ایک وقت تھا جب دو لوگ آپس میں ملتے ، سلام دعا کر تے بغل گیر ہوتے، حال احوال کے بعد اردگرد کے حالات پر باتیں چھیڑتے،کبھی ملکی حالات، سیاسی حالات ، معاشی مشکلات اور گھریلو مسائل پر گفتگو ہوتی تو کبھی نجی مسئلوں میں ایک دوسرے سے مشاورت کر تے ۔ گھروں میں بھی روز شام کو بیٹھک لگتی ، افرادِ خانہ بات چیت کرتے ، ہنسی مذاق کر تے۔کوئی کسان ہوتا تو بیٹھک میں فصل کی پیداوار یا کٹائی کی باتیں زیر بحث آتیں ، تاجر ہوتا تو بازار وکاروبارپر تبادلہ ٔ خیال کیا جاتا، طالب علم ہوتا تو امتحان اور ٹیوشن پرتوجہ مبذول رہتی۔ غرض اپنے اپنے ذوق کی باتیں ہوتیں ۔عورتیں بھی گھروں میں اکثر شادی بیاہ سے لے کر تعزیت کی مجالس پر گفتگوئیں کر تیں ۔ غرض ہر طرح کے لوگ ایک دوسرے سے مل کر اپنی سنا تے اوروں کی سنتے ۔ اب یہ سب یاد ِ ماضی ہے۔ اب لوگوں کے پاس وقت ہے نہ فرصت،اس لئے ملاقاتوںکے بجائے صرف سوشل میڈیا ہی رشتوں رابطوں کا پل بنا ہوا ہے ۔اس وقت انسانی رشتے نبھانے کے لئے فیس بک اور واٹس اَپ ہماری زندگی کا جزولاینفک بن چکے ہیں ۔ یہ رابطے کا سستا ، برق رفتاراور آسان ذریعہ ہیں۔ اگر آپ جرنلسٹ بننا چاہتے ہوں مگر آپ کی تحریر اخبار یا جریدے نے ردکردی تو آپ فیس بک پر اپنا بلاگ لکھ کے راتوں رات جرنلسٹ بن سکتے ہیں۔اگر آپ تھوڑی سی شوخ طبیعت کے مالک مگر جیب سے خالی ہیں تو کچھ دن فیس بک پر’’ ٹریولنگ ٹودبئی، انگلینڈ، آسٹریلیا ‘‘وغیرہ کا سٹیٹس ڈال دیں اور پھر گوگل انکل کے تعاون سے ان جگہوں کی تصاویر شیئر کر دیں، ہوگیا آپ کا کام ، آپ کے فرینڈز آپ کو ڈھیر ساری شبھ کا منائیں اور مفت مشورے دیں گے ، بعض لوگ مختلف مقامات کی لوکیشن بتاکر وہاں ودچار دن گزارنے کی صلاح دیں گے ۔ دوسرے لفظوں میں جھوٹی کہا نیاں گھڑ کر اپنا کام چلاسکتے ہیں ۔ یہ ہے ہمارے دور کے عجوبے جن سے ہمیں روز پالا پڑتا ہے۔
مڑواہ کشتواڑ، حال: مسلم یونیورسٹی علی گڑھ