورت حال میں بھی جب قائدین حضرات مشترکہ کیلنڈر دینے کے لئے سامنے آئے تو قوم کی اُمیدبندھ گئی تھی کہ شاید اب مزاحمتی قیادت منصوبہ بند طریقے پر کوئی ایسا پروگرام سامنے لائے گی جو ثمر آور ثابت ہوگا۔ چنانچہ پانچ مہینوں تک قیادت کے کلینڈر پر من و عن عمل ہوتا رہا مگر معصوموں کی قربانیوں کا کوئی ثمرہ حاصل کرنے میں ہم ناکام رہے ۔ اس کی وجوہ جاننا آپ کا فرض منصبی ہے۔اگرچہ احتجاجی کیلنڈر آج بھی جاری ہورہا ہے،جس پر عوامی سطح پر بہت ہی کم عمل درآمد ہورہا ہے تاہم کیلنڈر پروگراموں میں مزاحمتی لیڈر اور کارکنان فوٹو شو کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششوں میں دکھائی دیتے ہیں،جس سے کمزور یکجہتی اورناقص منصوبہ بندی کابخوبی مظاہر ہورہا ہے اور یہ امر سنجیدہ طبقہ اور ذی ہوش حلقہ سے وابستہ لوگوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہورہا ہے۔ آپ حضرات کے ہی ایک پروگرام کے تحت حال ہی میں ایک مشترکہ احتجاجی پروگرام آبی گذر سرینگر میں دیکھنے کو ملا ،اس احتجاج میں شامل کئی تحریکی چہرے،جن کی میں عزت کرتا ہوں ،اُن کی بے بسی دیکھ کر میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ظاہر ہے کہ اگر آپ قوم کو واقعی کوئی متحدہ قیادت دینا چاہتے ہیں تو آپ کو سبھی چھو ٹی بڑی تنظیموں کے قائدین اور کارکنان کو عزت دینا ہوگی ورنہ اوروں کا وجود مٹانے کے لئے کہیں ہم سب کا وجود ہی مٹ نہ جائے۔ میری مودِ بانہ عرض داشت ہے کہ کیوں نہ قوم کو تمام فورموں اورتنظیموں کے اتحاد کے بجائے ایک ہی تنظیم دی جائے،جس کا سربراہ اُس قائد ِتحریک کو بنایا جائے جو سب کو بہ دل وجان تسلیم ہو ۔ اس طرح تمام تنظیموں کے ڈھانچوں کو تحلیل کرکے صرف ایک ہی تنظیم’ ’متحدہ حریت کانفرنس‘‘ کے تحت اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے۔پھر نہ کوئی دھکم پیل ہوگی اور نہ بانت بانت کی بولیاںہوں گی اور قوم بھی مزید انتشار و مایوسی سے نجات پائے گی ۔بلاشبہ قوم مزاحمتی قوتوں کے ساتھ ہے لیکن قائدین قوم کے معیار پر اترنے سے قاصر ہیں ۔ان کو چاہئے کہ بات کرنے والوں کو بات کرنے دیں اور حق وصداقت کی سربلندی کے لئے سر اٹھانے والوں کو سر اٹھانے سے نہ روکیں ۔اس سے اصلاح کی غرض سے ہامری اجتماعی کمزوریوں کی نشاندہی بھی ہوتی رہے گی اور مظلو م و مقہور قوم کو منظم قیادت نصیب ہوگی ۔خدارا! اب تو کرلیجئے، ایک ہی قیادت پر اتفاق و اعتبار تاکہ ہماری نَیا پار ہوجائے۔میرے خیال میں جب تک ایک ہی مزاحمتی تنظیم نہیں بنتی ،سب قائدین کا یکساں احترام نہیں کیا جاتا ، سب قائد ایک ہی رسی کو تھام نہیں لیتے اور بعض عناصر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی پالیسی ترک نہیں کرتے ،تب تک اندھیرا دور نہیں ہوسکتا ، ملت کے مقدر کا ستارہ نہیں چمک سکتا اور تاریخ کی کایا پلٹ نہیں ہوگی۔اس لئے کسی گروہ کو بڑے سے بڑا نہیں سمجھئے ، چھوٹے گروہ بدظن ہوجائیں گے ،اور کوئی بھی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا ۔آپ میں باصلاحیت لوگ موجود ہیں جن کا لوگوں میں عزت و احترام ہے مگر سب سے بڑا وہی ہوتا ہے جس کا جھکائو چھوٹوں کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔دوسروں کو کم تر ثابت کرنے سے آج تک کوئی عظیم نہیں بن سکا ، کسی کا پردہ رکھنے میں ہی عظمت اور بڑھائی ہے ۔ اگر کسی نے نظم شوریٰ متعارف کرایا ہے تو سب اسی شوریٰ کو تقویت بخشیں ،یہی انقلاب پالیمنٹ ہوگی اور تحریک کے نازک مراحل اسی شوریٰٔ مشاورت سے طے کئے جاسکتے ہیں۔یاد رکھئے کسی قائد کو ماننا صرف اس کے زندہ باد کے نعرے بلند کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس قائد کی رہنمائی فکریاتی ،نظریاتی اور عملی طور پر قبول کرنے سے ہوتی ہے ۔اس لئے اگر کوئی اشتراک ہے ، کوئی اعتماد ہے تو عملاً ظاہر کیجئے اور شوریٰ کا حصہ بن کر تحریک کو منظم اور متحرک کیجئے۔اُمید ہے کہ اگر میری اس مخلصانہ خامہ فرسائی سے قومی جذبات کی حق ادائی میں کوئی کوتاہی یا گستاخی نظر آئے تو درگذر فرما ئیں مگر اعتماد اور باہمی اتفاق کا شیشہ توڑنے کی کوئی نامشکور کوشش نہ کیجئے بلکہ اصلاح و احوال میں اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں صرف کیجئے ،جس کی اب شدت کے ساتھ ضرورت ہے ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہے ۔