بھائی ! انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ۔ ساری دنیا بچوں سے لیکر بڑوں تک جیسے باولی ہو رہی ہیں۔ ہر ایک کی زبان پر فیس بک اور وٹس اَپ وغیرہ کا نام ہے۔ ہر کوئی دجالی انٹرنیٹ کے کارنامے ایسے سنا رہا ہے جیسے برج خلیفہ فتح کیا ہو۔ ایک میں ہوں جو اکیسویں صدی میں بھی گِھسی پِٹی کتابوں سے ہی کام چلا رہا ہوں۔ میرے ہم عصر مجھے کتابوں کا کیڑا سمجھ کر روز طعنے دیتے ہیں۔ یہاں دودھ پیتے بچوں کو بھی انٹرنیٹ کی لت لگ گئی ہے۔ ایک میں ہوں جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اسی صدی کا انسان ہوں یا آثار قدیمہ کا۔ اپنے ہم عصردوستوں کے ہاتھوں میں مہنگے مہنگے سمارٹ فون دیکھ کر آخر میری بھی غیرت جاگ اٹھی۔ میں نے بھی تھوڑی سی ہمت جٹا کر والد صاحب کو صاف صاف لفظوں میں کہہ ہی ڈالا۔
” ابو مجھے بھی سمارٹ فون چاہیے۔
ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!“
والد صاحب :۔ ” ورنہ کیا ؟ “
” ورنہ میں گھر چھوڑ کے چلا جائونگا۔ “
میری بات ابھی پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ والد صاحب نے جٹ سے میرے دائیں گال پر زور کا ایک تھپڑ ایسے رسید کر دیا کہ جیسے میرے گال پر تازہ تازہ نقاشی ہوئی ہو۔ تھپڑ کی صورت میں یہ پہلا اعزاز تھا جو والد صاحب نے مجھے دیا۔ تھپڑ ایسے زوروں کا تھا کہ میرے حواس باختہ ہو گئے۔
شام کو میں گھر دیر سے اس لئے آیا تھا کہ میرا کوئی پرسان حال ہو ۔ لیکن مجال ہے کسی نے یہ کہنے کی زحمت بھی کی ہوکہ تم اتنی دیر تک کہاں رہے ہو۔ کسی نے مجھ سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کی ۔جب مجھے لگا میری یہاں کوئی دال گلنے والی نہیں ہے تو میں نے بھی ٹھان لی کہ اب میں فون لے کر ہی دم لوں گا۔
فون حاصل کرنے کے چکر میں نے گھر کا سارا نظام درہم برہم کرکے رکھا تھا۔ میں روز شام کو گھر آکر ہنگامہ برپا کرتا تھا۔ ضروریات کی ساری چیزیں توڑ ڈالی ۔کھڑکیوں کے کانچ تک نہیں چھوڑے یہاں تک کہ نوبت فاقہ کشی تک بھی پہنچ گئی۔
یہ میں ہی جانتا ہوں کہ فون حاصل کرنے کے چکر میں نہ مجھے کتنے پاپڑ نہ بیلنے پڑے۔ اتنی توڑ پھوڑ کے باوجود بھی گھر والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ میری فون والی بات گھر والوں کو سخت ناگوار گزری۔ یہاں تک کہ والد صاحب نے میرے حق میں شاہی فرمان جاری کردیا کہ کم بخت کا کھانا پینا سب بند کردیا جائے تاکہ اسکے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ ایسی صورت میں انسان کرتا بھی تو کیا؟۔ میں نے بھی جاری کردہ شاہی فرمان کی پروا کئے بغیر ایک ترکیب سوچی جو فون حاصل کرنے کا واحد راستہ تھا۔
شام کو جب میں تھکا ہارا گھر پہنچا تو سب گھر والے اس وقت کھانا کھانے میں مصروف تھے ۔ دسترخوان پر طرح طرح کے پکوان دیکھ کر میرے منہ میں خوب پانی آگیا۔ اور کھانا کھانے کا میرا بھی جی کر رہا تھا مگر مجال ہے کسی نے مجھ سے کھانے کے لئے پوچھا ہو ۔ میں بھی دیر تک رسوئی میں منہ پُھلائے بیٹھا رہا ۔۔ آخر ! تھوڑی سی ہمت جُٹا کر میں نے کچھ کہہ ہی دیا۔
” ابو ! میں نے بھی ٹھان رکھی ہے اگر اس بار بھی میری فون والی فرمائش پوری نہ ہوئی تو میں خود کشی کر لوں گا، جس کا خمیازہ تم سب کو بھگتنا پڑے گا۔“
میری اس گیدڑ بھبکی سے والد صاحب کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا ۔ ان کے چہرے پر بے بسی کے آثار خوب نمایاں ہوگئے ۔ میں اپنے والد کا واحد سہارا تھا آخر ! والد صاحب کو میری ضد کے آگے ناکوں چنے چبانے ہی پڑے۔
والد صاحب :۔ ” بیٹا کچھ دنوں کی مہلت تو دو میں کچھ نہ کچھ بندوبست کر لوں گا۔ مجھے پتہ ہے کتے کی دم کبھی بھی سیدھی نہیں ہوتی۔ میں کچھ نہ کچھ فروخت کرکے تمہارے لئے فون کا ضرور کچھ انتظام کرلوں گا۔ “
تقریبا ایک ہفتہ گزر گیا، میں دسترخواں بچھائے کھانا نوش کر رہا تھا کہ اچانک والد صاحب کی آواز کمرے میں گونجی۔ انھوں نے اپنی شاہی جیب سے کچھ رقم نکال کر میرے ناتجربہ کار ہاتھوں میں بالآخر تھما ہی دی۔ نامعلوم رقم ہاتھ میں لیتے ہی میں جنگلی بندر کی طرح اچھلتے کودتے والد صاحب کو نیک دعائیں دیتے ہوئے کمرے سے باہر آگیا۔
میری خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ۔ جیسے تیسے بازار سے فون خرید ہی لایا ۔ میرے ہاتھ میں فون کیا آگیا کہ جیسے میری لاٹری لگ گئی تھی۔ ادھر ادھر سے چند پیسے منت سماجت کرکے 199 روپے کا پہلا ” ایزی ریچارج “ ڈال ہی دیا۔ میں نے سب سے پہلے فیس بک اکاونٹ کھول کر چار پانچ جاننے والوں کو فرینڈ ریکوسٹ بھیج دی۔ میں روز سلفی اٹھا کر فیس بک پہ اَپ لوڈ کرتا تھا ۔ پہلی ہی پوسٹ پر تقریبا سو سے زیادہ لائیکس اور دس پندرہ کمنٹس آ ہی گئے تھے۔ میں روز اٹھتے بیٹھتے ، جاگتے سوتے اور کھاتے پیتے منہ کو ٹیڑھا میڑھا کرکے سلفی ضرور کھینچ لیتا تھا۔ شیر کے منہ کو جیسے خون لگ گیا تھا۔
ایک دن ” الیشا “ نامی ایک لڑکی کو فرینڈ رکویسٹ بھیجنے کی حماقت بھی کی جو کہی دنوں تک ویٹنگ لسٹ میں جوں کی توں پڑی رہی ۔ ایک روز کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے محترمہ کو مجھ جیسے مسکین شکل کے انسان پر پیار آہی گیا کہ میری فرینڈ رکویسٹ قبول ہوئی۔ میرے جیسے بھاگ ہی کھل گئے۔ کچھ دنوں تک فیس بک جیسی ماورائے دنیا پر میں محترمہ کے ساتھ دوستی جیسے تقدس مآب رشتے کے تقاضے پورا کرتا رہا۔ ایک روز میں نے نہ جانے کون سی ایسی پوسٹ اَپ لوڈ کی تھی جو سیدھے محترمہ کے دل کو جا لگی ۔ اس نے بھی آئو دیکھا نہ تائو فورا ہی ” مسینجر“ پر اردو والی” ہائے “نہیں بلکہ انگریزی والی ” hi “ لکھ کر جیسے میرے دل کے تار چھیڑ دیئے ۔ رات دن مسینجر پر محترمہ سے چیٹ ہوتا رہا ۔ پیار و محبت کی باتیں ہوتیں رہی ۔شکوے شکایتیں ہوتیں رہیں ۔ کئی روز تک ایک دوسرے کو روٹھنے منانے کا سلسلہ کلاسیکل محبت کی طرح چلتا رہا۔
بالآخر ایک دن میں نے تھوڑی سی جسارت کرکے محترمہ کو ویڈیو کال کی پیشکش کی جو بے سود نکلی ۔ محترمہ بھی روز کوئی نہ کوئی نیا بہانہ کرکے کل پرسوں کا کہہ کر ٹال دیتی تھی۔ میں محترمہ کا پری رو چہرہ دیکھنے کیلئے بڑا بے تاب تھا ۔ میں بھی اپنی ضد پر اڑا رہا اور ویڈیو کال کی پیشکش مسلسل کرتا رہا ۔ میرے لگاتار اصرار پر بالآخر محترمہ نے شام کے وقت ویڈیو کال کرنے کا عہد و پیماں باندھ ہی لیا تھا ۔ یہ سن کر جیسے مجھے اپنے کانوں پہ یقین ہی نہ ہوا ہو کہ محترمہ واقعی آج شام مجھے ویڈیو کال کرے گی۔ وقت جیسے تھم سا گیا تھا ۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں تھی۔ شام کے وقت کا بڑی بے صبری سے انتظار تھا۔
آخر وہ گھڑی آہی گئی تھی ۔ فون کی گھنٹی بجتے ہی میں نے جٹ سے کال اٹھائی اور بڑے ہی شریفانہ اور معصومانہ انداز میں جب ”ہیلو “ کیا تو میں ایسے شکل و صورت والے انسان سے روبرو ہوا جس کا لہجہ مردوں جیسا دم خم رکھتا تھا اور وہ شکل و صورت کے اعتبار سے بھی جیتا جاگتا مرد ہی نکلا، جسے میں حور سمجھتا تھا وہ آخر میں لنگور نکلا۔
���
ایسو شانگس، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9797852916