جہاں سائنس نے انسان کء بہت ساری گتھیاں سلجھادی ہیں، وہیں انفارمیشن تکنالوجی نے انسان کو سوشل میڈیا کا سہارا دے کر معومات ، تفریحات اور باہمی روابط کابے تاج بادشاہ بھی بنا یا ہے ۔ ایک وقت تھا جب پرنٹ میڈیا کا دور تھا ۔اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا کا چرچا خوب رہا ، جب کہ آج کل کا دور سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے ۔سوشل میڈیا کے ذریعہ انسان گھر بیٹھے دنیا کے کونے کونے کے حرکات وسکنات کی نبض تاڑ سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا کا سب سے بڑا ہتھیار فیس بُک ہے جو بہت بڑی تیزی سے ہماری زندگی میں شامل ہو ا ہے کہ بزرگ حضرات سے لے کر بچوں تک کو اپنے ساتھ جکڑ لیا ہے کہ ان کا ساتھ پل بھر بھی نہیں چھوڑتا۔ جموں وکشمیر میں فیس بُک کا مستقبل دوسری چیزوں کے برعکس کافی شاندار لگ رہا ہے۔ یہاں کے لوگ اس سے اتنے جڑے ہیں کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے فیس بک کو خبر کی جاتی ہے کہ میں فلاں کام کرنے جارہا ہوں یاجا رہی ہوں،گھروں والوں کو خبر ہو یا نہ ہو مگر فیس بک دوستوں کو خبر ضرو ر ہوتی ہے کہ کون شخص کس جگہ پر کیا کرنے جا رہا ہے۔اورہاں نوجوانوںکی ایک بڑی تعداد بھی اس پر نظر آرہی ہے جو اسے ا پنی طاقت وصلاحیت منوانے کے طور بھی استعمال کرتے ہیں اور کوئی کوئی شاید اسی وساطت سے اپنی بے روزگاری کا حل ڈھونڈنکالتا ہے ۔ان کے ساتھ ساتھ مختلف نیوز ایجنسیاں اور مختلف شعبوں وغیرہ کے گروپس وابستہ ہونے کے سبب وقتافوقتاً لوگوں کو مختلف قسم کی معلومات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں جو کہ خود میںایک بہت اچھا کام ہے۔ صحیح معنوں میں دیکھئے تو یہ سوالات ذہن میں کلبلاتے ہیں کہ آخرکہ فیس بُک کس چیز اور فائدے کے لئے بنایا گیا ہے اور کیا جموں کشمیر کے لوگ اس کا صحیح استعمال کرتے ہیں؟ فیس بُک اس لئے وجود میں آیا تھا کہ کسی شخص کاتعارف جاننے ، اُس کے خیالات سے جان کاری حاصل کر نے کے لئے لوگ ایک دوسرے کی کتاب زندگی پڑھیں ، آپس میں خیالات کا تبادلہ کریں اور مختلف معاملات پراپنی اپنی رائے دیںا ور ممکنہ حدتک بزنس یا سماجی رابطہ کو فروغ دیا جائے، لیکن جموں وکشمیر میں فیس بُک کا حا ل اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ یہاں فیس بُک کے ذریعے احمد کی ٹوپی ولی کے سر پر رکھی جا تی ہے ،بارہا فیس بک پر نام کسی اور فوٹو کوئی اور چلاتا ہے ۔اس سے بڑھ کر یہ کہ بعض اوباش لڑکے بوجوہ عورتوں کے نا م سے اپنے اکاؤنٹ چلاتے ہیں ۔لڑکیاں بھی کچھ کم نہیں Angel یا Princes کے بغیر اپنا جھوٹا نام بھی لکھتی ہیںاور کرنٹ لوکیشن کی جگہ USA.Dubi ,Arab وغیرہ لکھتی ہیں جب کہ اپنے گاؤں یا محلے سے بھی باہر نہیں نکلی ہوتی ہیں ۔پروفیل میں کلاس کی جگہ اَن پڑھ بھی کم سے کم گریجویٹ یا ماسٹرس لکھتے ہیں ،کا م کی جگہ تو بے کا ر بھی منیجر سے کم نہیں لکھتے ،ر ہا جنم دن اس پرکوئی پابندی نہیں ،پچاس ستر والے بھی بیس تیس سال عمر والے نظر آتے ہیں۔آج کل لوگ نیندسے جاگنے کے بعد پہلے فیس بُک پر نظر ڈالتے ہیں، اس کے بعد منہ ہاتھ دھونے کی رسم ادا کی جاتی ہے ۔شادی ہو یاتعزیت یا کوئی اور فنکشن ، اس کی اطلاع فیس بک پہ دینا اب ضروری سمجھا جاتا ہے ۔فیس بُک ایک طرح سے بعض عورتوں کے لئے زیادہ دلچسپ چیز ہے کہ ان کو غیر محرم مردوں سے بھر پورتوجہ ملتی ہے۔ فیس بُک کے حوالے سے کشمیر کا حال ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں کے بہت سارے لوگ اب تمام مسائل ِحیات بھول کر فیس بک کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب فیس بک کو نصاب ِ زندگی کا اہم مضمون سمجھا جائے گا۔مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہے کہ ہر چیز کے مثبت ومنفی عناصر ہوتے ہے اور اگر ہم فیس بُک کا صحیح اور میفد استعمال کریں تو اس کی وجہ سے نہ صرف ہم اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے پیغامات پر آراء بھی حاصل کر سکتے ہیں جو ہماری زندگی کے کام آئیں ۔اس سے نہ صرف اپنے بزنس کو فروٖ غ دیا جاسکتا ہے بلکہ کسی بھی خطے میں موجودکسی بھی صالح اور نیک اوساف کے مالک افراد سے رابطہ قایم کیا جاسکتا ہے ۔مختلف ایجنسیوں اور مختلف گروپوں کی مدد سے اپنے علم میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔سماجی حالات اور مختلف قسموں کی خبروں سے انسان نبر آزما ہو سکتا ہے ۔ آج کل کشمیر میں واٹس اَپ اور فیس بک پر پابندی عائد کر کے حکومت اپناسارا نزلہ سماجی سائٹس پر گرارہی ہے۔
دیالگام ۔۔۔اسلام آباد کشمیر
8602147215