حمیرا فاروق
انسانی زندگی میں ’’فیصلہ‘‘ ایک بہت اہم اور قیمتی لفظ ہے اور یہی وہ فیصلہ ہے جو ہر ایک کو زیست کے کسی نہ کسی موڑ پہ لینا پڑتا ہے، لیکن یہ قدم انسان کو سوچ سمجھ کر لینا پڑتا ہے اور یہی بردباری کی علامت بھی ہے۔ بالخصوص ایک مومن کو اگر دیکھا جائے تو اس کو شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے فیصلے لینے ہوتے ہیں، کیونکہ فہم و فراست ودیعت رکھ کر انسان کی تخلیق کی گئی ہے۔ انسان کی زندگی میں اگر اس کا کوئی معاملہ خود سے سلجھ نہیں رہا ہو تو اپنی عقل سے کام لے کر ان لوگوں سے مشاورت کرنا چاہیے جو اسلامی اسرار و رموز سے آشنا، زندگی کے تجربات سے واقف اور خدا ترس ہوں۔ پھر اگر معاملہ وہاں پر بھی نہ سلجھے تو اسلام نے ہمارے لیے نہ جانے اور کتنی راہیں ہموار کی ہیں جن کو اپنا کر ہم اپنے معاملے کا صحیح طریقے سے حل نکال سکتے ہیں۔
کبھی انسان عقل کو اپنی خواہشات سے مار کر ہار جاتا ہے کہ ایک وقت اور کیفیت اس پہ ایسی سوار ہو جاتی ہیں کہ پھر بدگمانی اور گلے اس کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ وہ ہر وقت اور ہر نقطہ پر شک و تذبذب کا شکار بن جاتا ہے۔ سکون سے محرومی اور دنیا اس کے لیے ایک وبال بن جاتی ہے۔ وہ کبھی مرنے کی خواہش تو کبھی زندگی سے بیزار نظر آتا ہے۔کبھی خالق کو بُرا اور کبھی مخلوق سے جھگڑا مول لیتا ہے۔ کبھی لوگوں میں بیٹھ کر اپنی فالتو باتوں کو اس قدر پھیلانے لگ جاتا ہے کہ لوگ اس سے ترکِ تعلق کر لیتے ہیں۔ سماج میں اس کی کوئی وقعت نہیں رہتی، کیونکہ یہ جہاں جہاں جاتا ہے، صبر و شکر کی زبان کاٹ کے چلا جاتا ہے۔ وہ حکمت و اخلاص سے دن بہ دن دور چلا جاتا ہے۔ اس کو حقوق کا خیال نہیں رہتا، کیونکہ اس نے ایسے فیصلے لیے ہوتے ہیں جو سراسر ناجائز اور باعث ذلت ہوتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ہر ایک کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی زندگی میں اپنی من مرضی کا فیصلہ قبول کر لیتا ہے جسے اسلام نے ہمیں کرنے کی اجازت نہیں دی، کیونکہ اگر کوئی شخص اسلام کے اصولوں کو چھوڑ کر کوئی غیر اسلامی طریقہ اختیار کرے تو وہ ناکام و نامراد ہی رہ جاتا ہے، لہٰذا زندگی کا ہر فیصلہ رب کے قوانین کے مطابق کرنا چاہیے، کیونکہ ہم نے جب اسلام کو قبول کیا تو وہاں سمعنا و اطعنا کی تصدیق کا بھی عمل دخل رہا اور اسلام قبول کرنے کا مطلب ہی ہے کہ بندہ پورا کا پورا اس میں داخل ہو جائے۔ بندہ آدھی رہ چلے تو منافقت میں ملوث ہو جاتا ہے۔
آج کل انسان کو مختلف شیطانی قوتوں سے بہلایا اور بہکایا جاتا ہے جس سے انسان اصل مقصود کو بھول کر زندگی کے اصولوں سے کوسوں دور چلا گیا، کیونکہ طغیانی ہتھیار انسان پہ زیادہ اثر انداز ثابت ہو ہیں، برعکس نیک کاموں کے۔ چنانچہ ہمیں یہ علم ہے کہ انسان کو اللہ تعالی ہر دن ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ خود کو سنبھال کر توبہ و استغفار کرے۔اگر انسان واقعی اللہ کے قوانین کے مطابق چلے تو قوم میں امن و امان کی فضا قائم ہو جائے گی۔ قوم کی سوچ میں تغیر برپا ہو جائے گا۔ نسل نو کے فیصلے خوشگوار اور عدل و انصاف پر مبنی ہوں گے۔ ایک مہذب قوم اس طور پر اس کے سامنے آجائے گی جہاں انسان اپنے طریقہ زیست کو اس سلیقے سے بسر کر لیں کہ نافرمانی اور بددیانتی کا نام و نشان باقی نہ رہے۔کیونکہ اگر دیکھا جائے کہ انسان جب اللہ تعالی قوانین کے مطابق چلتا ہے تو ان کے معاملات کی قدردانی وہ ذات خود کرتی ہے۔ وہ اپنی من مانی سے زندگی کو بسر نہیں کرتے۔ گلہ شکوہ تو رب سے دور کی بات، اُف تک نہیں کرتے۔ انہیں قبر حشر یوم جزا پہ مکمل بھروسہ ہوتا ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو قابل رشک اور محترم ٹھہرائے گئے۔
بلا شبہ انسان زندگی میں مختلف پڑاؤ کا عمل داخل ہے کبھی کوئی آزمائش بن کر تو کبھی فرمائش بن کرآتا ہے۔ گویا کہ یہ نظام زندگی ہے اور ایک طریقے کا حسن بھی ۔
انسان کائنات کی ہر چیز میں ایک جہان نو تلاش کر سکتا ہے بشرط یہ کہ وہ اہل بصیرت میں سے ہو وہ زندگی کے مصائب کو بھی ایک خوبصورت شکل دیکھ کر رب کی کریمی کو دیکھ سکتا ہے بس فرق انسان کے فہم و قلب میں ہے ،اگر واقعی انسان انسانیت کی حق اد ئیگی کرتا ہے تو یہ صفت اس میں ازبس پیوستہ ہوں گی ۔
وہ انسانیت کے ساتھ پیش آنے کا سلیقہ جانتا ہوگا، اس کی زبان سے انسانیت کو شفا ملتی رہے گی، وہ ایک رہنما کے طور پر جانا جائے گا جو ہر ایک کو صراط مستقیم کی راہ کا مسافر بنائے گا کیونکہ اس کو جب عقل سلیم سے نوازا گیا تو پھر بھرپور لوگوں کو فائدہ دیتا رہے گا اور ذات بھی اس کی توقیر اس قدر بڑھا دیتا ہے کہ لوگ ان کو مشاورت کے لیے بلاتے ہیں۔انسان کو اگرچہ زندگی میں نہ جانے کتنے فیصلے لینے پڑیں، چاہے وہ کاروبار، شادی اور پڑھائی سے متعلق ہوں یا زندگی کے دیگر معاملات کے بارے میں ہوں، ہر وقت دائرۂ شریعت کے اندر اندر اپنے فیصلے طے کرنے چاہیے، جہاں اللہ کی رضا ہو۔ ورنہ اگر اس کے خلاف کر دیا تو بھٹکتے پھرتے راہوں کے راہی بن کر پژمردگی کے ساتھ اپنی اس مہکتی زندگی کو دبا کے چلنا پڑے گا۔ جہاں اس کی وجاہت اور قدر و منزلت نہ ہوگی وہاں فقط پشیمانی کا عالم اور ہم ہوں گے اور وہ بھی تب جب اس جہاں کا مقدر بجھ گیا ہوگا۔ ایک نئی دنیا برپا ہونے جا رہی ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اور ہماری محرومی ہمارے ساتھ ہو،بلکہ ہم رب کی ہر رضا پہ لبیک کرنے والے ہوں۔ بس یہ یاد رہے کہ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہیں رکھنا۔ تبھی آپ ایک کامیاب روح کے مالک بن کرعزت و راحت کے حق دار ٹھہروگے۔
[email protected]