یہ نو مبر 1982 ء کے مو سم خزاں کی با ت ہے ،میں ان دنو ں کنٹرول لائن کے اس پا ر آزاد جمو ں وکشمیر کا شہر ی اور میر پو ر میں رہتا تھا کسی ذاتی کا م کی غر ض سے لا ہو ر گیا اور جما عت اسلامی پا کستان کے مر کزی ہیڈ کوارٹر منصورہ لاہو ر میں قیا م پذیر تھا لا ہو ر کا مو سم ان دنو ں بڑا سہا نا اور معتدل تھا چو نکہ مو سم گر ما رخصت ہو چکا تھا اور سر ما کی آمد آمد تھی جن لو گو ں نے لا ہو ردیکھا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ لا ہور اپنی مخصو ص تہذیب و ثقافت اور میلے ٹھیلوں ادبی و علمی روایات کے لحاظ سے کتنا رنگارنگ و خو بصورت ہے میں جی بھر کر کئی رو ز تک لا ہو ر میں ایک نو وارکے طور پر گھو متا پھر تا رہا ایک دن میر ے ذہن میں لا ہو ر کی کسی ادبی شخصیت سے ملا قات کا اشتیا ق پیدا ہو ا اور مہا جر جمو ں پر وفیسر سر دار جمیل احمد سے رابطہ کر کے اپنی خواہش کا اظہا ر کیا تو انہو ں نے پو چھا کس سے ملنا چا ہتے ہو ؟میں نے کہا فیض احمد فیض سے یا ضیا ء جا لندھر ی سے پروفیسر صاحب نے کہا میں کا لج جا کر آپ کو بتا سکتا ہو ں کہ کس سے ملا قات ہو سکتی ہے آپ گیا رہ بجے اسلامیہ کا لج آجا ئیں ضیا ء سے ملا قات تو سمجھ میں آتی ہے مگر فیض سے کس لئے ملو گے ؟وہ تر قی پسند اور آپ لو گو ں کا نظریا تی دشمن ہے میں نے کہا کو ئی بات نہیں کسی سے بھی ملا قات کر نے میں کو ئی مضا ئقہ نہیں میں ٹھیک گیا رہ بجے اسلامیہ کا لج میں پہ نچ گیا تو پر وفیسر صاحب نے بتا یا کہ ضیا ء سے تو آج ملاقات نہیں ہو سکتی البتہ فیض صاحب سے بعد نما ز ظہر کسی وقت مل سکتے ہیں چنا نچہ میں اور پر وفیسر جمیل صاحب کو ئی تین بجے فیض احمد فیض کی خو بصقورت رہا ئش گا ہ پر پہو نچ گئے جہا ں ان کے گھریلو ملا زم نے ہمیں ایک خو بصورت کمر ے میں بٹھا دیا جو بڑے ڈھنگ اور سلیقے سے سجا سنورا تھا البتہ اس کمر ے میں پا کستان یا اسلام کی مخصو ص ثقافت کی کو ئی نشا نی نہ تھی البتہ دنیا بھر کے اشتراکی لیڈروں اور تر قی پسند شعراء وادبا ء کی تصاویر فریم کی ہو ئی دیواروں کے ساتھ آویزاں تھی جن سے فیض احمد فیض مسکراتے ہو ئے مصافحہ کر رہے تھے یا بغلگیر ہو رہے تھے ۔
ہم کمر ے میں بیٹھے لا ہو ری قہوہ اور ملتانی حلوے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور ان تصاویر کو دیکھ رہے تھے اتنے میں فیض احمد فیض اپنے مخصو ص انداز میں مسکراتے ہو ئے کمرے میں داخل ہو ئے اور ہم دونو ں اٹھ کر انہیں ملے وہ اس وقت کچھ تھکے تھکے اور کمزور لگ رہے تھے اور جھٹ سے ہما رے سامنے صو فے پر براجما ن ہو گئے پروفیسر جمیل احمد صاحب نے میر پور آزاد کشمیر کا شہر ی اور جما عت اسلامی کے ساتھ وابستگی کے حوالہ سے میرا تعا رف کرایا تو فیض صاحب کا چہر ہ کھل کھلا اٹھا اور انہو ن نے ایک زور دار قہقہہ لگا تے ہو ئے مجھے غور سے دیکھا اور کہنے لگے آپ کے ظر ف کی داد دیتا ہو ں کہ آپ اپنے ایک بڑے نظر یا تی مخالف سے ڈھو نڈ کر ملنے آگئے ایسے لو گ مجھ سے بہت دور رہتے ہیں اور میں بھی ان سے اجتناب ہی کر تا ہو ں اس لئے کہ آج کی تا ریخ میں نظریا تی کدورت اور عدم بر داشت کا کلچر اس ملک میں بہت فروغ پا چکا ہے اس ملک میں آج ہر شخص دوسرا نقطہ نظر رکھنے والے کو تر چھی نظر سے دیکھتا ہے میں نے کہا محترم نظریا تی بعد اور اختلاف اپنی جگہ لیکن اس کے با وجود آپ سے ملا قات میر ے لئے بڑی خو ش قسمتی ہے آپ شہنشاہ غزل ہیں اور اپ کی شا عری کو میں نے زما نہ طا لب علمی میں بڑے ذوق و شو ق کے ساتھ پڑھاہے آ پ کی شا عری اسلوب بیان اور ادب میں جدت نے ہی مجھے آپ تک پہو نچانے میں حو صلہ دیا ہے میر ی نظر میں ایک کا میا ب شا عروہ ہو تا ہے جس کا کلا م مرور زما نہ کے ساتھ ہر قسم کے حالات و واقعات پر منطبق ہو تا ہو آپ کے کلا م میں یہ ساری خو بیا ں مو جو د ہیں میں نے جسارت کر تے ہو ئے فیض کا یہ شعر پڑھ ڈالا ؎
جو ہم پہ گذری سو گذری مگر شب ہجراں
ہما رے اشک تیر ی عا قبت سنوار چلے
فیض صاحب میر ی زبا ن سے اپنا یہ شعر سن کر بغور ہما ری طر ف متو جہ ہو ئے اور ڈرائی فروٹ کی ٹرے ہما ری طر ف دھکیلتے و مسکراتے ہو ئے کہا میں جب لا ہو ر شہر کی گلی کو چو ں با زا رو ں و چو راہو ں سے گذرتے ہو ئے جما عت اسلامی کے اشتہا رات و بینر دیکھتا ہو ں جن کی سر خی یا عنوان میر ے اشعار کے کسی مصر عہ سے ہو تا ہے تو میں زیر لب مسکراتا رہتا ہو ں اس لئے کہ زبر دست نظریاتی اختلا ف کے با وجو د یہ لو گ میر ے بعض تخیلا ت کو مستعار لے لیتے ہیں فیض صاحب سیگریٹ بہت پیتے تھے ہما ری مو جو دگی میں انہو ں نے پہ درپہ کئی سیگریٹ پھو نک ڈالے اور سیگریٹ کے ہر کش کے بعد وہ تازہ دم لگتے تھے ان کی گفتگو خالصتا ادبی لہجہ میں نہا یت با وقار سنجیدہ اور ترقی پسند نظریا ت کی غما ز تھی جب کہ انہو ں نے مجھے راسخ العقیدہ اور خاندانی مسلما ن ہو نے کا بھی یقین دلا یا کہ میں نے دینیا ت اور فہم قرآ ن کی تعلیم مو لا نا ابراہیم سیا لکو ٹی سے حاصل کی ہے میں اپنے والد مر حو م کے ساتھ رو زانہ بعد نما ز فجر ان کے درس قرآن میں شامل ہو تا تھا لیکن ان کی گفتگو اور گھر کے ما حول سے بخو بی اندازہ ہو تا تھا کہ تر قی پسند ادب اور اشتراکیت ہی ان کا نظریہ اور عقیدہ ہے چو نکہ میرا تعلق جما عت اسلامی کے ساتھ جڑا تھا اس لئے فیض صاحب نے گفتگو کا رخ جما عت اسلامی اور مو لا نا مو دودی مر حوم کی طر ف پھیر تے ہو ئے کہا مولا نا مو دودی اور جما عت اسلامی نے پا کستان میں ہما ری تحریک کو نا قا بل تلا فی نقصان پہو نچا یا اگر مو لا نا مو دودی کمیو نزم کے خلا ف اپنا قلم استعما ل نہ کر تے اور جما عت اسلامی اس کو ہدف نہ بنا تی تو آج پا کستان ایک کا میا ب اشتراکی ریا ست میں تبدیل ہو گیا ہو تا مگر افسوس کہ مو لا نا مو دودی نے ہما رے سارے خاکو ں کو ملیا میٹ کر دیا پا کستان کے وجو د میں آتے ہی میں اس خطرہ کو بھا نپ گیا تھا رہے پا کستان کے با قی ملا اور مذہبی جما عتیں تو نہ انہیں اسلام کا نظریا تی پہلو معلو م ہے اور نہ اشتراکیت کا مطا لعہ اور نہ ان کی تحریر وں میں جا ن ہے مو دودی صاحب بڑے مدلل اور اپیل کر نے والی تحریریں لکھتے ہیں مو لویوں میں سے میں صر ف مو دودی صاحب کی تحریریں پڑھتا ہو ں اس کی تحریروں میں ایک تحریک اور اٹھا ن ہے ۔
بر صغیر ہند و پا ک کے ادبی منظر نا مہ اور تقا بل کے لحاظ سے گفتگو آگے بڑھی تو فیض صاحب نے کہا گو کہ ہندوستان میں اردو کو سر کا ری سطح پر پذیرائی حاصل نہیں لیکن اس کے با وجو د ہندوستان کا ادبی معیا ر کا فی بلند ہے چو نکہ ہندوستان اردو کی جنم بھو می ہے میں نے جگن نا تھ آزاد کی شاعری اور ادبی کا م کے حوالہ سے بات چھیڑی تو فیض صاحب نے سر جھٹکتے ہو ئے کہا آزاد صاحب میر ے دوست ہیں لیکن میں تلو ک چند محروم (والد جگن نا تھ آزاد )کو عظیم اور فطر ی شا عر ما نتا ہو ں جگن نا تھ آزاد کو نہیں میں نے کہا کیو ں اس کی شا عر ی تو پا کستان سمیت ساری اردو دنیا میں بہت مقبول ہے وہ ما ہر اقبالیات بھی ہیں اور لا ہو ر سے اس کے اکثر مجمو عے شا ئع ہو کر پا کستان کے ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہو چکے ہیں خاص طور پر ان کی کتاب وطن میں اجنبی فیض صاحب نے کہا دیکھئے جگن نا تھ آزاد پر شعری نزول کم ہو تا ہے اور وہ اشعار گھڑتا زیا دہ ہے جو شخص شعر گھڑتا ہو میں اسے فطری شا عر نہیں ما نتا حقیقی اور وہبی شا عر وہ ہو تا ہے جس پر خو د بہ خو د اور غیر شعوری طور پر شعری نزول ہو جو ہر قسم کے ادبی و شعری معیا ر پر پو را اتر تا چلا جا ئے ۔
فیض صاحب کے ساتھ اس ملا قات کو بیتے آج چو نتیس سال ہو چکے ہیں لیکن میں جب کبھی اسے یا دکر تا یا دوستوں سے تذکر ہ کر تا ہو ں تو یو ں محسوس ہو تا ہے جیسے ابھی کل کی با ت ہے میر ا احساس تھا کہ آئند ہ جب جب بھی لا ہو ر آنا ہو گا فیض صاحب سے ملا قا تیں ہو تی رہیں گی قیام میر پور کے دوران ان گنت دفعہ لاہور جا نے کا مو قع ملا مگر دوبا رہ کبھی فیض صاحب سے ملا قات کاموقع نہ مل سکا ۔فیض احمد فیض آج اس دنیا میں نہیں مگر بقول فراق گو رکھپوری انہو ں نے شعر و ادب کی دنیا میں ایک نیا مدرسئہ شا عر ی قائم کیااور بقول پروفیسر گو پی چند نا رنگ فیض کا سب سے بڑا امتیا ز یہ ہے کہ انہو ں نے انقلا بی آہنگ پر جما لیاتی احساس کو اور جما لیاتی احساس پر انقلا بی آہنگ کو قر با ن نہیں کیا بلکہ ان دو نو ں کی امیزش سے ایک نیا شعری رچائو پیدا کیا ان کی شا عری میں جو دلآویزی ،دل آسائی ،نر می ،اور قو ت شفا ہے وہ اس عہد کے کسی دو سرے شا عر کے یہا ں نہیں ملتی اور مجروح سلطان پو ری نے کہا تھا کہ فیض احمد فیض تر قی پسندوں کے میر تقی میرؔ ہیں اور فیض اور ان کے ساتھیو ں پر پا کستان سے غداری کا مقدمہ چلا اور یہ حقیقت ہے کہ انہو ں نے پا کستان میں اشتراکی انقلا ب لا نے کی کو شش کی البتہ عدالتوں کے اپنے ضابطے اور پیما نے ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ثبوت ملنا اور قانو نی تقاضو ں کو پو را کر نا بڑا مشکل اور پیجیدہ مسئلہ ہو تا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھو ں سمیت با عزت بری ہو گئے تاہم وہ اپنے سیا سی و معا شی عقا ئد ونظریا ت کے بڑے پختہ ہو نے کے ساتھ ساتھ زبر دست محب وطن تھے ان کی اپنے وطن سے محبت کسی بھی شک و شبہ سے با لا تھی اپنے سیا سی و نظریاتی مخالفین کے حوالہ سے حکمرانو ں کی انتقامی پا لیسی پر تنقید شا عر کی اپنے وطن سے محبت کے ملے جلے اثرات ان کی اسیر ی کی شا عر ی میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ۔فیض کی شا عر ی کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ انقلا بی آہنگ لئے اہل عزم و ہمت کی انقلا بی جد و جہد میں ان کی عزم و ہمت اور حوصلو ں کو جلا بخشتا ہو اور مزید بلندیو ں پر پر واز کر نے کی فکر ی قوت فراہم کر تا ہے مثلا ان کے مندرجہ ذیل اشعار اردو دنیا میں اپنی ایک منفرد شنا خت اوراہل عزیمت کو روحانی غذا فراہم کر تے ہیں ۔فیض احمد فیض کے ساتھ میر ی یہ خو شگوار ملا قات کو ئی ایک گھنٹہ سے بھی زائد جا ری رہی البتہ اس دوران ان کی بیٹی بار با ر دروازے پر آکر فیض صاحب کو سوالیہ نظروں سے دیکھتی اور چلی جاتی تھی میں سمجھ رہا تھا کہ شاید وہ فیض صاحب کی خرابی صحت کی وجہ سے ملا قات مختصر کر وانا چاہتی ہے یا ممکن ہے انہیں کسی دوسری تقریب میں جا نا ہو اس لئے ان کی بیٹی کا خامو ش اضطراب بڑھتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے میں نے اور پروفیسر جمیل صاحب نے جلدی رخصت ہو نا ہی منا سب ومہذب سمجھا اور ایک گر م جو ش مصافحہ و خلو ص کے ساتھ فیض صاحب نے ہمیں گیٹ پر آکر الوداع کہا میں فیض صاحب کے گھر سے اس امید پر رخصت ہوا کہ اب میں پا کستانی شہر ی ہوں اور آئندہ پھر کبھی ملا قات ہو گی مگر افسوس کہ پھر کبھی اس کی نو بت نہ آئی ؎
اے ساکنا ن کنج قفس ،صبح کو صبا
سنتی ہی جا ئے گی سوئے گلزار کچھ کہو
سوداؔ
نوٹ :مضمون نگا ر چیر مین الہدی ٹر سٹ راجو ری ہیں
رابطہ نمبر 9697808891