اسلام آباد//نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن کا ذکر کرتے ندامت ہوتی ہے۔سپریم کورٹ سے نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم نواز شریف نے احتساب عدالت میں پیشی کے بعد پریس کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر اپنی نااہلی کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔منگل کو اسلام آباد میں اپنی جماعت کے اہم رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ جب انصاف کا عمل انتقام کا عمل بنا دیا جائے تو سزا خود عدالتوں کو ملتی ہے۔’انصاف کا عمل جب انتقام کا عمل بنا دیا جا ئے تو پہلی سزا کسی فرد کو نہیں ملتی، خود عدالتی عمل کو ملتی ہے، فیصلوں کی ساکھ نہ رہے تو عدالتوں کی ساکھ بھی نہیں رہتی۔‘پنجاب ہاؤس میں منعقدہ پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'ایک عدالت نے پہلے پٹیشن کو فضول اور ناکارہ قرار دیا پھر اسی عدالت نے مقدمے کی سماعت شروع کردی، کوئی ثبوت نہ ملا تو اسی عدالت نے پراسرار طریقے سے ایک جے آئی ٹی بنا ڈالی، اسی عدالت نے جے آئی ٹی کی نگرانی بھی سنبھال لی، اسی عدالت نے کبھی پانچ اور کبھی تین جج صاحبان کے ساتھ فیصلے بھی سنا دیے، پھر اسی عدالت نے نیب کو حکم دیا کہ اپنے سارے ضابطے توڑ کر براہ راست ریفرنس دائر کرو، پھر اسی عدالت نے نیب کا کنٹرول بھی سنبھال لیا، پھر وہی عدالت احتساب کورٹ کی نگران بھی بن گئی اور اگر ضرورت پڑی تو یہی عدالت میری آخری اپیل بھی سنے گی۔'انھوں نے سوال کیا کہ ’کیا اسے قانون کی پاسداری کہتے ہیں؟ کیا آئین کا آرٹیکل 10 اے یہی کہتا ہے؟ کیا 'فیئر ٹرائل'اسے ہی کہتے ہیں؟‘نواز شریف نے یہ بھی کہا ’ہماری تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن کا ذکر کرتے ندامت ہوتی ہے۔'اپنی نااہلی کا ذکر کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ اس فیصلے پر سمجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص حیران ہے اور کوئی اسے تسلیم نہیں کر رہا۔ان کا کہنا تھا کہ اہلیت اور نااہلیت کے فیصلے 20 کروڑ عوام کو کرنے دیے جائیں کیونکہ ’ایسے فیصلوں کے خلاف عدالت میں اپیل ہو یا نہ ہو عوام کی عدالت میں اپیلیں لگتی رہتی ہیں اور ایک فیصلہ تو میرے حق میں آیا۔‘نواز شریف نے کہا کہ وہ جھوٹ پر مبنی بے بنیاد مقدمے لڑ رہے ہیں لیکن انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک مقدمہ لڑتے رہیں گے جو ’قائداعظم کے پاکستان، اس کے 20 کروڑ عوام، آئین اور جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی، ووٹ کے تقدس کا مقدمہ ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ 'وقت آگیا ہے کہ 70 سال پرانے کینسر کا علاج تجویز کریں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ پاکستان خدا ناخواستہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائے۔'انھوں نے کہا کہ آمریت کے دور کے پٹے ہوئے مقدمات کو ان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور وہ آمرانہ دور میں بھی قانون اور انصاف کے عمل سے گزرے ہیں اور آج جمہوری دور میں بھی اسی عمل سے گزر رہے ہیں۔اْن کے مطابق دورآمریت میں بھی انھیں دو دو اپیلوں کا حق حاصل تھا جس سے آج کے جمہوری دور میں انھیں محروم کر دیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی اپیل پر فیصلہ تو این اے 120 کی عوام نے سنا دیا ہے۔