Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

فیصلہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: April 1, 2018 1:30 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
14 Min Read
SHARE
نظام الدین جب حج بیت اللہ سے فیض یاب ہوکر گھرپہنچے تو اپنے پرائے سبھی مبارک باد دینے کیلئے آئے کہ ایک اہم فریضہ کی ادائیگی کے بعد بخیریت لوٹے ہیں۔ ان مبارکباد دینے والوں میں محمدابراہیم بھی تھا جوان کاقریبی دوست تھا۔وہ بڑے تپاک سے ان سے ملااور بغل گیرہونے کے بعدانکے قریب جاکربیٹھ گیا۔وہ اپنے دوست سے حج کے احوال کی جانکاری حاصل کررہاتھا۔ کیونکہ ایساکرنا باعث ثواب ہے ۔وہ نظام الدین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرلگاتار دیکھ رہاتھا اورایساکرکے لطف اندوز ہورہاتھا کیوں کہ ان آنکھوں نے کعبتہ اللہ اورروضہ ٔ اطہر کے دیدار کئے تھے۔
حج بیت اللہ کی تہنیت کے علاوہ اس نے بیٹے کی ترقی کی بھی مبارک دی کیونکہ نظام الدین کے بیٹے کوبڑی مدت سے رُکی پڑی ترقی حاصل ہوگئی تھی۔اسکی یہ ترقی دفتری طوالت کی وجہ سے بڑی دیرسے رُکی پڑی تھی۔اسی ترقی کے لئے بیٹے جاوید نے اپنے والد صاحب کوسفرِ محمود پر جاتے ہوئے وہاں اس ترقی کے حصول کیلئے خصوصی دعاکرنے کی تاکید کی تھی ۔اب باپ بیٹا دونوں اس ترقی کے حصول کی وجہ سے بہت خوش تھے۔
دراصل ابھی نظام الدین اُدھرہی تھے کہ جاویدکواپنی ترقی کاحکم نامہ ملاتھااور اسکی تعیناتی دہلی میں ہوئی تھی۔
’’بھئی ! نظام الدین اب تو تم دہلی جائوگے ۔وہاں جامع مسجد ۔لال قلعہ ۔قطب مینار۔چاندنی چوک۔بستی نظام الدین ۔غالب کا مقبرہ اوربہت سی دل چسپی کی جگہیں دیکھوگے۔آج تک توتم گھرسے باہر کبھی نکلے ہی نہیں ہو۔ اب تم کوبہت مزہ آئے گا۔‘‘
’’نہیں چاچاجی! یہ وہاں نہیں آئیں گے‘‘ ۔جاویدنے بات کاٹتے ہوئے بولا ۔’’پھرکیاادھرہی گھرکی چوکیداری کریں گے۔‘‘ محمد ابراہیم نے استہفامیہ انداز میں پوچھا 
’’نہیں! نہ یہ اِدھررہیں گے نہ اُدھرآئیں گے بلکہ ان کے لئے میں نے خاص انتظام کروالیاہے ۔یہ اولڈ ایج ہوم میں رہیں گے‘‘۔ یہ سن کر دونوں جیسے سکتے میں آگئے۔ جاوید نے محسوس کرتے ہوئے مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہاں انکو ہرطرح کاآرام ملے گا۔ علیحدہ کمرہ ہے ۔بنابنایا کھاناملے گا۔ڈاکٹر ی سہولیت میسرہے ۔لائبریری ہے۔ اخبارہیں ۔ٹیلی ویژن ہے اوربھی بہت کچھ ہے ۔‘‘
’’مگربیٹا! انکوتو ان چیزوں سے زیادہ اپنے بیٹے کی ضرورت ہے۔یہ سہولیات زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہیں۔ بیٹے کااپنی آنکھوں کے سامنے ہونا ہی تسکینِ قلب کاباعث ہوتاہے۔‘‘
بیٹے جاوید!یہ کیاسوچ لیاہے تم نے ۔بڑے افسوس کی بات ہے۔ ذرادھیان دو۔یہ تم نے کیافیصلہ کرلیا ہے‘‘۔ جاویدنے کوئی جواب نہ دیامگر نظام الدین نے آنکھ کے اشارے سے اپنے دوست کوخاموش رہنے کے لئے کہا اور بات سمیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’ابراہیم صاحب۔بیٹا!ٹھیک کہتاہے۔تم  پریشان نہ ہوں۔ میں نے سنا ہے وہاں بڑے بڑے افسروں کے والدین خوش وخرم ہوکر زندگی کے دن گذارتے ہیں۔ بیٹے نے ٹھیک فیصلہ لیاہے۔‘‘نظام الدین نے بڑے اطمینان سے سمجھایا۔ یہ سب سُن کرجاویدخوش ہوا اور اپنے کمرے میں چلاگیا۔ تھوڑی دیر بعدابراہیم بھی خاموشی اختیارکرکے وہاں سے پریشان حال ہوکر بھاری قدموں سے گھرکی طرف نکل گیا۔
نظام الدین بغیرکچھ کھائے پیئے اپنے کمرے میں چلاگیا۔وہ دھاڑیں مار مارکر روناچاہتاتھا مگر اس نے بڑے ضبط سے کام لیا۔اس کواپنے بنائے ہوئے خوبصورت محلات گرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ کمرے کی چاروں دیواریں اسکے چاروں طرف جیسے گھوم رہی تھیں۔ وہ بڑاپریشان تھا۔کچھ سمجھ نہیں پارہاتھاکہ اب کیاکرے، کدھرجائے۔دماغ نے سوچنابندکردیا ۔اسے تصور بھی نہ تھا کہ کبھی ایسابھی ہوسکتاہے ۔!
بے چینی میں وہ کبھی بیٹھتاکبھی لیٹتا۔کبھی سوتااورکبھی جاگتا۔اسی کشمکش  میں آدھی رات گذرگئی ۔
پھرتقریباً آدھی رات کواس نے آہستہ سے اپنے کمرے کادروازہ کھولا اورچپکے سے باہرنکل کر سیدھے ریلوے سٹیشن پہونچا۔وہاں ایک ریل گاڑی چھوٹ رہی تھی۔وہ جلدی جلدی ایک ڈبے میں چڑھ گیا ۔تھوڑی دیر بعد ٹکٹ چیکرآیا۔اس نے ٹکٹ کاتقاضاکیا۔
’’بھائی صاحب ! میں ایمرجنسی میں گھرسے نکلا ہوں، ٹکٹ نہ خریدسکا۔اب آپ مہربانی کرکے بنادیں۔‘‘نظام الدین نے ٹکٹ چیکرسے بڑی نرمی سے کہا۔
’’بزرگو! کہاں جاناہے۔‘‘
’’یہ ریل جہاں جائے گی ۔وہاں کاٹکٹ بنادو۔‘‘ابراہیم نے جواب دیا۔
’’یہ پٹنہ جارہی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے وہاں کاہی بنادو۔‘‘
اب ابراہیم بڑے اطمینان سے اپنی سیٹ پربیٹھ گیا۔اس کے ساتھ نہ اٹیچی تھی ۔نہ کھانے کاسامان نہ پانی کی بوتل ۔وہ بالکل تنِ تنہا تھا۔اسکے ساتھ ساتھ صرف اسکی پریشانی۔ مایوسی۔ لاچارگی اوردنیاکی بے ثباتی اوربے رُخی تھی جواسکے اردگردگھوم رہی تھیں
پورے سفرمیں وہ بالکل گم سم تھا۔بات کرتا توکیاکرتا۔کس سے کرتا۔ اسکی تودُنیاہی بدل چکی تھی۔ وہ خالی خالی نظروں اپنے گرد و پیش کو دیکھ رہا تھا۔ پورے سفرمیں اس نے کچھ کھایا نہ پیا اورنہ ہی سویا کیونکہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔بس خاموش ! اپنے خیالوں کے محلات دھڑام سے گرتے سن رہاتھا اوردیکھ رہاتھا۔ وہ ایک نئے جھونپڑے کی تعمیر کے بارے میں بھی نہیں سوچ رہاتھا۔اس کادماغ اوردِل یہ سب سوچنے سے قاصرتھے۔
ہاں! سفرکے دوران اس نے ایک دوبارنمازپڑھی اور باقی وقت ہاتھ میں تسبیح کے دانے وقفہ وقفہ سے گھماتارہتاتھا۔
سامنے والی سیٹ پر بیٹھا ایک شخص، جس کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کانام جنید ہے اوروہ بھی پٹنہ جارہا ہے،نظام الدین کو غور سے دیکھ رہا تھا اوراس سے بات بھی کرناچاہتاتھا مگریہ سوچ کر یہ بزرگ کچھ ذکراذکارمیں مصروف ہیں،بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔ایک چھوٹے سے سٹیشن پر، جہاں گاڑی صرف چندمنٹوں کیلئے رُکی، جنیدنے نظام الدین سے پوچھ ہی لیا۔’’چاچاجی ! آپ کیلئے پانی،چائے یافروٹ لائوں۔‘‘اس پرچاچانے جواب دیا۔’’نہیں بیٹا! اسکی ضرورت نہیں ہے۔مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘
’’دیکھوچاچاجی ! آپ نے خودہی مجھے بیٹاکہا۔اب میں جوبھی لائوں گا ۔آپکوکھاناپڑے گا۔‘‘ یہ کہہ کر جنیدنیچے اُترا۔چائے پانی اورکچھ فروٹ خرید کر لایا۔ بڑے اصرار کے بعدچاچانے یہ سب کچھ کھاپی لیا۔
’’چاچاجی ۔آپ کہاں سے ہیں اورکہاںجانے کاارادہ ہے۔کیاکوئی پریشانی ہے۔اگرآپ کہیں گے تو آپ کامن ہلکاہوجائے گا لیکن اگرآپ نہیں کہناچاہتے توکوئی بات نہیں‘‘۔نظام الدین نے پہلے توکچھ نہ کہا مگرجوںجوں سفرکٹتاگیا یہ دونوں تھوڑے بہت بے تکلف ہوگئے۔
اب جنیدنے صحیح اندازہ لگایاکہ یہ بزرگ کسی بڑی پریشانی کی وجہ سے گھرچھوڑ کر آگیا ہے۔اسی لیے نہ ٹکٹ تھا نہ اٹیچی اورنہ ہی کچھ کھانے کاسامان۔ صرف ایک اکیلی اپنی جان اور وہ بھی پریشان ۔جنیدنے زیادہ کریدنے کی کوشش نہیں کی۔
بس ارادہ کیاکہ ٹرین رُکنے پروہ کسی طرح انکوتقریباً زبردستی اپنے گھرلے جائے گا۔
پٹنہ سٹیشن پر جنیدنے نظام الدین کوبڑی منت سماجت کرکے اپنے گھرآنے پر آمادہ کرلیا۔ 
گھرمیں جنیدکی بیوی نے بڑی آئوبھگت کی۔ہاتھ منہ دھو کر ۔ڈائیننگ ٹیبل پرچائے وغیرہ پی کر ادھراُدھرکی باتوں کے بعدکام کاج کے بارے میں باتیں کیں۔
پتہ چلا کہ جنیدکاریڈی میڈکپڑوں کاکاروبارہے اوربڑی اچھی طرح زندگی گذررہی ہے۔
نظام الدین نے بھی کہاکہ وہ پانچ سال قبل پولیس محکمہ سے سبکدوش ہوا ہے ۔وہ وہاں پربطور درزی تعینات ہوا تھا۔بڑی ایمانداری ،قابلیت اورخوش اخلاقی سے نوکری کی تھی۔پولیس محکمہ والے اسکو Extension دیناچاہتاتھے مگراس نے نہ مانا۔وہ اب آرام کرناچاہتاتھا۔ مگراللہ کوکچھ اورہی منظورتھا کہ یہ دن دیکھناپڑا ۔
اب آپ کہیں نہیں جائیں گے۔یہاں ہی رہیں گے ۔ہمیں بھی ایک بزرگ کی ضرورت ہے ۔آ پ صرف آرام کریں اوربھول جائیں۔جوکچھ ہوگیا ہے۔‘‘جنیدنے اطمینان دلاتے ہوئے کہا۔
یہ سب سُن کرنظام الدین کے چہرے پرکھوئی ہوئی رونق لوٹ آئی۔چہرہ کھِل اُٹھا۔مایوسی اور افسردگی جیسے یکدم غائب ہوگئی۔’’آپ آرام کریں۔ میں دوکان پرجاتاہوں۔بڑے دنوں بعد وہاں کے کام کاج کی بھی خبرلینی ہے۔کیونکہ کافی دن گھرسے باہررہاتھا۔‘‘ کہتے ہوئے جنید اُٹھنے لگا۔
’’نہیں بیٹا! میں بھی تمہارے ساتھ آئوں گا‘‘۔’’ ٹھیک ہے !آئیں۔‘‘جنید نے حامی بھری۔شام کوکھانا کھانے کے بعدکاروبار کے بارے میں میں بڑی تفصیل سے باتیں ہوئیں۔نظام الدین نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ پولیس محکمہ میں وردیاں تیارکرنے کاکام شروع کیا جائے کیونکہ اس کی اسکوپوری جانکاری تھی۔ وہ بڑے بڑے پولیس افسروں کواچھی طرح جانتاتھا۔ان میں سے ایک یہاں پٹنہ میں ایس ایس پی تعینات تھا۔سوچااسکی وساطت سے باقی واقف کارافسروں کے ایڈریس مل سکتے ہیں اوران سے میں بڑی آسانی سے تعریفی خطوط حاصل کئے جاسکتے ہیں وہ ضروربضرور اُسکی سفارش کریں گے۔نوکری کے آخرکے سالوں میں وہ صرف بڑے افسروں کی ہی وردیاں سینے کا کام کرتا تھا ۔ سبھی بڑے بڑے افسراسکے کام سے خوش تھے۔وہ ضروراسکی مدداورحوصلہ افزائی کریں گے۔ پھرایسا ہی ہوا ۔اسکو بہت زیادہ کام مل گیا۔ ہرافسراسکی مددکرنااپنا فرض سمجھ رہاتھا۔
مختصریہ کہ دوتین سال کے اندر ان کاکام اچھا خاصا بڑھ گیا اور نام بھی پیدا ۔آہستہ آہستہ دوکان کمپنی بن گئی اور ’’نظام الدین ڈریسرس‘‘ (Nizam Din Dressers)کا مارکیٹ میں ایک اعتبار پیدا ہوگیا۔ اسی دوران سماجی بہبود محکمہ کی طرف سے پٹنہ میں ’’سبکدوشی کے بعدپولیس افسروں کی آبادکاری‘‘ایک کانفرنس کاانعقاد ہوا۔اس کانفرنس میں پولیس، پیراملٹری فورسز اور سماجی بہبودمحکمہ کے افسران کوشمولیت کیلئے مدعوکیاگیاتھا۔ ان افسران میں نظام الدین کابیٹاجاوید بھی تھا جوکہ اس محکمہ میں اب بڑاافسرتعینات ہوچکاتھا۔ کانفرنس کے اختتام پرایک نمائش کابھی انتظام کیاگیاتھا،جس میں مختلف دلچسپی کے سٹال بھی رکھے گئے تھے۔خاص کر جن کمپنیوں اور فرموں نے اس کانفرنس کوSponsorکیاتھا ۔Nizam Din Dressers بھی ان میں ایک تھا۔
کانفرنس ختم ہونے پر تمام مدوعین نے مختلف سٹالوں کامعائینہ کیااوران میںدلچسپی لی۔
نظام الدین نام اورDressers نام دیکھ کرجاوید کے اندر کچھ ہلچل سی مچی۔ اپنے لاپتہ باپ سے رشتہ کی مری ہوئی رگ ذرابھڑک اُٹھی۔اس نے اس سٹال کے کونٹر پر بیٹھے شخص سے دوکان کے نام بارے وضاحت پوچھی اوریہ کہ وہ اس شوروم کے مالک سے ملناچاہتاہے۔
’’ابوجی ! آپ سے کوئی صاحب ملناچاہتے ہیں۔‘‘جنیدنے اندرکوآوازلگائی۔ 
’’بیٹاآیا۔‘‘وہ باہر آیا تو باپ کو دیکھ کر جاوید سکتے میں آگیا۔ اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔
’’اسلام علیکم اباجی!آپ اوریہاں۔ہم نے کہاں کہاں آ پ کونہیں تلاش کیا۔کیاکیانہیں کیا۔پولیس میں رپٹ لکھوائی ۔ریڈیواور ٹی وی پر اوراخباراوں میں اشتہارات دے مگرکہیں سے آپ کاپتہ نہ مل سکا۔شکرہے ۔آج آپ مل گئے۔ آپ کے بغیرگھربالکل سوناہے۔سبھی گھروالے آپ کے بغیرپریشان ہیں۔‘‘ جاوید نے ایک ہی سانس میں کہا۔
’’ابوجی! کیایہ آپکے فرزندہیں‘‘۔جنیدنے جانناچاہا۔’’اچھاابوجی! آپ ان سے باتیں کریں میں دوسری دوکان پرسے ہوکر آتاہوں‘‘۔ ’’نہیںبیٹا!میں نے کیاباتیں کرنی ہیں‘‘۔’’اباجی!‘‘جاویدنے بیچ میں بولناچاہا۔’’آپ میری بات کاجواب نہیں دے رہے ہیں۔‘‘
’’ابوجی !۔میں دوسری دوکان پرجائوں۔‘‘جنید نے پھر کہا۔’’ نہیں آپ ادھررہو۔میں وہاں جاتاہوں‘‘۔ نظام نے اُسے روکا۔ 
’’اباجی! آپ میری بات کاجواب نہیں دے رہے ہیں‘‘۔ جاوید نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے پھر باپ سے مخاطب ہونے کی کوشش کی۔ 
’’میں تمہارا کیاجواب دوں۔ جواب دینے کورہاہی کیاہے۔‘‘نظام الدین نے  لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔
’’میںتمہاری بات سنوں؟جس کوپالاپوسا ،پرورش کی، تعلیم دلائی ،شادی کرائی اوراسکے بدلے تم نے مجھے آدھی رات کوگھرسے نکلنے پرمجبور کیاتھا، یااسکی سنوںجس کونہ میں نے نہ جنا،نہ پالاپوسا، نہ پڑھایالکھایا، نہ جان نہ پہچان اورجس نے مجھے بے سہارا سمجھ کرگھرمیں لایا۔عزت دی۔گھرکااورکاروبارکامالک بنایا۔‘‘نظام الدین نے استہفامہ انداز میں جاوید کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’ابوجی !مبارک ہو آپ کو۔آپ کاعمرہ کاٹکٹ اورویزہ ابھی ابھی آگیاہے ۔اگلے سوموارآپ کی فلائٹ ہے۔‘‘جُنیدنے خوشی سے چلّاتے ہوئے کہا۔’’شکریہ بیٹے جُنید‘‘۔ نظام الدین کا چہرہ کھل اُٹھا اور دونوں کی طرف دیکھ کے کہا
ہاں جاوید!اس بار وہاں آپ کے لیے کیادُعامانگوں ؟۔اوربیٹے جُنید!آپ کے لیے کیامانگوں؟۔
جنیدنے جواباً کہا۔بس ابوجی! آپ خیریت سے جائیں ۔خیریت سے واپس آئیں۔مجھے آپ مِلے جیسے سب کچھ مِل گیا۔
 
رابطہ، جموں
 موبائل نمبر؛8825051001
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

۔ ₹ 2.39کروڑ ملازمت گھوٹالے میںجائیداد قرق | وصول شدہ ₹ 75لاکھ روپے 17متاثرین میں تقسیم
جموں
’درخت بچاؤ، پانی بچاؤ‘مشن پر نیپال کا سائیکلسٹ امرناتھ یاترا میں شامل ہونے کی اجازت نہ مل سکی ،اگلے سال شامل ہونے کا عزم
خطہ چناب
یاترا قافلے میں شامل کار حادثے کا شکار، ڈرائیور سمیت 5افراد زخمی
خطہ چناب
قومی شاہراہ پر امرناتھ یاترا اور دیگر ٹریفک بلا خلل جاری
خطہ چناب

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?